قابل صد احترام جناب چودھری محمد اکرم صاحب امید ہے خیریت سے ہوں گے
کہیں پڑھا ہے کہ لکھنے والے نے’ سر’ ظفراللہ خان کو انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کا پہلا اور واحد پاکستانی جج تو ثابت کر دیا لیکن اس بات پر کوئی تبصرہ نہ کر سکے کہ آخر کیا وجہ ہوئی کہ پاکستان کا پہلا وزیر خارجہ ہوتے ہوئے بھی وہ انڈیا میں مسلمانوں کی نسل کشی پر ’اقوام متحدہ‘ کے پلیٹ فارم سے کوئی احتجاج نہ کر سکے، مسلمانوں کیلئے آواز بلند نہ کر سکے، مظلوموں کو انصاف دلانے کیلئے کوئی قابل ذکر کام نہ کر سکے۔ کسی بھی عہدے کا کیا فائدہ کہ جب آپ اس عہدے کا مقصد ہی پورا نہ کر پائیں۔ کیا صرف عہدے کا حصول ہی کامیابی ہوتی ہے یا پھر اس سے بڑھ کر بھی کوئی کام کرنا ہوتا ہے۔ تاریخ کے طالب علموں سے کچھ چھپا نہیں اور جن لوگوں کی آنکھوں کے سامنے سب کچھ ہوا ہے انہیں دھوکہ کون دے سکتا ہے۔ بہر حال آج کچھ تاریخی چیزیں نوائے وقت کے زریعے قارئین تک پہنچانا چاہتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ جو کچھ مجھے یاد ہے وہ قوم کی امانت ہے، کوشش یہی ہے کہ امانت میں خیانت نہ ہو اور جب بھی موقع ملے اپنی زندگی میں اسے وقتاً فوقتاً قوم تک پہنچاتا رہوں۔
جناب چودھری صاحب دراصل مسٹر غلام محمد (بعد میں گورنر جنرل)، فیروز خان نون ( بعد میں وزیر اعظم) اور بیگم لیاقت علی خان سمیت دیگر افراد نے بھی شور مچایا کہ مشرقی پنجاب(یعنی انڈین پنجاب ) میں مسلمانوں کی نسل کشی اور قتل عام /Genocide ہو ا ہے جس کی تمام ذمہ داری ماؤنٹ بیٹن پر عاٰئد ہوتی ہے چونکہ اس نے 15گست 1947کی میٹنگ میں ہونے والے فیصلے کے مطابق سکھ لیڈروں کو گرفتار نہیں کیا اور باؤنڈری کمیشن کے ایوارڈ پر اثر انداز ہو کر مسلم اکثریتی علاقے انڈیا کے حوالے بھی کرا دیے گئے۔پاکستان کے وزیر خارجہ ‘سر’ (ابھی بھی ‘سر’)ظفر ا للہ نے اقوام متحدہ میں اس قتل عام کو اٹھانے کا عندیہ دیدیا اور انڈیا کے گوپال سوامی آینگر نے جس کو سر ظفر اللہ نے بتا دیا تھا،اس بات کا ذکر انڈیا کے گورنر جنرل ماؤنٹ بیٹن سے کر دیا۔ماؤنٹ بیٹن کو بہت پریشانی ہوئی اور اس نے ‘فارن اینڈ کامن ویلتھ رلیشنز آفس، لندن’ میں، لارڈ جینکنز کو اوربرٹش وزیر اعظم ایٹلی کو بھی اپنے دفاع میں خطوط لکھے۔
اس پر سیکرٹری آف سٹیٹ فار کامن ویلتھ ریلیشنز مسٹر ‘نوئیل بیکر’ نے ظفر ا للہ کو دھمکی دی کہ’’ان الزامات کو اقوام متحدہ میں پیش کرنا نہا یت ہی غیر مدبرانہ اور نہایت نا مناسب فعل ہو گا۔غیر مدبرانہ اس لئے کہ ان سے انڈیا میں ہمارے بادشاہ کے نمائندے کی عز ت و احترام پر دھبہ لگے گا اور اس کے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں کہ وہ پبلک میں ان کے الزامات کا جواب دے سکے۔ مجھے امید واثق ہے کہ ہمیں جو کچھ آپ کے ارادے کے بارے میں بتا یا گیا ہے وہ غلط ثابت ہوگا’’ (خط 25-2-1948)۔اس دھمکی کے بعد بر ٹش فارن آفس کے ہی سر پاؤل پیٹرک لکھتے ہیں کہ ‘‘سر ظفر ا للہ نے اس سے کہا کہ ٹیلیگرام نمبر 918 میں اس تک میرا پیغام پہنچنے کے نتیجے میں اس نے اب یہ قطعی فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ اقوامِ متحدہ میں نہ تو سکھوں کی مسلمانوں کا قتل عام کرنے کی سکیم کے بارے میں یہ کہے گا کہ اس کا ما ؤنٹ بیٹن کو علم تھا اور نہ ہی یہ کہ اسے(یعنی ماؤنٹ بیٹن کو)ریڈ کلف کے پہلے ایوارڈ میں تبدیلی کا علم تھا’’ ( بتاریخ ۲۔۳۔۱۹۴۸)۔ قارئین کے سامنے تصویر کا یہ رخ بھی رکھنا ضروری ہے۔ چودھری صاحب کیا یہ سب کچھ بغیر کسی وجہ کے کیا گیا یا پھر اس کے پیچھے واقعی کوئی بڑا مقصد تھا۔ آخر کیوں ایک ایسا منصوبہ جس سے ہمیں بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا اسے مناسب فورم اور پھر اعلیٰ ترین سطح پر کیوں نہیں اٹھایا گیا۔ ہم نے اپنی مختصر تاریخ میں ایسے کئی واقعات دیکھے ہیں جہاں ملکی مفاد کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک ایسا کئی مرتبہ ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے جائز حق سے بھی محروم نظر آتے ہیں۔ مسئلہ کشمیر کو ہی دیکھ لیں آج تک وہاں کے مسلمانوں کو بھارت کے ظلم و ستم کا سامنا ہے نوائے وقت روزانہ کرفیو اور لاک ڈاؤن کا اشتہار شائع کر رہا ہے اسے آٹھ سو دن ہونے والے ہیں اگر یہی حالات رہے تو شاید کچھ برسوں میں آٹھ دہائیاں بھی ہو جائیں۔ کیا بھارت صرف اپنی طاقت کے زور پر ہی قابض ہے تو اس کا جواب نفی میں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں یا فیصلہ سازوں نے بھی مسئلہ کشمیر کو نظر انداز کیا ہے یا پھر اس مسئلے کو جو توجہ دینا چاہیے تھی وہ نہیں دی جا سکی۔ جو کام سر ظفر اللہ نے مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کی نسل کشی کے حوالے سے کیا ایسے کام ہمارے حکمرانوں نے بعد میں بھی جاری رکھے۔
سر ظفر ا للہ میں یہ تبدیلی کیوں آ ئی؟ کیا مستقبل میں کوئی کام نکلوانے پر نگاہ تھی؟ کیا وہ کام مستقبل میں انٹر نیشنل کورٹ آف جسٹس کا جج بننے کیلئے برطانوی مدد حاصل کرنا تھی؟ پہلی دفعہ وہ کامیاب نہ ہوا تھا۔ پنجاب کے کھیتوں میں مسلمانوں کی لاشوں کو گدھ اورگیدڑ نوچ رہے تھے اور وہاں کی زمین مسلمان کے خون سے لتھڑی پڑی تھی۔ کیا ہمارے پاس ان لاشوں کا ان شہیدوں کا کوئی جواب ہے۔ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ اس ملک کو حاصل کرنے کیلئے جن لوگوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے ہم انہیں کیا جواب دیں گے۔ وہ جو اپنا سب کچھ لٹا کر یہاں پہنچے جنہوں نے ہماری آزادی کیلئے اپنی آسائشوں کو قربان کیا، عزتوں کی قربانی دی، اہل و عیال کو قربان کر دیا، کیا ہم نے ان کی قربانیوں سے انصاف کیا ہے یقیناً نہیں ایک ظلم ہجرت کے وقت ان پر ہوا اور اس کے بعد ان کی قربانیوں کے نتیجے حاصل ہونے والے ملک پر ہم آج تک ظلم کر رہے ہیں۔
میں کورالی کنسنٹریشن کی طرف آتے ہوئے ان حالات سے خود گذرا ہوں۔ سر ظفر اللہ کی مدح سرائی کرنے والوں کیلئے ضروری ہے کہ مکمل حقائق عوام کے سامنے رکھیں۔ سچ کو دبانے سے سچ کا نقصان نہیں ہوتا بلکہ اسے دبانے والے ہی نقصان اٹھاتے ہیں۔ آج ہم جس نہج پر پہنچ چکے ہیں یہ سب ہمارے اعمال، غلط فیصلوں اور مصلحتوں کا ہی نتیجہ ہے۔ اگر اب بھی ہم حقائق نہ لکھیں، نئی نسل کو حقائق نہ بتائیں تو یہ کونسی قومی خدمت ہے۔ میرا مقصد کسی کی تضحیک یا کسی کو غلط ثابت کرنا ہرگز نہیں ہے میرا مقصد نئی نسل کو حقائق سے آگاہ کرنا ہے۔ عمر کافی ہو چکی ہے کہیں غلطی رہ جائے تو اس کیلئے معذرت خواہ ہوں۔
ایک خط
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024