شیرینی سے بھیک تک
ایک دربار کے پاس سے گزر ہوا۔دربار سے ملحق سڑک پر لوگوں کا جمِ غفیر تھا۔کچھ لوگ آپس میں الجھ رہے تھے۔ دیکھا تو ایک بندے کے سر سے خون بہہ رہا تھا۔معلوم کرنے پر پتا چلاکہ لنگر کے چاول بانٹے جا رہے تھے۔پہلے لینے کی دھکم پیل کے دوران دو لوگ آپس میں جھگڑ پڑے ۔ بات تو تکار سے بڑھتی ہوئی ’©ڈانگ سوٹے‘ تک پہنچی جس کے نتیجے میں ایک شخص شدید زخمی ہو گیا۔ ضرب لگانے والا گرفت کے ڈر سے رفو چکر ہو گیا۔ باقی لوگ قطار میں کھڑے لنگر کے حصول کے لیے اپنی باری کے انتظار کے ساتھ ساتھ لڑائی کے تماشے سے بھی محظوظ ہوتے رہے۔
اسی طرح ایک دن گاﺅں کی مسجد کے دروازے کے سامنے ایک نوجوان امتحان میں پاس ہونے کی خوشی میں شیرینی بانٹ رہا تھا۔خبر ہونے پر بچے اور خواتین شیرینی لینے کے لیے ننگے پاﺅں بھاگے چلے آ رہے تھے۔مجھے یہ دیکھ اور سن کر حیرت ہوئی جب ایک خاتون نے دوسری خاتون سے پوچھا،’بھاگی بھاگی کدھر جا رہی ہو؟‘ وہ بولی،’مسجد کے باہر شیرینی بٹ رہی ہے ، میں نے سوچا ’ثواب جوگی‘ میں بھی لے آو¿ں‘۔ یہ جملہ سننا تھا کہ میرے ذہن میں ایک سوال نے سر اٹھایا،’کیا شیرینی بانٹنے والے کواس کی سخاوت کا ثواب ملے گا یا یوں ’ خشوع و خضوع‘ سے بھاگ بھاگ کر شیرینی لے کر کھانے والے ثواب کے اصل مستحق گردانے جائیں گے۔ صاحبِ ثروت گھروں کے افراد کا صدقہ و خیرات کو ثواب سمجھ کر کھانے کا فلسفہ میرے لیے ’نا قابلِ ہضم‘تھا۔
مکہ و مدینہ شریف کے مقدس مقامات ہوںیا ایران و عراق میںشہدائے کربلا اور معصومین کی زیارات ہوں، دیگر مسلم دنیا کی طرح پاکستان سے بھی اہلِ ایمان وہاں قافلہ در قافلہ تشریف لے جاتے ہیں۔ ان قافلوں میں کئی ایک متمول گھرانوں کے افراد بھی شامل ہوتے ہیں۔ ان میں سے اکثر ایسے مقاماتِ ارفع پر غرباءاور مساکین کے لیے بانٹے جانے والے صدقہ و خیرات کے لنگر اور شیرینی کو بھاگ بھاگ کے محض اس تیقن سے لے کرکھاتے ہیں کہ مفت میں بانٹی ہوئی چیز لے کر کھانے کاثواب بطور عبادت ملتا ہے ۔ گویا ہم بطور قوم ’انھے وا‘ کھانے پر یقین رکھتے ہیں ،بھلے کوئی صدقہ و خیرات بانٹے یا ہدیہ ،ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں۔ آپ نے یقینا مشاہدہ کیا ہو گا کہ جہاںکوئی چیز مفت میںتقسیم ہو رہی ہو تو ’سمجھدار لوگ‘ خواتین یا بچوں کو آگے کر دیتے ہیںتاکہ ان کا لحاظ کرتے ہوئے انھیں دوسروں سے پہلے ’مالِ ثواب‘ میسر آئے۔
بنیادی طورپر لے کر کھانے کی’ثوابی تربیت‘ کا اہتمام ہمارے ہاں بچپن سے ہی کر دیا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں مدرسوں میں بچوں کی کثیر تعداد زکوٰة اور صدقات کے لنگر وںپر پل کر جوان ہوتی ہے ۔ ان پر لے کر کھانے کے ثواب کی ’فضیلتیں‘ اپنا گہرا اثر چھوڑتی ہیں جو ان کی زندگی کے کسی نہ کسی پہلو سے ہمیشہ عکس پذیر رہتا ہے۔ بطور ثواب لے کر کھانا ہماری گھٹی میں بیٹھ گیا ہے ۔ ےہ عادت ’ ترقی کی جملہ منازل‘طے کرتے کرتے ہماری انفرادی حیثیت سے نکل کر معاشرتی اور قومی سطح تک آگئی ہے۔ خدا معلوم ،ہمارے اندر مفت میں لے کر کھانے کا ’فلسفہ¿ ثواب‘ کہاں سے وارد ہوا۔ کچھ دینے کے نام پرہمیں کچھ کچھ ہونے لگتا ہے۔ آج اگرآپ کسی دوست کو کسی فلاحی کام ےا تنظیم میں شمولیت کی دعوت دیں تو اس کا آپ سے پہلا سوال ہو گا، ’ مجھے اس سے کیا فائدہ ہوگا؟‘ گویا جب تک ہمیں اس بات کی تسلی نہ ہو جائے کہ ہمیں کچھ ملے گا، ہم کسی کے لیے کچھ کرنے والے نہیں۔ ہم توکسی کو دعا دینے سے بھی کتراتے ہیں اور سلام میںپہل کرنے میں بھی بخیل ہیں۔جس قوم کو لینے کی لت پڑ جاتی ہے، اس میں لالچ آجاتا ہے۔آج انعام کے لالچ میں آئے روز لوگ لٹ رہے ہیں ،یہ جانتے ہوئے بھی کہ نہ تو انھوں نے کبھی کسی لاٹری یا گیم شو میں حصہ لیا تھا اور نہ ہی وہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت مالی معانت کے اہل یا رجسٹرڈ ہیں۔
اساتذہ کے ایک تربیتی ادارہ میں تعینات درد دل رکھنے والے ایک فاضل دوست نے بات کیا بتائی اور رلا کے رکھ دیا۔ انھوں نے بتایا کہ ادارہ میں نرسری سطح کے اساتذہ کے لیے ایک غیر ملکی ادارہ کی مالی معاونت سے تربیتی کورس کا اہتمام کیا گیا۔ کورس کے دورانیہ میں متعلقہ امدادی ادارہ کا ایک نمائندہ مشاہدہ کے لیے حاضر ہوا۔ اپنی جانکاری کے لیے فاضل دوست نے اس نمائندہ سے غیر رسمی گفتگو کے دوران دریافت کیا کہ اس تربیت کے لیے وہ رقم کس مد سے فراہم کرتے ہیں۔ نمائندے نے تھوڑی لیت و لعل کے بعد بتایا ،’ہمارے ملک میں نرسری کے بچے ایک دن کے ناشتے کے پیسے جمع کرواتے ہیںتاکہ باقی دنیا میںبھی نرسری کے بچوںکی تربیت ان کے جیسی اعلیٰ کی جائے۔ ہمارے ان بچوں کی ا یک دن کی ناشتے کی بچت ان اساتذہ کی تربیت کا سامان ہوئی ہے۔‘ ان غیر ملکی بچوں کو اپنے ایک دن کے ناشتے کی قربانی دے کر ’محض دلی اطمینان‘ حاصل ہوا ہو گا لیکن ہمیں شاید اس کا ’ثواب‘ ملا ہو۔
ؒؒلے کر کھانے کی عادت نے آج ہمیں کہاںلا کر کھڑا کیا ہے۔ کیا پہاڑوں جتنے بڑے قرضے بلا وجہ چڑھ گئے ہیں؟ کیا عوام مہنگائی اور غربت کے ہاتھو ں شوق سے دوچار ہیں؟ ایسا ہرگز نہیں۔ ہماری ’از راہِ ثواب‘ کھانے کی عادت نے ہمیں یہاں لا کھڑا کیا ہے۔ جس کے ہاتھ جو آیا ہے اس نے از راہِ ثواب کھاےا ہے۔ آج قوم عالمی بھکاری بن کے رہ گئی ہے۔ بین الاقوامی مالی ادارے ہماری داد رسی کو نہ آئیںتو ہمارے’ڈیلے‘ باہر کو آ جائیں۔آئیے ارادہ کریں کہ ہم اپنے بچوں کی تربیت اس راستے پر کریں گے جو وطن کو خودداری کی منزل پر پہنچانے کا باعث بنے۔