تحریک عدم اعتماد
تحریک عدم اعتماد ایک ایسا آئینی ہتھیار ہے جس کے ذریعے حکومت وقت کو رخصت کیا جا سکتا ہے۔ آئین کی رو سے اس کیلئے کل ممبران اسمبلی کی دوتہائی اکثریت درکار ہوتی ہے۔ محض حاضر ممبران کی گنتی کافی نہیں ہے۔ بار ثبوت بھی محرک یا محرکین پر ہوتا ہے۔ یہ ان کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ ممبران کو اسمبلی میں لا کر اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھائیں۔ اس مشکل عمل کے پیچھے بڑی حکمت عملی ہے۔ مقصد یہ تھا کہ تحریک عدم اعتماد بچوں کا کھیل نہ بن جائے۔ چنانچہ اس کیلئے بڑے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں تب جا کر گوہر مقصود ہاتھ آتا ہے۔
گزشتہ تین دہائیوں میں دو دفعہ اس آئینی ہتھیار کو آزمایا گیا۔ پہلی تحریک تو محترمہ بینظیر بھٹو کے خلاف تھی۔ وہ اس وقت مرکز میں وزیراعظم تھیں اور میاں نوازشریف پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے مدارا لمہام تھے۔ ان دونوں میں مخاصمت اس قدر بڑھ گئی تھی کہ ایک دوسرے کی صورت دیکھنے کے بھی روادارا نہ تھے۔ میاں صاحب نے محترمہ کو عدم اعتماد کی صورت میں للکارا۔ ترغیب و تحریص گاجر اور عصا ہر حربہ آزمایا گیا۔ پاکستان کی سیاست میں پنجاب کی وزارت و علیا کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ مطلوبہ تعداد حاصل کرنے کیلئے حکومتی پارٹی کے ارکان کو توڑا گیا۔ پیسے میں کس قدر طاقت ہے اس کا اندازہ ان دنوں ہوا۔ متبادل کے طورپر غلام مصطفی جتوئی کا نام تجویز ہوا۔ اس میں بڑی حکمت عملی تھی۔ سندھ کے وڈیرے کی نامزدگی کی وجہ سے سندھ کارڈ نہیں کھیلا جا سکتا تھا۔ جتوئی نہ صرف سندھ کا وزیراعلیٰ رہا تھا بلکہ بھٹوکے ساتھیوں میں بھی اس کا شمار ہوتا تھا۔
جب مطلوبہ تعداد پوری ہوگئی تو ممبران کو ایک بار نہیں بار بار گنا گیا۔ اسکے بعد اسمبلی میں قرارداد جمع کرا دی گئی۔ یہ سارا کام اس قدر رازداری سے کیا گیا کہ کافی دیر تک محترمہ اس سے بے خبر رہیں۔ بالفرض کسی ایجنسی نے دبے دبے لفظوں میں اشارہ بھی کیا تو اسے سنجیدگی سے نہ لیا گیا۔ تحریک کے ’’ٹیبل‘‘ ہوتے ہی ایک بھونچال سا آگیا۔ محترمہ غصے سے گرما کے مثل صاعقہ طور ہو گئیں۔ خون کی ندیاں بہنے کا واضح اعلان بھی کر دیا۔ مال مفت دل بے رحم کے مصداق خزانوں کے منہ کھل گئے۔ بولیاں لگنے لگیں۔ گھوڑوں کی دلی مراد بر آئی۔
تحریک ناکام ہوگئی۔ وجہ؟ ناتجربہ کاری! میاں صاحب نے گھوڑوں کومری میں رکھا۔محترمہ نے عقلمندی سے کام کیا۔ سب کو بلا کر سوات کے ہوٹل میں کڑے پہرے میں رکھا گیا۔ موبائل فون تک لے گئے گئے۔میاں صاحب کے پاس جب مطلوبہ تعداد پوری ہو گئی تھی تو انہیں چاہئے تھا کہ انہیں اپنے دوست‘ اکبربگٹی کے پاس بھیج دیتے۔ آخری دن بلوچ بندوق برداروں کے کڑے پہرے میں انہیں اسمبلی لایا جاتا۔
تحریک تو ناکام ہو گئی‘ لیکن محترمہ کے پائوں اکھڑ گئے۔ ہمہ مقتدر طاقتیں جب کوئی فیصلہ کر لیتی ہیں تو پھر اس کو ٹالنا مشکل ہو جاتا ہے۔ چنانچہ 58-2-B کی تلوار نیام سے نکل آئی اور پیپلزپارٹی کی دکان بڑھا دی گئی۔
اگر ہم اپنی 73 سالہ تاریخ دیکھیں تو سیاستدانوں کو تاش کے پتوں کی طرح پھینٹا گیا ہے۔ کافی حد تک قصور ان کا بھی ہے۔ مادر پدر آزاد جمہوریت کافی دیر تک نہیں چل سکتی۔ جو بھی جمہوری حکومت آئی اس نے دو کام ارداتاً کئے۔ مخالفین کا ٹیٹوا دبانا اور دونوں ہاتھوں بلکہ دانتوں سے بھی خزانے کو لوٹنا۔ میاں صاحب کے جانے کی باری آئی تو وزیراعلیٰ غلام حیدر وائیں کا ٹھہرنا مشکل ہو گیا۔ وائیں ذاتی طورپر درویش منش انسان تھا۔ اگر چاہتا بھی تو بے ایمانی نہ کر سکتا تھا۔ اس نے عمر بھر خواہشات کے گھوڑے پر سواری نہ کی۔ اپنی ضروریات کو تنخواہ تک محدود رکھا۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسا وزیراعلیٰ کبھی نہیں آیا۔ اس کے پاس مہمانوں کو بٹھانے کیلئے کمرہ تک نہیں تھا۔ سالی نے ایک کمرہ دیدیا اسی میں میاں بیوی تازیست رہے۔ لا ولد تھے۔ اس لئے اولاد کے پال پوس سے بھی آزاد رہے۔
جب اوپر سے اشارہ ہوا تو ممبران تیزی سے دوڑے ‘راتوں رات وائیں کا سارا خیمہ خالی ہوگیا۔ منظور وٹو زیرو سے ہیرو بن گیا۔ وائیں صاحب نے اپنا جستی ٹرنک اٹھایا اور ڈیوس روڈ پر مسلم لیگ ہائوس میں منتقل ہو گئے۔ ان کی بیگم مجیدہ وائیں جیسی نیک بخت نے زندگی میں پہلی بار ایئرکنڈیشنڈ کمرہ دیکھا تھا۔ مضطرب ہو گئیں۔ بولیں قواعدکی رو سے ہم چھ ماہ تک سرکاری مکان رکھ سکتے ہیں۔ وائیں کے ہونٹوں پر ایک سوگوار مسکراہٹ ابھری۔ کہنے لگے کن چکروں میں پڑ گئی ہو۔ ذرا اپنے ماضی پر تو نگاہ ڈالو۔ ہر چیز کو اپنے اصل کی طرف لوٹنا ہوتا ہے۔ قصہ کوتاہ انہوں نے صاحبزادی محمودہ بیگم کو کہہ کر ظفر علی روڈ پر ان کی کوٹھی کا ایک کمرہ اپنی زوجہ کو دلوایا۔آجکل وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار صاحب کے خلاف عدم اعتماد کی باتیں ہو رہی ہیں۔ عزیزی بلاول بھٹو کا خیال ہے کہ یہ بڑا آسان کام ہے۔ میاں صاحبان کے ہاں کرنے کی دیر ہے۔ پنجاب کی وزارت علیا دھڑام سے نیچے آگرے گی اور ساری عمارت زمین بوس ہو جائے گی۔ نتیجتاً مرکز میں بھی دراڑیں پڑنی شروع ہو جائیں گی۔ خان کو رخصت کرنے کا تیر بہدف نسخہ ہے۔ کیا ایسا ہونا ممکن ہے؟ ان کا خیال ہے کہ (ق) لیگ کو بآسانی ساتھ ملایا جا سکتا ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ وزیراعلیٰ چودھری پرویزالٰہی ہونگے۔ ان کی خوش فہمی کی وجہ یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کا ناراض گروپ جس کے لیڈر جہانگیر ترین ہیں‘ ان کے ساتھ آملے گا۔
چودھری صاحبان بڑے زیرک سیاستدان ہیں۔ یہ گھڑ سوار ہیں‘ کبھی اس ہاتھی پر بیٹھنا پسند نہیں کریں گے جس کی راسیں میاں شہبازشریف کے ہاتھ میں ہوں۔ دس بارہ ممبران کے ساتھ پنجاب کی حکومت نہیں چلائی جا سکتی۔ ویسے بھی دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے انہیں پہلے ہاتھ لگ چکے ہیں۔
میاں صاحبان خود اس منصب جلیلہ کے متمنی ہیں۔ ’’آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا‘‘ کے مصداق وہ کیسے چاہیں گے کہ ’’کمزور‘‘ بزدار کی جگہ مضبوط پرویز الٰہی کو مسند پر بٹھا دیں۔ بالفرض ایسا ہو جائے تو گجرات کا چودھری (ن) لیگ کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرے گا جو خادم اعلیٰ نے (ق) لیگ کے ساتھ روا رکھا تھا۔
باقی رہا جہانگیر ترین! گو وہ بخوبی جانتا ہے کہ اس کے راستے حکومت سے جدا ہو چکے ہیں۔ابھی سے بوری سے دانے گرنے شروع ہو چکے ہیں۔ لہٰذا معروضی حالات میں بزدار جانے والا نہیں۔