کشمیر کو تو بخش دیں
ٹانگیں کھینچنے کا کلچر پورے ملک ایک جیسا ہی ہے ہمیں اپنے حساس معاملات کا بھی ادراک نہیں ہوتا، افراتفری پیدا کر کے ہم خوش رہتے ہیں چلتے کام میں ٹانگ اڑا کر کام خراب کرنے پر ہم فخر محسوس کرتے ہیں۔ اپنی انا اور ضد پر ملک قربان کر دیتے ہیں۔ اندازہ کریں کہ اچھا بھلا ملک چل رہا تھا۔ رجیم چینج کے نام پر ایسا ان ریسٹ پیدا ہوا ہے کہ پورے ملک میں غیر یقینی کا بسیراہے۔ کوئی کام کرنے کے لیے تیار نہیں سیاستدان آپس کی لڑائی میں لگے ہوئے ہیں۔ بیورو کریسی تماشہ دیکھ رہی ہے بلکہ بیورو کریسی نے تو کافی عرصہ سے ہاتھ کھڑے کر رکھے ہیں اور ایسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ صرف ڈنگ ٹپا رہے ہیں۔ ان کی وہ والی دلچسپی نہیں جو ریاست کو بچانے اور آگے لے کر جانے والی ہوتی ہے۔ ریاست اور شہریوں کی فلاح وبہبود سے ان کا کوئی تعلق واسطہ نہیں رہا۔ ایسے لگتا ہے بیورو کریسی ریاستی امور سے لاتعلق ہو گئی ہے۔ وفاقی حکومت سے لے کر تمام صوبائی حکومتوں آزاد کشمیر و گلگت بلتستان کی حکومتوں میں بھی اتنی غیر یقینی ہے کہ صبح گئے یا شام گئے والی کیفیت ہے۔ ملکی معاملات چل نہیں رہے بلکہ رینگ رہے ہیں۔ اس سے کم تر لفظ مجھے مل نہیں رہا یا یوں کہہ لیں کہ ہر چیز سٹک ہو چکی ہے، صرف حکمران اپنی مرضی کے وہ والے کام کر رہے ہیں جس کا انھیں سیاسی طور پر فائدہ ہو یا ذاتی فائدہ ہو البتہ دکھاوئے کے لیے ہم سب کو بہت فکر ہے۔ اوپر انٹرو میں ایک بات کہی کہ ہم چلتے کام میں ٹانگ اڑا کر اسے خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کا عملی مظاہرہ ہم نے آذاد کشمیر میں دیکھا۔ لاہور اور اسلام آباد کے صحافیوں کے ایک وفد نے آزاد کشمیر کا وزٹ کیا ۔اس کے اہتمام میں ہمارے دوست نصر اللہ ملک اور سیکرٹری لاہور پریس کلب عبدالمجید ساجد کا کلیدی کردار تھا، وہاں ہماری وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس، صوبائی کابینہ کے ارکان سے ملاقاتیں ہوئیں ،مختلف بریفنگز میں شرکت کی یہ جان کر بہت دکھ ہوا کہ وفاقی حکومت محض مخالف سیاسی جماعت کی حکومت کو تنگ کرنے کے لیے ایسے ایسے حربے استعمال کر رہی ہے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ آزاد کشمیر کی حکومت پہلے ہی محدود وسائل میں کام کر رہی ہے۔ اوپر سے وفاقی حکومت نے طے شدہ بجٹ سے بھی 15 ارب روپے روک لیے ہیں۔ وفاقی حکومت کے لیے یہ مونگ پھلی کے دانے جتنی رقم ہے لیکن آزاد کشمیر کے لیے یہ زندگی موت کا مسئلہ ہے، پورے ملک کے ملازمین کی تنخواہیں بڑھی ہیں لیکن کشمیر کے ملازمین کی تنخواہوں پر کٹ لگانے کا کہا جا رہا ہے جس پر کشمیر کے ملازمین نے ہڑتال کر دی۔ بڑی مشکل سے حکومت نے انھیں دلاسے دے کر راضی کیا ہے۔ یہ ایک قسم کی کشمیر کے ملازمین کو کشمیر حکومت کے خلاف اکسانے والی بات ہے۔ وفاقی حکومت کشمیر کے شہریوں کے صحت کارڈ کی سہولت کو ڈسٹرب کرنے کے لیے ان کا پریمیم ادا نہیں کر رہی۔ آزاد کشمیر کی حکومت کو جکڑنے کے لیے مالی بحران پیدا کر دیا گیا ہے۔ اگر وفاقی حکومت نے ان کے فنڈز جاری نہ کیے تو شاید اگلے مہینے آزاد کشمیر حکومت ملازمین کو تنخواہیں بھی نہ دے پائے لیکن ان تمام تر مشکلات کے باوجود درویش صفت وزیر اعظم سردار تنویر الیاس نے ہمت نہیں ہاری۔ انھوں نے کہا کہ ہم بینکوں سے او ڈی لیں یا اپنے طور پر مینج کریں، ہم کسی صورت بھی نہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں پر کٹ لگائیںگے، نہ ہی عوامی منصوبوں پر کوئی سمجھوتہ کریں گے۔ مجھے تو وزیر اعظم آزاد کشمیر بہت سادہ اور درویش لگے ایک تو وہ اپنی ہر گفتگو سے پہلے اور ہر تقریب کے آغاز پر تلاوت قرآن پاک کے بعد خود بھی درود شریف پڑھتے ہیں اور شرکاءکو بھی پڑھواتے ہیں۔ ہمارے اعزاز میں منعقدہ ڈنر جس میں کشمیر کی تمام اہم شخصیات مدعو تھیں تینوں تقریبات میں انھوں نے اپنے ساتھ حاضرین کو بھی باآواز بلند درود شریف پڑھوایا۔سادگی اتنی کہ وزیراعظم ہاﺅس میں کوئی روائیتی پروٹوکول نہیں صرف ایک حوالدار رینک کا دربان کھڑا ہے۔ انھوں نے اعلیٰ عدلیہ کے حاضر سروس جج کی سربراہی میں پریس فاونڈیشن بنائی ہوئی ہے جس میں سرکاری عہدیداروں کے علاوہ صحافیوں کے منتخب نمائندے بھی شامل ہیں۔ فاونڈیشن کے پاس کروڑوں کے فنڈز موجود ہیں اس میں حکومت کی سالانہ گرانٹ کے علاوہ میڈیا کے ادارے بھی اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ دنیا سے رخصت ہو جانے والے صحافی کے لواحقین کی 6لاکھ کی مالی مدد کی جاتی ہے بیمار ہونے والے صحافی کو 50 ہزار تک کی مالی مدد دی جاتی ہے اسی طرح صحافیوں کے بچوں کی تعلیم پر پہلے 50 فیصد تک کے اخراجات فاونڈیشن ادا کرتی تھی اب صحافیوں کے بچوں کی مکمل تعلیم مفت ہے، چاہے وی پی ایچ ڈی کریں یا کوئی بھی اعلی پروفیشنل تعلیم حاصل کرنا چاہے تمام اخراجات فاونڈیشن برداشت کرتی ہے۔ قرآن حفظ کرنے والے صحافیوں کے بچوں کو خصوصی سکالر شپ دیا جاتا ہے صحافیوں کے بچوں کی شادی پر بھی گرانٹ دی جاتی ہے اور صحافیوں کی اپنی شادی پر بھی ایک لاکھ کی گرانٹ دی جاتی ہے بلکہ آزاد کشمیر کی حکومت وانفارمیشن کا شعبہ اتنا فراخ دل ہے کہ صحافیوں کو دوسری شادی پر بھی گرانٹ دے کر دوسری شادی کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ پریس فاونڈیشن کا ممبر بننے کے لیے میرٹ کی چھاننی سے گزرنا پڑتا ہے۔ ممبر بننے کے لیے امید وار کی کم از کم تعلیم بی اے اور تجربہ کا معیار مقرر ہے اس کے لیے باقاعدہ ایک ٹیسٹ پاس کرنا بھی ضروری ہے پاکستان بھر کی صحافی تنظیموں اور حکومتوں کو صحافیوں کی فلاح وبہبود کے لیے اس پیٹرن کا جائزہ لینا چاہیے خصوصی طور پر پنجاب جرنلسٹ سپورٹ پروگرام کے حوالے سے نظرثانی کی اشد ضرورت ہے۔ہم خالد گردیزی اور پی آئی ڈی کے ڈائریکٹر راجہ امجد منہاس کی میزبانی کبھی نہیں بھول سکتے جو دن رات ہمارے ساتھ رہے اور ہمارا بہت خیال رکھا۔