نریندرمودی کے برے دن شروع
کئی سال سے امریکا اور مغرب کی آنکھ کا تارا رہنے والے بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کے ستارے گردش میں آگئے ہیں ۔گجرات میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے پر گجرات کے قصائی کا خطاب پا کر شہرت پانے والے نریندرا مودی کے خلاف انسانی حقوق کے علمبرداروں کی طرف سے کوئی آواز نہ اٹھی۔ مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں پربھارتی سر زمین تنگ کرنے کے باوجود مغرب اور امریکا کے کان پر جوں نہ رینگی ۔کشمیر کو تقریباً آٹھ سو روز انسانی جیل بنائے رکھنے پر بھی بھارت پر نہ کوئی پابندیاں لگیںنہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا کوئی الزام آیا ۔مگر اب لگتا ہے کہ نریندرا مودی کے اپنے کرتوتوں کا خمیازہ بھگتنے کا وقت قریب آ رہا ہے۔ یورپی کمپنیوں کو سرمایہ کاری اور اپنی مصنوعات کی فروخت کیلئے بھارت ایک بڑی منڈی محسوس ہوتا تھا۔ ان کمپنیوں کے دباؤ پر بھی مغرب کی حکومتیں نریندرا مودی کے ظلم و ستم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر خاموش تھی مگر اب افغانستان سے امریکا کی رسوا کن پسپائی کے بعد اسے بھارت کی ضرورت نہیں رہی۔ گلوان ویلی اور سکم کے علاقوں میں چین کے مقابلے میں اسکی رسواکن پسپائی نے اسکے مضبوط دفاع کے دعوؤں کا پول بھی کھول دیا۔ بھارت کی اندرونی کمزوریاں اور کھوکھلا پن جو ظاہر ہوتا جا رہا ہے‘ امریکااور یورپ کا رویہ بھی تبدیل ہو رہا ہے۔ پچھلے دنوں امریکی وزیر خارجہ کے دورہ بھارت کے اختتام پر اس وقت بھارتی امیدوں پر پانی پھر گیا جب امریکی وزیر خارجہ نے جاتے ہوئے نریندرمودی کی حکومت کو انسانی حقوق کی پاسداری کی وارننگ جاری کردیں۔ اب خبریں آرہی ہیں کہ اسے باہر کیا ساؤتھ چائنا سی میں بننے والے اتحاد سے بھی باہر کیا جا رہا ہے ۔رہی سہی کسر نریندرا مودی کے آبائی علاقے گجرات کی بندرگاہ پر پکڑے جانے والی اربوں ڈالر کی ہیروئن نے نکال دی ۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ بندرگاہ کے انتظامی ڈھانچے میں پچیس فیصد حصہ نریندر مودی کا ہے۔ یوں اس منشیات کی سمگلنگ میں مودی براہ راست ملوث قرار دیئے جا سکتے ہیں۔ یورپی اور امریکی کمپنیوں کو بھارت میں اپنی سرمایہ کاری ڈوبتی نظر آرہی ہے جس کی وجہ سے وہ تیزی سے اپنا سرمایہ واپس نکال رہے ہیں۔ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر دنیا بھر میں آواز اٹھنا شروع ہو چکی ہے۔ بھارت کے اندر اقلیتوں کے تحفظ کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ دنیا کو بھارت کے اندرونی حالات سے آگاہ کرنے میں پاکستان کے دفتر خارجہ کو بھی خراج تحسین پیش کیا جانا چاہیے۔ پاکستان کی حکومت اور اداروں کی بھرپور کوشش ہے کہ دنیا کو حقائق سے آگاہ کیا جائے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی کے ہندو تا نظریے دنیا کے سامنے آشکار کرنے میں وزیراعظم عمران خان ذاتی دلچسپی لے رہے ہیں جبکہ پاکستان کے حساس اداروں نے عالمی امن کیلئے خطرہ بننے والی بھارتی سازشوں کو بھی بے نقاب کیا ہے۔ پاکستان کا دفتر خارجہ اس حوالے سے ہر عالمی فورم پر ڈوزیئر پیش کر چکا ہے۔ بھارت کو اس نوبت پر پہنچانے میں بی جے پی اور آر ایس ایس کا بڑا ہاتھ ہے۔ اصل میں آر ایس ایس بھارتی انتہا پسند ہندو تنظیم جس کے اقتدار میں آتے ہیں‘ غیر مذاہب کے خون کی ندیاں بہانی شروع ہوجاتی ہیں۔ غیر مذاہب پر اس قدر ظلم کئے جاتے ہیں اور انہیں اس بات پر مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اپنا مذہب تبدیل کر کے ہندو ازم میں داخل ہوجائیں۔ اس تشدد کا آغاز اس وقت پروان چڑھا جب نریندر مودی آر ایس ایس کے پلیٹ فارم سے بی جے پی کی حکومت میں داخل ہوئے اور گجرات کے وزیر اعلیٰ بنے تو مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے گئے۔ گجرات میں آر ایس ایس نے کم و بیش پینتیس سو مسلمانوں کا قتل عام کیا مگر جس طرح کشمیر میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے بھارتی مظالم پر دنیا چپ ہے‘ اسی طرح اس ظالم اور سانحہ پر بھی دنیا خاموش رہی۔ مسلمانوں کو گھروں میں گھس کر بھیڑ بکریوں کی طرح قتل کیا گیا۔ مسلمان خواتین کی عصمتیں لوٹی گئیں‘ انڈین راجیہ سبھا میں اس وقت کانگریس کی حکومت تھی ۔کانگریس بھی ان مظالم پر کوئی قابل ذکر ایکشن نہ لے سکی ۔مسلمانوں کی آپس میں نااتفاقی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کسی دنیا کے خطے میں مسلمانوں پر اگر ظلم ہوتا ہے تو تمام خطے کے تمام دنیا کے مسلمان اکٹھے ہونے کی بجائے اپنے اپنے گروپ کو تحفظ دینے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ انہیں اتحاد کا مظاہرہ کرنا چاہیے چونکہ بھارت کی حقیقت اب دنیا پر آشکار ہو چکی ہے۔ ان حالات میں پاکستان کے دفتر خارجہ کی ذمہ داریاں اور بڑھ جاتی ہیں‘ انہیں دنیا کو بھارتی مظالم سے آگاہ کرنے کا کام تیز اور فعال کرنا ہوگا۔ یہی موقع ہے کہ دنیا کو کشمیریوں اور دیگر اقلیتوں پر ظلم و ستم سے روکنے کیلئے اقوام عالم اور عالمی اداروں کیلئے بھارت کیخلاف کارروائی کی راہ ہموار کی جا سکے۔