یہ اندھا قانون ہے
اندھا پن صرف نابینا افراد میں ہی نہیں ہوتا بلکہ کچھ لوگ عقل کے بھی اندھے ہوتے ہیں،جنکی بصارت تو ہوتی ہے لیکن بصیرت سے محروم ہوتے ہیں۔ آنکھیں ہوتے ہوئے بھی سچ اور حقیقت نہیں دیکھ پاتے۔ ایک اندھا پن قانون کا بھی ہوتا ہے یعنی انصاف کی دیوی حقیقت میں تو اندھی نہیں لیکن اسکی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اسے دیکھنے سے محروم کیا جاتا ہے کہ اس نے صرف عقل کی آنکھ استعمال کرنی ہے۔ اس نے نہیں دیکھنا کہ سامنے کون ہے امیر ہے یا غریب، حکمران ہے یا محکوم، گورا ہے یا کالا، دوست ہے یا دشمن، قرابت دار ہے یا غیر۔اسے صرف عقل کی آنکھ سے میرٹ کو دیکھ کر فیصلہ کرنا ہے،تقریبا تمام تاریخی تہذیبوں میں یہ انصاف کی دیوی مختلف ناموں کے ساتھ blind foldedہی دکھائی گئی ہے۔ایک ہماری عدالتوں کے فیصلے بتاتے ہیں کہ عقل کی آنکھ ہی نہیں بلکہ بینائی والی آنکھ بھی استعمال ہوئی ہے۔ماتحت عدلیہ سے لیکر اعلیٰ عدلیہ تک متنازعہ عدالتی فیصلوں کی ایک طویل فہرست ہے جہاں انصاف کا خون ہوا۔ایک رواں مقدمے کی مثال لے لیجیئے،نور مقدم قتل کیس گزشتہ دو ماہ سے زیر تفتیش اور زیرسماعت ہے، عجیب بات ہے کہ کسی اندھے قتل کا مقدمہ نہیں بلکہ اس میں قاتل رنگے ہاتھوں پکڑا گیا،آلہ قتل بر آمد ہو گیا، گواہان اور شواہد مل گئے، فارینزک رپورٹس آگئیں، یہاں تک کہ ملزم نے اعتراف جرم بھی کر لیا، اسکے بعدجو بھی تاخیر ہوئی وہ روایتی تاخیری حربے اور سسٹم کی خرابی ہے کہ مقتولہ کا باپ اور دیگر رشتہ دار انصاف کے حصول کے لیئے سڑکوں پر ہیں۔ انہیں شک ہے کہ اس بوسیدہ نظام میں انکی بیٹی کا سفاک قاتل کہیں بچ نہ جائے، حالانکہ اس کیس کو مثالی بنانے کے لیئے وزیر اعظم عمران خان نے نوٹس لیا تھا، پولیس کے اعلیٰ افسران اس کی تفتیش پر مامور ہیں، پولیس کہہ چکی ہے کہ ہم ملزم کو سخت سے سخت سزا دلوائیں گے۔ لیکن کیا کریں ہماری تاریخ ایسے ان گنت مقدمات سے بھری پڑی ہے جہاں عقل والوں نے بھی جان بوجھ کر اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ سانحہ ساہیوال کسے یاد نہیں۔ وزیر اعظم نے اس سانحہ کے ہونے پر کہا تھا کہ غیر ملکی دورے سے واپس آکر وہ اس مقدمے کو بھی دیکھیں گے اور پنجاب پولیس کو بھی سیدھا کریں گے۔ لیکن نہ تو پولیس سیدھی ہوئی اور نہ ہی قاتل اہل کاروں کے خلاف کچھ ہوا۔اور بینا افراد حیران ہیں کہ اس دہشتگردی کے مقدمے میں خون بہا اور معافی تلافی کا عمل کس قانون کے تحت ممکن ہوا۔حقیقت یہی ہے کہ عدالتوں کی فیصلہ سازی کے عمل میں مال و دولت، اثر و رسوخ، عہدہ اور مرتبہ، دوستی اور قرابت داری کا بہت ذیادہ عمل دخل دیکھنے میں آیا ہے، ایک امتیازی سلوک ہے جو اکثر فیصلہ سازی کے عمل میں روا رکھا جاتا ہے اور پھر نتیجہ انصاف کے قتل پر منتج ہوتا ہے۔سپریم کورٹ نے ایک حالیہ فیصلے میں کراچی کے ایک معروف رہائشی ٹاور کو گرانے کا حکم دیا۔اس فیصلے کو امتیازی اس لیئے گردانا گیا کہ اسی عدالت نے دیگر بے شمار تعمیرات جو کہ غیر قانونی اور قواعد کے خلاف بنائی گئی تھیں انہیں ریگولرائز کر کے نا جائز کو جائز بنا دیا تھا، اسی بنیاد پر اس متنازعہ فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست دائر کی گئی لیکن چیف جسٹس کی سربراہی میں ایک بنچ نے یہ نظر ثانی درخواست بھی مسترد کر دی۔ اب ذرا غور کیجیئے کہ ایک عمارت جو کئی برسوں سے زمین پر موجود ہے، اس میں رہائش پزیر خاندانوں نے اپنی عمربھر کی جمع پونجی خرچ کی ہوگی۔ اب بیک جنبش قلم انکے گھروں کو گرا دینے کا حکم اگر آئین و قانون اور میرٹ کے مطابق ہے تو پھر عدالت کا ان سرکاری افسران و اہلکاروں بارے کیا خیال ہے جنہوں نے اس تجاوزات کی اجازت دی تھی۔ اپنی نگاہوں کے سامنے ایک غیر قانونی ٹاور کھڑا کروایا، لیز ایگریمینٹ، این او سی اور دیگر اجازت ناموں پپر دستخط کیئے، اصل مجرم تو یہ لوگ ہیں، لیکن عدالت کی نظر میں مجرم وہ ہیں جو پیسے دیکر اور دستاویزات مکمل حاصل کر کے ان تجاوزات کے مکین بنے۔ جو افسران غیر قانونی امور کے عامل تھے انہیں مکمل چھوٹ ہے،اسی سے ملتا جلتا ایک کیس اسلام آباد کی کانسٹٹیوشن ون کی کثیرالمنزلہ عمارت ہے، جسے اسلام آباد ہائی کورٹ نے غیر قانونی قراردے دیا تھا۔ لیکن کیس کی سماعت کے دوران انکشاف ہوا کہ اس میں اہم وزراء ، اشرافیہ بشمول سپریم کورٹ کے ایک سابق چیف جسٹس کے بھی اپارٹمنٹس ہیں تو معاملہ سپریم کورٹ میں آیا اور یہ عمارت قانونی قرار دے دی گئی۔ یہاں بنی گالہ کا ذکر کرنا اضافی شمار ہو گا کیونکہ کراچی میں بہت نعرے لگ چکے: ’توڑ دیا گجر نالہ،چھوڑ دیا بنی گالہ۔‘ ایک بڑے پراپرٹی ٹائیکون نے اپنی کراچی والی سکیم کس طرح ریگولرائز کروائی یہ سب کچھ بھی عدالتی ریکارڈ پر موجود ہے۔اس وقت بے شمار غیر قانونی ہاوسنگ سوسائٹیوں کے مقدمات عدالتوں میں ہیں، ہر دوسری سوسائٹی کا کیس قبضہ مافیا سے متعلق ہے، زمینوں پر قبضے کرنا اس وقت مافیا کا اولین کاروبار ہے جسے دوام بخشنے کے لیئے سرکاری اداروں کے اہل کار سر فہرست ہیں، جب یہ معاملات عدالتوں میں آتے ہیں تو انصاف کی وہ دیویاں جنکی آنکھوں پر پٹی ہونی چاہیئے وہ دیدہ بینا کے ساتھ فیصلے کرتی ہیں اور نتیجہ یہ ہے کہ قبضہ مافیا کو دوام مل رہا ہے، سرکاری افسران جو اس عمل میں شریک جرم ہوتے ہیں وہ بھی لٹیروں کی مخبری نہیں کرتے۔اس امر کو ایک آفاقی سچ کی حیثیت حاصل ہے کہ وہ معاشرے تباہ ہو جاتے ہیں جہاں انصاف نہ ہو،آج کوئی کھوجی اگر کسی بھی معاشرتی خرابی کا ’کھرا‘ ڈھونڈھنے نکلتا ہے تو بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر یہ کھرا انصاف گھر کی طرف ہی نکلتا ہے۔اگرچہ اس کا دوش ناقص پو لیس تفتیش اور کمزور کریمینل جسٹس سسٹم کوبھی جاتا ہے، مختلف ادوار میں کی گئی پولیس ریفارمز بھی اس پولیس کو ٹھیک نہ کر سکیں۔لیکن عدلیہ میں اصلاحات اس وقت کی اہم ضرورت ہے، لاکھوں کی تعداد میں زیر التوائ مقدمات، جوڈیشل مس کنڈکٹ، امتیازی فیصلہ سازی ایسے حقائق ہیں جنکے باعث عالمی انصاف کے انڈیکس میں ہمارا نمبرشرمناک حدتک نیچے آتا ہے۔ قابل تشویش بات یہ ہے کہ انصاف کی دیوی آنکھوں پہ پٹی باندھنے کا ناٹک کر رہی ہے، اسے سب نظر آرہا ہے کون وزیر ہے کون امیر، کون شاہ ہے کون فقیر، کون با وردی ہے، کون بے وردی۔کون اپنا ہے اور کون پرایا۔اصل میں پٹی تو ہماری اور آپ کی آنکھوں پہ باندھی جا رہی ہے انصاف کی دیوی کو تو سب دکھتا ہے۔