بلاول بھٹو کا دورہ۔دعوے ادھورے رہ گئے
پی ڈی ایم سے علیحدگی کے بعد پیپلزپارٹی نے اپنا سیاسی سفر اکیلے طے کرنے کی حکمت عملی بنائی ہے اس سلسلے میں عام رائے یہ ہے کہ تاریخ میں پہلی بار پیپلزپارٹی پرو اسٹیبلشمنٹ کی حیثیت سے اپنے سیاسی سفر پر رواں دواں ہے شاید اسی لئے اس کے اشارے پر پیپلزپارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری میدان عمل میں سرگرم ہو چکے ہیں حال ہی میں ان کا جنوبی پنجاب کا دورہ بھی اسی سلسلے کی کڑی بتائی جارہی ہے۔آصف علی زرداری کے بطور صدر مملکت کے پانچ سالہ دور حکومت کے بعد پیپلزپارٹی کے ہاتھ سے پنجاب نکل گیا تھا کیونکہ اس دوران پی پی پی کارکنوں کو جس برے طریقے سے نظرانداز کیا گیا اور مسلم لیگ ن کے ساتھ گرمجوشی سے ہاتھ ملانے سے بھی پارٹی کارکن اپنی قیادت سے بے حد مایوسی کا شکار ہوئے جس پر انہوں نے اپنا رخ پی ٹی آئی کی طرف کرلیا کیونکہ انہیں عمران خان کی شکل میں سیاسی قائد مل گیا پیپلزپارٹی کی جانب سے مسلسل نظرنداز کئے جانے پر پیپلزپارٹی کے کارکنوں نے اپنی منزل پی ٹی آئی کو بنا لیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 2018 ء کے الیکشن میں پنجاب سے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ کے لئے امیدوار کم ہی ملے جو میدان میں اترے ان میں سے بیشتر ضمانت بھی ضبط کروا بیٹھے تھے تاہم پیپلزپارٹی کو موجودہ حکومت کی مایوس کن کارکردگی کی وجہ سے جنوبی پنجاب میں اپنے سابق جیالوں کی پیپلزپارٹی میں واپسی کی امید ہے اسی لئے بلاول بھٹو زرداری نے اس خطے کی جانب اپنا رخ کیا ہے یوں جنوبی پنجاب کے پسماندہ ضلع لودھراں میں بھی بلاول بھٹو کہروڑپکا میں پیپلزپارٹی کے ضلعی صدر امداد اللہ عباسی کے منعقدہ ورکرز کنونشن میں آئے ان کے ساتھ سابق وزیراعظم سید یوسف رضاگیلانی اور سابق گورنر مخدوم احمد محمود سمیت دیگر مرکزی قائدین بھی ہمراہ تھے کہروڑپکا میں ورکرز کنوشن پیپلزپارٹی کے جیالوں کے لئے حوصلہ افزاء تھا کیونکہ اس میں انہیں اپنی مرکزی قیادت کوقریب سے دیکھنے اور سننے کا موقع ملا اس سلسلے میں امداد اللہ عباسی اور ان کی ٹیم سٹی صدر راؤ محمد نعیم، آفتاب علی بابر خاں اور رانا ابراہیم اوڈ و دیگر ورکرز نے کنونشن کی کامیابی کے لئے بہت محنت کی جس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی رہے اس دوران بلاول بھٹو دنیاپور میں پیپلزپارٹی کے دیرینہ جیالے اور فیڈرل کونسل کے رکن ملک اقبال راندو کے گھر بھی تشریف لے گئے جہاں انہوں نے ان کی فیملی سے ملاقات بھی کی کیونکہ ملک اقبال راندو ذوالفقار علی بھٹو کے جیالے اور ان کا بینظیر بھٹو شہید سے ایک ورکر کی حیثیت سے قریبی تعلق رہا ہے اس لئے بلاول بھٹو اپنے بڑوں کے تعلق کو برقرار رکھنے کے لئے ایک عام کارکن کے گھر پہنچے جو کسی بھی سیاسی جماعت کے کارکن کیلئے اعزاز کی بات ہے تاہم بلاول بھٹو کی دنیاپور آمد پر کارکنوں کو امید تھی کہ وہ ان سے مل سکیں گے لیکن سخت سیکورٹی اور خالصتاً نجی ملاقات کی وجہ سے کارکنوں کو ان سے دور رکھا گیا جس سے انہیں سخت مایوسی ہوئی جبکہ کہروڑپکا میں ورکرز کنونشن میں شرکت کے لئے بھی جب وہ دنیاپور سے گزرے تو بغیر رکے ہی کہروڑ پکا چلے گئے تھے حالانکہ مقامی قیادت نے ریلوے پھاٹک سے براستہ کاظمی چوک سے کہروڑ سپر چوک تک سڑکوں پر پیپلز پارٹی کے جھنڈے اور استقبالی بینرز آویزاں کئے گئے تھے لیکن ان کا قافلہ ٹی ایچ کیو سے گرلز کالج بائی پاس سے سپرہائی وے کی طرف موڑ دیا گیا جبکہ جیالے اور عام لوگ کاظمی چوک میں بلاول بھٹو کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے وہاں انتظار کرتے رہے دعوؤں کے باوجود کسی بھی سیاسی شخصیت نے پیپلزپارٹی میں شامل ہونے کا اعلان نہیں کیا جبکہ کارکن توقع لگائے بیٹھے تھے کہ شاید کوئی نہ کوئی معروف سیاسی شخصیت پیپلزپارٹی میں اپنی شمولیت کا اعلان ضرور کرے گی۔تاہم بلاول بھٹو کی آمد ممبر فیڈرل کونسل اقبال راندو کے لئے ضرور خوش آئند تھی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے لئے بھی ایک خوشگوار مثال بھی کہ پارٹی قائدین اگر اپنے عام کارکنوں سے اپنا تعلق اس قدر مضبوط رکھیں تو کارکن کبھی اپنی پارٹی سے مایوس نہیں ہوتا ۔