ہفتہ ‘ 17؍ صفر‘ 1443ھ‘ 25 ؍ ستمبر2021ء
نواز شریف لندن میں کرونا ویکسین لاہور میں لگ گئی
یہ عجب معمہ ہے۔ بندہ لندن میں ہے اور اس کی کرونا ویکسی نیشن لاہور میں ہو رہی ہے۔ ہے نہ کمال کی بات۔ نجانے کیوں سارے حسن و جمال و کمال ہمارے ہاں ہی پائے جاتے ہیں۔ ایسی انہونی وارداتیں دوسرے ممالک میں شاذ و نادر ہی ہوتی ہیں۔ ان ممالک کی بات نہیں کرتے جو ہم سے بھی گئے گزرے ہیں۔ وہاں بھی ہماری طرح اسی طرح کی انہونیاں ہوتی رہتی ہیں۔ مردے ووٹ ڈالتے ہیں۔ قتل اور اغوا میں ملوث ہوتے ہیں۔ دودھ پیتے بچے کلاشنکوف اٹھائے ڈاکے ڈالتے ہیں۔ اب اسی طرح کی یہ واردات بھی عجیب ہے۔ میاں جی لندن میں بیٹھے ہیں اور انکے ہمزاد نے یہاں آ کر کرونا ویکسی نیشن کرا لی ہے۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ یہ سب ڈرامہ بازی ہے میاں صاحب یا حکومت کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔ خدا جانے یہ کہانی کس نے گھڑی اور کیوں۔ اسکے مقاصد کیا تھے۔ بہرحال جو ہونا تھا ہو گیا۔ عوام طرح طرح کی باتیں کر رہے ہیں اس لیے اب حکومت پنجاب کو خود ایکشن لینا پڑا ہے۔ میاں جی کا شناختی کارڈ ویکسین لگانے والوں کے ہتھے کیسے چڑھا یہ خود ایک حیرت انگیز راز ہے۔ اب ہسپتال کے دو ملازمین کو معطل کر دیا گیا ہے۔اس پر کوئی کیا کہہ سکتا ہے ، سوائے اس کہ ہمارے ہاں بڑے بڑے شہروں میں چھوٹے موٹے ایسے حادثے اکثر ہوتے ہیں اور ہم لوگ ایک آدھ قہقہہ لگا کر گزر جاتے ہیں۔ کیونکہ سوچنے سمجھنے ، یاد رکھنے کی ہمیں عادت نہیں ہے۔ اب کرے کوئی اور بھرے کوئی۔ویسے بھی آج کل اطلاع یہی ہے کہ لوگ پیسے دیکر بنا انجکشن لگوائے ویکسینیشن سرٹیفکیٹ لے رہے ہیں۔ کئی واقف کاروں نے یہ بات ازخود بتائی بھی اور سرٹیفکیٹ دکھایا بھی ہے۔ آگے خدا جانے سچ کیا ہے۔
٭٭٭٭٭
50 روپے چوری کا شبہ ، دکاندار نے 2 بچوں کو پنجرے میں بند کر دیا
یہ ظالم شخص واقعی انسان کہلانے کا حقدار نہیں۔ اسے بچوں پر ذرا بھی ترس نہیں آیا ایسی وحشیانہ سزا دیتے ہوئے اور پھر اسے یہ اختیار کس نے دیا ہے کہ وہ خود ہی الزام لگا کر خود ہی سزا دے۔ 50 روپے کی چوری کا صرف شبہ تھا۔ شبہ کی بنیاد پر تو عدالتیں بھی بڑے مجرموں کو چھوڑ دیتی ہیں۔ رعایت دیتی ہیں۔ مگر اس ظالم دکاندار نے 8 اور 9 سال کے دو بچوں کو پکڑ کر مرغیوں کے پنجرے میں بند کر دیا۔ صرف یہی نہیں اتنے بڑے ڈاکوئوں کو نشان عبرت بنانے کیلئے بازار کے بیج میں پنجرہ رکھوا دیا۔ ان بچوں پر کیا گزری ہو گی ان کی ذات پر نفسیات پر اس گھنائونی سزا کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ اس کا اندازہ بھی ہے کسی کو۔وہ اب ساری زندگی سبکی محسوس کرینگے۔ اس بازار سے گزرنا ان کیلئے مشکل ہو جائیگا جہاں انکی تذلیل ہوئی ہے۔ اس طرح انکی شخصیت پر منفی اثر پڑیگا۔ یورپ میں امریکہ میں ایسا واقعہ ہوا ہوتا تو پورا ملک سراپا احتجاج ہوتا ان بچوں کو حکومتی خرچ پر بہترین نفسیاتی علاج کرایا جاتا تاکہ ان کا صدمہ کم ہو وہ نارمل زندگی کی طرف لوٹ آئیں مگر ہمارے ہاں ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ لوگ خاموشی سے یہ سب کچھ ہوتا دیکھتے رہے۔ اب پولیس نے اسے پکڑ کر حوالات میں بند کر دیا ہے۔ امید ہے سول سوسائٹی اس مسئلے پر اپنا کردار ادا کریگی تاکہ ایسے ملزموں کو کڑی سزا ملے۔ ہمارے ہاں دکانوں ، ورکشاپوں ، منڈیوں، ہوٹلوں پر کام کرنے والے ننھے بچوں کے ساتھ ایسے واقعات میں جو کچھ ہوتا ہے اس پر بھی وقت آ گیا ہے کہ ایکشن لیا جائے اور اس سلسلے میں حکومتی قوانین پر سختی سے عمل کروایا جائے، خود یہ لوگ سدھرنے والے نہیں۔
٭٭٭٭٭
برطانوی وزیر اعظم اور ڈونلڈ ٹرمپ نے عمران خان کی تعریفوں کے پل باندھ دئیے
افغانستان سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی باحفاظت واپسی کیلئے ہمارے وزیر اعظم نے جو کردار ادا کیا ہے پوری دنیا اس کی معترف ہے۔ امریکہ اور برطانیہ ہی نہیں جرمنی ، کینیڈا ، فرانس اور دیگر یورپی ممالک نے بھی اس ضمن میں پاکستان کے کردار کی بے حد تعریف کی ہے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن تو خاص طور پر ہر جگہ پاکستانی وزیر اعظم کیلئے رطب اللسان رہتے ہیں اور ان کی بہت تعریف کرتے ہیں۔ یہ تعریف منہ دیکھی یا جھوٹی نہیں کہ کوئی اس پر اعتراض کرے۔ یہ بڑی حقیقت پسندانہ تعریف ہے۔ اگر پاکستانی وزیر اعظم اپنا اثر و رسوخ استعمال نہ کرتے افغان طالبان کو اتحادی اور امریکی فوجیوں کی باحفاظت سے واپسی پر آمادہ نہ کرتے تو جو کچھ ہوتا وہ ہماری توقعات سے بھی زیادہ بدتر ہوتا۔ برطانوی وزیر اعظم نے تو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کے دوران یہ تک کہہ دیا کہ دنیا بھر کے رہنمائوں کیلئے عمران خان کے اقدامات مشعل راہ ہیں۔ یہ پاکستان کیلئے ، عمران خان کیلئے ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔ اب برطانوی کرکٹ بورڈ والوں کو ازخود شرم سے ڈوب مرنا چاہئے جنہوں نے جلد بازی میں پاکستان دشمن بھارت کے پراپیگنڈے میں آ کر بے بنیاد خدشات پر پاکستان کا دورہ ملتوی کر دیا۔ اسکے اس فیصلے پر خود برطانوی عوام کرکٹ کے شائقین اور کھلاڑی تک لعن طعن کر رہے ہیں جو حق بجانب ہے۔ اگر پاکستان میں واقعی حالات خراب ہوتے دہشت گردی کا خطرہ ہوتا تو پھر یہ ہزاروں غیر ملکی فوجی اور دیگر عملہ کس طرح پاکستان سے باحفاظت اپنے اپنے ملکوں کو روانہ ہوا۔ اتنی سی بات نیوزی لینڈ اور برطانوی کرکٹ بورڈ والوں کو سمجھ کیوں نہیں آئی وہ بھارت کے بہکاوے میں کیسے آ گئے۔
٭٭٭٭٭
مودی کی امریکہ آمد، نیویارک کی عدالت نے حاضری کا سمن جاری کردیا
مودی پر پہلے بھی گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کی وجہ سے امریکہ میں داخلے پر پابندی لگی تھی اور اسے قصاب کا خطاب دیا گیا۔ پھر حالات بدلے تو مسلمانوں کے اس قاتل کو بطور وزیراعظم امریکہ آنے کی اجازت ملی۔ اب ایک تنظیم سکھ فار جسٹس نے جسے خالصتان تحریک والوں کی حمایت حاصل ہے نیویارک کی عدالت میں کیس دائر کیا ہے جو بھارت میں سکھوں کے قتل عام کے حوالے سے ہے۔ یہ کیس 17 ستمبر کو دائر کیا گیا ہے جس میں نریندر مودی بھی نامزد ہے۔ اب گزشتہ روز عدالت نے انکے نام عدالت میں حاضری کا سمن جاری کیاہے۔ اس وقت نریندر مودی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کیلئے امریکہ آئے ہوئے ہیں۔ سمن جاری ہونے سے ان کی جو سبکی ہوئی تھی وہ ہورہی ہے۔بھارتی سفارتکاروں میں تھرتھلی مچ گئی ہے۔ یہ بھارت اور بھارتی وزیراعظم کیلئے ایک بڑا دھچکا ہے۔ اقوام متحدہ کے اجلاس کے موقع پر دنیا بھر کے رہنما امریکہ آئے ہوئے ہیں جن میں بھارتی وزیراعظم بھی ہیں اور انہیں نیویارک کی ہی ایک عدالت نے طلب کیا ہے۔ بھارتی وزیراعظم اب لاکھ بے شرموں کی طرح جنرل اسمبلی میں خطاب کرکے خود کو پرسکون ظاہر کرتے رہیں مگر اندرخانے انہیں جنرل اسمبلی کا ہر رکن طنزیہ ہنسی ہنستا نظر آئے گا۔ اس صورتحال میں تقریر کرنا واقعی دل گردے کی بات ہے کیونکہ انہیں نہ چاہتے ہوئے اپنے گناہ یاد آتے رہیں گے جن میں مسلمانوں اور سکھوں کا قتل عام بھی شامل ہے۔
٭٭٭٭٭