اک شخصِ گرانمایہ تھا، نہ رہا
ڈاکٹر صفدر محمود تحریک پاکستان، قیام پاکستان اور پھر پاکستان کی تکمیل کے جاری مراحل کے چشم دید گواہ تھے۔ پاکستان افیئرز کے حوالے سے ان کی کتب ایک مستند حوالے کے طور پر یاد رکھی جائیں گی۔ ڈنگہ تحصیل کھاریاں میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر صفدر محمود کا یوں تو ضلع گجرات سے تعلق بنتا تھا لیکن ان کے مقصدِ حیات اور پاکستانی امور سے ان کے عشق نے انہیں پاکستان کے ہر گھر کا فرد بنا دیا تھا۔ وہ لوگوں کے دلوں میں زندہ تھے۔ نظریہ پاکستان اورپاکستان کے حوالے سے جب جب بعض لوگوںکی طرف سے شوشے چھوڑے گئے، وہ میدان میں کود پڑتے۔ وہ پاکستان پر حملے کو اپنی ذات پر حملہ قرار دیتے ہوئے حقائق کی بنیاد پر ایک ایک نقطے کا جواب دیتے اور لوگوں کے اذہان میں جو ابہام پیدا کئے جاتے وہ انہیں ختم کرنے میں کردار ادا کرتے رہے۔ تاریخ اور علوم پاکستان کے طالب علم ان کی تحاریر سے رہنمائی حاصل کرتے۔ ان سے ملنا ہمیشہ علم و شعور کا ذریعہ بنتا۔ وہ تعلقات میں جتنے وضع دار تھے اتنے ہی تحریر اور گفتگو میں بھی تھے۔ برادرم توفیق بٹ نے نوے کی دہائی میں جب ادبی تنظیم ’’ہم سخن ساتھی‘‘ بنائی تو ڈاکٹر صفدر محمود بہت باقاعدگی سے اس میں تشریف لاتے۔ جن دنوں وہ ایڈمنسٹریٹو سٹاف کالج لاہور کے ڈائریکٹر تھے، توفیق بٹ اور راقم ان کے آفس بھی جاتے رہے۔ وہ ہمیشہ انہماک سے کام کررہے ہوتے۔ ان کا یہ رویہ زندگی کے باقی معاملات میں بھی رہا اور وہ آخر دم تک قائداعظم کے قول کام، کام اور کام کی عملی تصویر بنے دکھائی دیئے۔ انہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کام کو شعار بنائے رکھا۔ وہ لاہور کی ایک معروف یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے۔ معروف اخبار میں کالم بھی لکھتے رہے۔ قومی اور بین الاقوامی ایشوز سے متعلق ان کی کتب بھی تواتر سے شائع ہوتی رہیں۔ کرنٹ افیئرز کا ڈائجسٹ بھی ان کی ادارت میں شائع ہوتا رہا۔ اس ڈائجسٹ کا مقابلے کے امتحان میں بیٹھنے والوں کو شدت سے انتظار رہتا۔راقم نے ماہنامہ ہلال میگزین کے ایڈیٹر کی ذمہ داریاں سنبھالیں تو ڈاکٹر صفدر محمود کو ہلال میگزین میں لکھنے کی درخواست کی۔ ان سے اس بابت طویل گفتگو بھی ہوتی۔ دفتری اوقات میں جب انہوں نے کبھی کال کرنی ہوتی تو پہلے وٹس ایپ پر کال کا وقت طے کرتے پھر ٹھیک اس وقت پر ان کی دفتر کے لائن نمبر پر کال آتی اور بات کرتے ہی کہتے میں نے آپ سے تین باتیں کرنی ہیں۔ پہلی یہ، دوسری یہ اور تیسری۔ گویا وہ فون پر فضول اور لمبی گفتگو سے پرہیز کرتے اور بات شروع کرنے سے قبل یہ طے کرتے کہ ان ان امور پر بات کرنی ہے تاکہ کال وصول کرنے والا بھی اِدھر اُدھر کی باتوں میں الجھنے کی بجائے جو ضروری بات ہے اسی پر توجہ مرکوز رکھے۔ بلاشبہ ڈاکٹر صفدر محمود جیسی شخصیات جہاں علم و شعور بکھیرتی ہیں وہ آئندہ نسلوں کے لئے تربیت کا باعث بھی بنتی ہیں کہ معاملات زندگی کو کس طرح سے چلایا جائے۔ ان کی درجنوں تصانیف ایسی ہیں جنہیں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر سراہا گیا ان کی کتابوں کے تراجم ازبک، چینی، جرمن، بنگالی اور سندھی زبانوں میں کئے گئے۔ یوں وہ پڑھے جانے والے اور سراہے جانے والے مصنفین کے طور پر زندہ رہے۔ اب وہ ہم میں نہیں رہے لیکن ان کا کام اب بھی لوگوں کے سامنے ہے۔ بڑے اور خوش قسمت لوگ وہ ہوتے ہیں جو اپنے کام کی وجہ سے زندہ رہتے ہیں۔ وہ راوین تھے اور پھر گورنمنٹ کالج لاہور میں راوینز کو پڑھاتے بھی رہے۔ جن دنوں وہ وہاں لیکچرار تھے سابق وزیراعظم نوازشریف بھی ان کے سٹوڈنٹ رہے۔ ڈاکٹر صفدر محمود بعدازاں مقابلے کا امتحان پاس کرکے سول سروسز میں چلے گئے اور جب نوازشریف وزیراعلیٰ پنجاب بنے تو ڈاکٹر صفدر محمود سیکرٹری ٹو چیف منسٹر تھے۔ وہ سول سروسز میں دیانت، میرٹ اور صاف گوئی کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ ان کا یہی وصف ان کی تحاریر میں بھی دکھائی دیا۔ بہرکیف سول سروسز میں بھی ان کی ایک منفرد شناخت رہی ہے۔ انہوں نے ہمیشہ میرٹ پر معاملات چلانے پر زور دیا۔ پھر بھی کسی کا کوئی جائز کام ہوتا تو وہ ضرور مدد کرتے روزنامہ جہاں لاہور کے چیف ایڈیٹر جناب طارق فاروق مرحوم اس واقعہ کے راوی ہیں کہ جب ڈاکٹر صفدر محمود سیکرٹری ٹو چیف منسٹر تھے وہ اُنہیں کسی کام کے سلسلے میں ملے اور بتایا کہ وہ گورنمنٹ کالج میں ان کے سٹوڈنٹ بھی رہ چکے ہیں۔ اتفاق سے طارق فاروق بھی گورنمنٹ کالج لاہور میں اس وقت کے وزیراعلیٰ نوازشریف کے کلاس فیلو تھے۔ طارق فاروق مرحوم نے کسی کام کے سلسلے میں وزیراعلیٰ سے ملنے کی خواہش کی تو ڈاکٹر صفدر نے انہیں فوری وزیراعلیٰ سے ملوا دیا اور بتایا کہ طارق فاروق بھی گورنمنٹ کالج میں آپ ہی کی کلاس میں تھے۔ اس پر نوازشریف بہت خوش ہوئے اور طارق فاروق کا جو جائز کام تھا وہ بھی کروا دیا۔ بلکہ جب طارق فاروق وزیراعلیٰ کے آفس سے باہر نکل رہے تھے .وزیراعلیٰ نوازشریف نے ڈاکٹر صفدر محمود صاحب سے کہا ’’صفدر صاحب ایناں دا کم ہئن کروا وی دینا‘‘ (ان کام اب کروا بھی دیجئے گا)۔ گویا ڈاکٹر صفدر کی شخصیت لوگوں کے لئے ایک خیرکثیر کا باعث بھی رہی۔ انہوں نے تمام عمر شعور اور فہم تقسیم کیا۔ ظاہر جس کے پاس جو ہوتا ہے وہ وہی تقسیم کرتا ہے۔ جس کے پاس خیر ہوتی ہے وہ خیر ہی تقسیم کرے گا۔ محبتیں تقسیم کرے گا ایسے لوگوں دلوں کو اور لوگوں کو آپس میں جوڑنے والے ہوتے ہیں۔ ان کا پیغام ان کی تخلیقات کے ذریعے آگے چلتا رہے گا۔ ڈاکٹر صفدر محمود کی کتب یقینا ان کے لئے کسی صدقۂ جاریہ سے کم نہیں ہیں۔ اﷲ انہیں جزا دے اور جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین۔