اتوار، 28 صفر المظفر 1444ھ، 25 ستمبر 2022ء

حمزہ شہباز نے پنجاب میں سستا آٹا سکیم ختم کرکے عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے دعوے پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پنجاب حکومت نے سستا آٹا سکیم ختم کرکے عوام کے پیٹ پر لات ماری ہے جسے ریلیف کا نام دیا جارہا ہے۔
جناب حمزہ صاحب! اسی کو تو سیاسی جنگ کہا جاتا ہے کہ نئی حکومت سابقہ حکمرانوں کے عوام دوست منصوبے ختم کرکے اپنے نئے منصوبے شروع کرتی ہے اور من پسند لوگوں کو نوازتی ہے اور اس جنگ میں عوام بے چارے بلاوجہ مارے جاتے ہیں۔ حمزہ صاحب کو صرف سستے آٹے کی فکر کھائے جا رہی ہے‘ انہیں باقی اشیاء کے ہوشربا نرخ نظر نہیں آرہے ۔ پنجاب حکومت نے تو صرف آٹا سکیم ختم کرکے عوام کے پیٹ پر لات ماری ہے‘ وفاقی حکومت کی طرف سے بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کے آئے روز بڑھتے نرخوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔ عوام کو بجلی کے تو اتنے جھٹکے مارے جا رہے ہیں کہ ان کا پورا جسم ہی مشقِ ستم بن گیا ہے۔ رہی سہی کسر پٹرول بم گرا کر پوری کر دی جاتی ہے۔ ارے یہ حکومت تو پریشان حال عوام کی زندگی میں آسودگی لانے کا عزم لے کر آئی تھی‘ لیکن اس نے تو مہنگائی کے عالمی ریکارڈ بھی توڑ ڈالے۔ جناب عوام کا مسئلہ صرف سستے آٹے کا حصول ہی نہیں‘ دوسری عام اشیاء بھی ہیں جو انکی دسترس سے باہر ہو چکی ہیں۔ اس لئے آپ کا یہ ردعمل عوام کو ہضم نہیں ہوگا کیونکہ عوام ان سیاسی ہتھکنڈوں سے واقف ہو چکے ہیں۔اگرآپ نے عوام کی واقعی ہمدردیاں حاصل کرنی ہیں تو انہیں حقیقی ریلیف دینے کا سوچیں۔ لیکن لگتا نہیں کہ یہ حکومت عوام کو ریلیف دے پائے گی کیونکہ اس نے آئی ایم ایف کی جو کڑی شرائط قبول کی ہیں‘ ان پر عملدرآمد کرنا اسکی مجبوری بن چکی ہے۔ حکومت کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ عوام انہیں اپنا رہنماء اسی امید پر منتخب کرتے ہیں کہ وہ کسی بھی بیرونی یا اندرونی دبائو میں آئے بغیر اپنی ہر پالیسی عوام کے مفاد میں ہی مرتب کرینگے۔ مگر افسوس یہاں تو سب کچھ اسکے برعکس ہوتا ہے۔
٭…٭…٭
امریکی صدر پھر پریشان‘ سٹیج سے اتر کر واپسی کا راستہ بھول گئے۔
یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں‘ بڑے ممالک کے رہنمائوں کے ساتھ ایسے واقعات ہو ہی جاتے ہیں کیونکہ وہ بغیر پروٹوکول کے ہی سفر کرتے اور تقریبات میں آتے جاتے ہیں۔ یہ پروٹوکول کے چونچلے تو ہمارے جیسے ملکوں میں ہی پائے جاتے ہیں۔ قدم قدم پر رہنمائی اور حفاظت کیلئے چاک وچوبند بندے مامور ہوتے ہیں۔ اگر ہماری اشرافیہ آنکھیں بند کرکے بھی چلے تو راستہ نہیں بھولے گی۔ حیرت کی بات ہے کہ جو ملک انتہائی غربت اور پسماندگی کا شکار ہو‘ دوسروں کی امداد پر پلتا ہو‘ ایسے ملک میں حکمرانوں اور سیاسی رہنمائوں کا شاہانہ پروٹوکول کسی صورت وارا نہیں جاتا۔ پروٹوکول لینے والوں کو ان غریب غرباء عوام کو نہ صرف قدر کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے بلکہ انہیں دعا بھی دینی چاہیے جن کے پیسے سے انہیں یہ عیاشیاں میسر آئی ہیں۔ عوام اپنا پیٹ کاٹ کر انہیں تو ہر سہولت فراہم کر رہے ہیں تاکہ ’’ملکی ترقی‘‘ میں مگن انکی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہ ہو اور یہ لوگ بھی عوام کو ہر ممکن سہولت فراہم کریں۔ مگر مجال ہے کہ انہیں اپنی سہولیات کے آگے عوام کی تکلیف کبھی نظر آئی ہو۔برطانیہ جیسے امیر ملک کا وزیراعظم آج بھی اپنے دفتر سائیکل پر جاتا نظر آتا ہے جبکہ ہمارے رہنمائوں کے پروٹوکول کو دیکھا جائے تو لگتا ہے ہمارا ملک امداد لینے والا نہیں‘ بلکہ یہ دنیا کو امداد دینے والا ملک ہے۔ 2010ء میں آنیوالے سیلاب کے موقع پرسیلاب زدگان کی مدد کیلئے آنیوالی انجلینا جولی بھی ہماری اشرافیہ کی شاہانہ زندگی پر حیرت کا اظہار کرچکی ہیں۔
٭…٭…٭
پاکستانی بائولنگ‘ بیٹنگ فلاپ‘ انگلینڈ نے تیسری ٹی ٹونٹی سیریز جیت لی۔
دو روز قبل بابر اعظم اور رضوان نے اسی انگلینڈ کی ٹیم کو ناکوں چنے چبوا دیئے تھے‘ ان دونوں میں مل کر 200 رنز کا پہاڑ جیسا ٹارگٹ بغیر کسی نقصان سے پورا کیا تھا جس پر پوری قوم جھوم اٹھی تھی اور خوشی سے بغلیں بجا رہی تھی۔ بے شک اس جیت پر انگلینڈ سے بدلہ لے کر قومی ٹیم نے قوم کا سر فخر سے بلند کیا لیکن صرف ایک آدھ میچ جیت کر قوم کے دل نہیں جیتے جا سکتے۔ ریس کے مقابلے میں جب تک فنشنگ لائن پر سب سے پہلے نہیں پہنچا جاتا‘ جیت تسلیم نہیں ہوسکتی۔ درمیان میں چاہے گھوڑا سب سے آگے ہی کیوں نہ دوڑ رہا ہو۔ بہرحال کرکٹ کو تو ویسے بھی بائی چانس والی گیم کہا جاتا ہے۔ اس میں جب ہمارے کھلاڑیوں کا ’’انٹ پخا‘‘ ہو تو دنیا کی بڑی سے بڑی ٹیم اسکے سامنے ڈھیر ہو جاتی ہے اور جس میچ میں ٹیم کا انٹ نہ ہو تو اس میں یہ ڈھیر ہوجاتی ہے۔ کھیل میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے‘ بات یہ ہے کہ ٹکر کا مقابلہ کرکے ہارنے پر دکھ نہیں ہوتا‘ جہاں بائولنگ‘ بیٹنگ‘ فیلڈنگ تینوں ہی فلاپ ہو جائیں تو اس سے قوم کے جذبات مجروح ہو جاتے ہیں۔ اس بات کا ادراک ہماری قومی ٹیم کو ہونا چاہیے۔
٭…٭…٭
اتر پردیش میں ہندو لڑکی سے شادی کرنیوالے مسلمان کو 5 سال قید کی سزا۔
یہ ایک ا یسے ملک میں ہو رہا ہے جہاں کے دانشور اور حکمران دنیا بھر میں یہ دعوے کرتے پھرتے ہیں کہ ہم ایک آزاد اور سیکولر ملک میں رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں ذات پات دین و دھرم میں کوئی تفریق نہیں سمجھی جاتی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بھارت ایک انتہائی متعصب ہندو ملک ہے جہاں سفاکی کے ساتھ ذات پات‘ دین و دھرم میں بہت بڑی تفریق پائی ہے۔ ہندوئوں کے اس تعصب کی بھینٹ اقلیتیں اور خاص طور پر لاکھوں مسلمان چڑھ چکے ہیں اور یہ سلسلہ سالہا سال سے جاری ہے۔ بھارت میں مسلمان سب سے بڑی اقلیت ہے۔ اپنے کالے قانون کے تحت بھارت مسلمانوں کی مذہبی آزادی اور دین اسلام کیخلاف اپنی سازشیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ کبھی گائے، کبھی مندر ، کبھی مسلمان سے شادی کے نام پر اختلافات اور فتنوں کو ہوا دی جاتی ہے۔ گزشتہ روز اترپردیش میں ایک دوسرے مذہب کی لڑکی سے شادی کرنے پر مسلمان نوجوان کو 5 سال قید کی سزا سنا دی گئی۔ الزام یہ لگایا کہ اس نے غیر مذہب کی لڑکی کو زبردستی مسلمان کر کے اس سے شادی کی ہے۔ یہ وہی ’’لوجہاد‘‘ والی کہانی ہے جس کی بنیاد پر مسلمان لڑکوںسے ہندو لڑکیوں کی شادی روکنے کیلئے ایسی سزا کا قانون منظور کیا گیا تھا۔ حیرت تو یہ ہے کہ اس قانون کا اطلاق صرف مسلمانوں پر ہی ہوتا ہے۔ کیونکہ آج تک مسلمان لڑکی سے شادی کرنے پر کسی ہندو لڑکے کو سزا نہیں دی گئی۔ یہ بھارت کا دوغلا پن نہیں تو اور کیا ہے؟
٭٭٭٭