
بھارت کے سٹریٹیجک ریسرچ سنٹر چندی گڑھ نے کچھ سال پہلے Musharraf's Wars کے نام سے ایک کتاب شائع کی جس کے مصنف جنرل راجندر ناتھ نے پاکستان کے خلاف چاروں جنگوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ جنرل موصوف ہندوستانی فوج کے قابل افسروں میں شمار ہوتے تھے اور پاکستان کے خلاف تمام جنگوں میں بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر حصہ لے چکے تھے۔ جنگِ کارگل میں ایک سکھ بٹالین کی کارکردگی کی بڑی تعریف کی گئی جس سے میری اپنی کئی یادیں تازہ ہو گئیں جو میں اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔
ویسے تو عسکری زندگی میں مجھے ہندوستانی فوج کے کئی افسروں اور جوانوں سے کسی نہ کسی طور واسطہ پڑا لیکن سب سے زیادہ میں سکھوں سے متاثر ہوا۔ سکھوں کا حس مزاح، مذہب سے لگا¶، زبان سے پیار، دوستی اور دشمنی کے اصول اور سب سے بڑھ کر صاف گوئی یا بغیر لگی لپٹی بات کرنا جیسی عادات مجھے پسند آئیں۔ یہ ظالم اچھے دوست لیکن بے رحم اور دلیر دشمن بھی ہیں۔ زندگی کی صعوبتوں میں کھل کر ہنسنا جانتے ہیں۔ سمجھ نہیں آتی کہ ایسے کھلے ڈلے لوگ تنگ نظر اور سنگ دل ہندو¶ں کے ساتھ گزارہ کیسے کرتے ہیں۔ بہر حال یہ ان کا اپنا معاملہ ہے۔
میری زندگی میں سکھوں سے پہلی ملاقات 1965ءکی جنگ کے بعد ڈھا کہ میں ہوئی جب ایک ہندوستانی فوجی وفد ایک مشترکہ سرحد کی حد بندی کے سلسلے میں وہاں آیا۔ اس وفد کی قیادت ایک بریگیڈیئر صاحب کر رہے تھے اور ایک سکھ کرنیل غالباً ڈپٹی لیڈر تھے۔ میٹنگ کے بعدلنچ تھا اورلنچ میں گریژن کے تمام افسران مع جی اوسی ایسٹرن کمان موجود تھے۔
میں اس وقت سیکنڈ لیفٹیننٹ تھا۔ اس رینک کے لیے احکام یہ ہوتے ہیں کہ سیکنڈ لیفٹیننٹ صرف نظر آنا چاہیے، سنائی نہیں دینا چاہیے، لہٰذا ہم چند سیکنڈ لفٹین کونے کھدرے میں کھڑے ہو کر باتیں سننے میں محو تھے۔ کھانے کے دوران کچھ افسروں نے گوشت کی ڈشز اٹھا اٹھا کر بطور میزبانی سردار صاحب کو پیش کیں۔ دو دفعہ تو سردار صاحب نے شکریہ کے ساتھ واپس کر دیں۔ جب تیسری دفعہ ایک افسر نے پھر ان کی توجہ اس طرف دلائی تو سردار صاحب ٹھیٹھ پنجابی زبان میں گویا ہوئے، ’تساں مسلے مینوں اکالی دل تو جوت پوا کے رہو گے‘ یعنی آپ مسلمان آفیسر ز مجھے اکالی دل والوں کی طرف سے جوتے پڑوائیں گے۔ ایک قہقہہ لگا کر بات مو¿ثر طریقے سے ختم ہو گئی۔
بعد میں اپنے ملٹری اتاشی کی معرفت پتا چلا کہ سکھ گوشت کو تقریباً حرام سمجھتے ہیں۔ اگر یہ کھا لیتا تو اپنے مذہبی لیڈروں کی طرف سے سردار صاحب کی درگت بنتی۔ یہ بات وہ آرام سے بھی سمجھا سکتا تھا لیکن جس انداز میں سردار صاحب نے بات کی اس سے محفل کھل اٹھی کیونکہ کسی بھی سینئر آفیسر سے اس قسم کے جواب کی توقع نہیں ہوتی خاص کر جب سفارتی آداب کی پابندی بھی ملحوظ خاطر ہو۔
دوسری ملاقات 1967ءمیں ہوئی۔ میں اس وقت پاکستان ملٹری اکیڈمی میں انسٹرکٹر تھا۔ ایک پاسنگ آ¶ٹ پریڈ کے موقع پر صدر پاکستان سلامی لینے کے لیے تشریف لائے۔ پروٹوکول کے مطابق جب صدر پاکستان سلامی کے لیے تشریف لاتے ہیں تو تمام سفراءحضرات اور ملٹری اتاشی بھی آتے ہیں، لہٰذا بھارت کے سفیر اور ملٹری اتاشی بھی موجود تھے۔ پاسنگ آ¶ٹ پریڈ کے بعد لنچ کا اہتمام تھا۔ سب افسران آپس میں گھل مل گئے۔
ایک نوجوان افسروں کا گروپ بھارتی ملٹری اتاشی کے گرد بھی جمع ہو گیا۔ عام گپ شپ کے دوران ہمارے ایک میجر صاحب جو بعد میں جنرل کے عہدے تک پہنچے نے سردار صاحب کی یونیفارم پر لگے میڈلزکی طرف اشارہ کر تے ہوئے کہا، ’سر! آپ کے اور ہمارے باقی تمام میڈلز تو ایک جیسے ہیں لیکن آپ کا ایک میڈل علیحدہ رنگ کا ہے جو ہم سے نہیں ملتا۔ یہ کس محاذ پر آپ کو ملا؟‘ ہمارا خیال تھا کہ شاید پاکستان کے خلاف جنگ میں ملاہوگا۔سردار صاحب نے بغیر کسی جھجک کے کہا، ’ایہہ بہادری دا تمغہ آپاں نوں چینیاں توں مارکھان لئی ملیا ائے‘۔ خوب قہقہہ لگا اور سب سے بلند آواز سردار صاحب کی اپنی تھی۔ اس سے مراد 1962ءکی وہ ہند چینی جنگ تھی جس میں بھارت ذلت آمیز شکست سے دوچار ہوا تھا۔ میرے خیال میں کوئی بھی اور جواب یا لیکچر اس خوبصورتی سے ہمیں چپ نہیں کرا سکتا تھا جس طرح اس ایک فقرے نے چپ کرادیا۔
1971ءکی جنگ کے بعد جب حالات معمول پر آ گئے تو کبھی کبھار ہمارے سپاہیوں کا سکھ سپاہیوں سے ٹاکرا ہو جاتا ۔درحقیقت چھمب سیکٹر میں دریائے توی کے اس طرف ہم لوگ تھے اور اس طرف ایک سکھ بٹالین۔ سردیوں میں دریا میں پانی کم ہو جاتا ہے اور کچھ مقامات پر دریا کا پاٹ بھی اتنا وسیع نہیں رہتا۔ عام تو نہیں لیکن کبھی کبھار دریا کے کنارے دوسری طرف سکھ سپاہی بھی چلتے پھرتے نظر آتے۔
آہستہ آہستہ جب ایک دوسرے سے خوف کم ہوا تو کبھی کبھار ایک دوسرے پر جملہ کس دیتے ۔ ایک دن شام کے وقت کمالیہ کے ایک گا¶ں کا ایک رہائشی سپاہی محمد بوٹا یو نہی ٹہلتا ہوا تو ی کے کنارے جا بیٹھا۔ موسم بڑا خوشگوار تھا۔ بوٹا ترنگ میں آگیا۔ بے خیالی میں ذراسی بلند آواز میں ایک ٹپہ گایا، ’کو ٹھے توں اڈ کانواں، چھٹی جدوں مل ویسی میں اڈ کے گھر آنواں‘۔ بوٹا نے ابھی ختم ہی کیا تھا کہ توی کی دوسری طرف سے آواز آئی: ’چپ اومسلے، ہنڑا ٓپاں دی واری اے۔‘
ادھر سے سردار جی نے جواب دیا، ’کو ٹھے توں اڈ کا نواں، چھٹی جدوں مل ویسی و نج سجناں نوں گل لانواں‘۔ بوٹے نے پھر جواب دیا، ’کو ٹھے توں اڈ کانواں، پر دیسی سجناں نوں کیویں جا کے گل لانواں‘۔ اب پھر سردار جی کی باری تھی۔ انھوں نے جواب دیا، ’کو ٹھے توں اڈ کا نواں، ول ویسوں وطناں تے اس نوکری نوں بھاہ لانواں‘۔ اتنی دیر میں ایک گرج دار آواز آئی،’بکواس بند کر او اودھم سنگھ۔ ہر ویلے چھٹی چھٹی، چھٹی نئیں ملے گی۔‘ اودھم سنگھ نے رونے والی آواز میں جواب دیا، ’ استاد جی بے شک چھٹی نہ دیو، پر شریکاں دے سامنے بے عزتی تے نہ کرو۔‘
ایک دفعہ اس سکھ بٹالین میں کوئی تقریب تھی۔ سکھوں نے کچھ ناچ گانے والی عورتیں بلوائیں جو سیر کرتی ہوئی توی کے کنارے پر آ گئیں۔ فوری طور پر بھاگتے ہوئے ایک کپتان صاحب آئے جو انھیں واپس لے گئے۔ دوسرے دن ایک سردار صاحب توی کنارے ٹہل رہے تھے کہ ادھر سے ہمارے ایک سپاہی نے طنز کیا، ’ سردار صاحب، کل تے بڑی قلفیاں منگوائیاں جے!‘ سردار صاحب نے غصے سے جواب دیا، ’چپ اومسلے، دل نہ جلا، قلفیاں نئیں کاٹھے اخروٹ سن‘۔ سردار جی کا اشارہ فوری طور پر تو سمجھ نہ آیا بعد میں پتا چلا کہ جنھیں ہمارے جوان ناچنے گانے والی عورتیں سمجھ رہے تھے وہ در اصل خواجہ سرا سے تھے۔
٭....٭....٭