یٰسین رضا سے پوجا تک
مجھے سید مودودی سے ملنے کا کبھی اتفاق نہیں ہوا کہ میری اوائل عمری میں ہی وہ کُوچ کرگئے لیکن انکی صحبت میں رہنے والے بہت سے لوگوں سے مل چکا ہوں جن کی زندگی کے مشاہدہ سے ذہن میں سید مودودی کا بہت ہی نفیس اور پاکیزہ خاکہ بنتا ہے۔ لاہورکی چھوٹی سی کالونی راوی پاک کے رہائشی ہونے کے ناطے میرا میٹرک کے بعد ایف سی کالج میں داخلے کے سلسلے میں اپنے علاقے کے انتہائی فعال رکن یٰسین رضا سے رابطہ ہوا جو میرے دادا مرحوم سے گہری اُنسیت رکھتے تھے۔ یٰسین رضاانتہائی فعال ورکر اور انقلابی شاعر ہیں۔ انکی طویل نظم کا ایک شعر پیش کرتے ہوئے میں ان سے جُڑا ایک منفرد واقعہ شیئر کرنا چاہتا ہوں ۔
؎ راہبران وطن جن کو سمجھے تھے ہم
اربوں کھربوں روپے قوم کے کھا گئے
دیکھ کر ان کی دیدہ دلیری رضا
چور ڈاکو لٹیرے بھی شرما گئے
یٰسین رضانے گورنمنٹ پرائمری سکول قلعہ لچھمن سنگھ راوی روڈ کی1953ء کی اپنی پانچویں کلاس کے اپنے تمام کلاس فیلوز کو 50 سال بعدڈھونڈ کر اکٹھا کیا اور دریائے راوی میں کامران کی بارہ دری پر 2003 ء میں ایک پرائمری کلاس کا انتظام کرکے منفردکام کیا ۔ پچاس سال بعد انکے تین ٹیچرز بھی حیات تھے اور ڈھونڈنے پر 40کی کلاس میں سے 20 لڑکے جو بڑھاپے کی عمر کو پہنچ چکے تھے ، نہ صرف مل گئے بلکہ اس کلاس میں حاضربھی ہوئے۔ وہاں باقاعدہ گھنٹی بجی ، کلاس لگی اور بعض تو پینٹ کوٹ اور ٹائی میں ملبوس ہونے کے باوجود اپنے ساتھ پرائمری کلاس کی کتابیں اور اسی طرح کا ٹاٹ بھی لیکر آئے جو اس ز مانے میں زمین پر بیٹھنے کیلئے ہر طالبعلم گھر سے اپنے ساتھ لیکر جاتا تھا کہ نوزائیدہ پاکستان کے سکولوں میں فرنیچر کہاں ۔تاہم اُس روز وہاں کرسیاں لگائی گئیں کہ شاید اب ’’ طالبعلم‘‘ زمین پر نہ بیٹھ سکیں ۔کیا عجیب و غریب منظر تھا اور سب ایک دوسرے کو گلے لگا کررو رہے تھے ۔بلیک بورڈ رکھا گیا جس کے سامنے تینوں ٹیچرز براجمان تھے اور سامنے کرسیوں پر انکے ٹھیک پچاس سال پرانے طالبعلم تھے۔ بطور مانیٹر یسین رضا نے ’’ ایک ایک بچے‘‘ کا نام پکارا ہر ایک نے رندھی آواز میں ’’ حاضر جناب‘‘ کہا ۔ اس سے قبل اسی کلاس کے ’’ایک بچے ‘‘ نے تلاوتِ کلام پاک کی پھر سب نے مل کر قومی ترانہ پڑھا ۔جی ہاں وہی قومی ترانہ اور تلاوت جس سے پاکستان کے ہرسکول کی صبح ہواکرتی تھی جو آج ایجوکیشن مافیا کے ہاتھوں متروک ہوچکا ہے۔ کلاس شروع ہوئے دس منٹ ہو چکے تھے کہ ’’ایک طالبعلم ‘‘دس منٹ لیٹ پہنچا تو اسے کلاس کے فرضی دروازے پر سزا کے طور پر کھڑا بھی رکھا گیا۔ان میں سے کوئی ڈاکٹر ہے تو کوئی انجینئر، کوئی پروفیسر ہے ،کسی کو تقدیر کہیں لے گئی اور کسی کو کہیں ،جو اس دنیا سے جاچکے تھے ان کیلئے فاتحہ خوانی کی گئی ۔ پھر اساتذہ نے دس دس منٹ کیلئے وہی کورس پڑھایا ۔کوئی نالائق تھا لیکن اب بڑا بزنس مین بن چکا تھا ۔کوئی لائق تھا تو پچاس سال بعد درمیانی سی نوکری کررہا تھا کہ مقدر تو ا س قسم کے لوازمات سے بالاتر ہوتے ہیں۔ یٰسین رضا ہمارے آبائی علاقے کا ایک مکمل ادارہ ہیں ۔ عید الاضحی کے موقع پر ہر گھر میںقربانی کی کھال کی پرچی پہنچانا اور دن بھر کھالیں اکٹھی کرنا آج پیرانہ سالی میں بھی ان کا معمول ہے۔ طاقتور کے سامنے اکڑ جانا اور کسی بے کس کیلئے کئی کئی دن صرف کردینا یٰسین رضا کا ہی خاصا ہے ، اور یہ اسی تربیت کا حصہ جو انہوں نے سیدابوالاعلیٰ مودودی کی صحبت میں حاصل کی ۔
پنجاب یونیورسٹی شعبہ ابلاغیات میں دوران تدریس جب پروفیسر ڈاکٹر مغیث الدین شیخ مرحوم اور پروفیسر ڈاکٹر مجاہد منصوری یہ پڑھا یاکرتے تھے کہ دنیا گلوبل ویلج بننے جارہی ہے ، آپ کو اپنے ہمسائے کے حالاتِ زندگی کا علم ہو نہ ہو ، لیکن دنیا بھر میں کیا ہورہا ہے یہ آپکے علم میں ہوگا کیونکہ دنیا بدل رہی ہے ۔تب یقین نہیں آتا تھا مگر چند ہی سال میں ہم نے دنیا کو گلوبل ویلج میں نہ صرف تبدیل ہوتے دیکھا بلکہ اس کا حصہ بن گئے ۔ 2006 ء میں جب مکہ مکرمہ میں دورانِ حج بھگدڑ مچی اور 250سے زائد افراد کچلے گئے۔ میری اہلیہ مرحومہ بھی اپنی والدین کے ہمراہ وہیں تھیں ۔تمام ٹی وی چینلز کی سکرینیں سرخ ہوچکی تھیں ۔ میں نے اپنی اہلیہ مرحومہ کو فون کیا اورپوچھا کہ کہاں ہو ، بھگدڑ مچنے کی خبریں آرہی ہیں۔ وہ کہنے لگیں میں تو طواف کررہی ہوں یہاں تو سب نارمل ہے۔ گویا جس سانحے کا دنیا بھر کو پتہ چل گیا اس سے خانہ کعبہ میں موجود لوگ بے خبر تھے ۔دنیا کے گلوبل ویلج بننے کا یہ میرے لئے پہلا تعارف ہے۔شعبہ ابلاغیات کے خوش لباس اور ملنسار سرفراز ملک میرے کلاس فیلو ہیں جنہوں نے 27 سال بعد ہمارے تمام کلاس فیلوز کو ڈھونڈ نکالا اور پنجاب یونیورسٹی کے حوالے سے بنائے گئے ’’ پوجا ‘‘ نامی واٹس ایپ گروپ کی ایک لڑی میں سب کو پرودیا۔ہمارے تین کلاس فیلوز ہم میں سے نہیں رہے جن میں وسیع القلب حامد جاوید، دھیمے مزاج کے طاہر نیازی اور گوجرانوالہ کے عمومی کلچر کا چلتا پھرتا تعارف طاہر اعتزاز چیمہ شامل ہیں۔ قدرت کسی کو کہیں لے گئی اورکوئی کہیں جا بسایا ۔ اعجاز احمد اور سرفراز ملک فرانس اور امریکہ میں مقیم ہیں ۔ علی رہبر عابدی نجانے کہاں گُم ہیں تاہم انکے بڑے بھائی ڈاکٹر حسن عسکری سے میں سروسز ہسپتال میں سینکڑوں مریضوں کا مفت علاج کروایا کرتا تھا ۔ڈاکٹر واجد خان اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے شعبہ ابلاغیات کے سربراہی کررہے ہیں اور شبیرراہی ، جسے ہم شبیر روحی کہا کرتے تھے ، جن کے بارے میں سید منیر جیلانی کسی شعر کا ایک ہی جملہ دہرایا کرتے تھے ۔
راہی فریب زیست نہ کھانا حرام ہے
میںجب منیر جیلانی سے اس شعر کو مکمل کرنے کیلئے کہتا تو وہ شرارتی آنکھوں سے مسکرا کر جواب دیتا ’’ شبیر کیہڑا مکمل اے ۔‘‘ سلیمان الرحیم ملک پی ایچ ڈی مکمل کرکے ڈاکٹر بن چکے ہیں ، جتنے وہ نفیس تھے انہیں اسی قسم کے شعبۂ زندگی میں جانا چاہئے تھا ۔ارشد جیلانی، سمیع اللہ عرف سمیع ابراہیم اور وکیل انجم صحافت کو پیارے ہوگئے ۔ مرزا شاہد بیگ گیزر اور چولہے بناتے بناتے سکول بنا بیٹھے ۔ اللہ تعالی وہاں کے زیرِ تعلیم بچوں کا بھلا کرے ۔ رضا شاہ ٹوارزم ، واجد کھوکھر ، زمیندارہ اور ہماری کلاس کے سب سے شرارتی جاوید اقبال پیمرا میں بیٹھ کر دانشور بننے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔ لکھتے اچھا ہیںاور قلم میں کاٹ بھی بہت ہے ۔ پنجاب یونیورسٹی کے ایام میں خوبصورت آوازمیں گاکر سنایا ہوا ایک شعر مجھے آج بھی یادہے ۔
وچ روہی دے راہندیاں ہن نازک نازک جٹیاں
راتیںکرن شکار دلاں دے ، ڈیہیں تُڑیہن مٹیاں
جاوید آج بھی شرارتی ہے اسی لئے سفید بالوں کے ساتھ بھی جوان ہیں ۔ نجانے اعجاز احمد کیوں سوبر ہوگئے اور دلشاد ساغر سٹیٹ بنک آف پاکستان کی راہداریوں میں کھوئے ہوئے ہیں۔ پنڈی بوائے مرزا راشد بیگ پاکستان ٹیلی ویژن کے غالباً ڈائریکٹر نیوز بن چکے ہیں۔ کبھی کسی تفصیلی خاکے میں سب دوستوں کے احوال لکھوں گا ۔فی الحال شکریہ سرفراز ملک ۔ تم نے ہم سب بچھڑے دوستوں کو ایک لڑی میں پرو دیا ہے۔