وزیراعظم کا جنرل اسمبلی سے خطاب، کشمیر میں مظالم اور بھارت کا مکروہ چہرہ بے نقاب کردیا, فلسطین میں دو ریاستی حل کی حمایت
وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ میں ایک بار پھر کشمیر، فلسطین اور افغانستان سمیت اسلامو فوبیا کے مسائل پر آواز اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کی سرحدوں پر جارحیت کے باوجود پاکستان ضبط کا مظاہرہ کررہا ہے،عالمی برادری کشمیر میں بھارتی ظلم کا نوٹس لے اور ہندو انتہا پسندوں کو سزا دینے کے لیے اقدامات کرے۔کشمیر کا مسئلہ کشمیر کے عوام کی خواہش اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے، اگر بھارت کی فسطائی حکومت نے پاکستان کے خلاف کوئی جارحیت کی تو قوم اس کا بھرپور جواب دے گی۔ اقوام متحدہ سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کوکشمیر سمیت عالمی تنازعات کے حل کیلئے آگے بڑھنا چاہیے.
جمعہ کی شب اقوام متحدہ کے 75 ویں جنرل اسمبلی اجلاس سے تقریبا 27 منٹ پر محیط اپنے خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے کورونا وائرس، خطے میں اسلحے کی دوڑ، گستاخانہ خاکوں کی اشاعت، کشمیر میں بھارتی مظالم، فلسطین اسرائیل تنازع، ماحولیات اور اقوام متحدہ و سلامتی کونسل میں بڑے پیمانے پر اصلاحات جیسے اہم معاملات پر گفتگو کی۔وزیراعظم کا ریکارڈ شدہ خطاب نشر کرنے سے قبل جنرل اسمبلی میں موجود اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے ابتدائیہ کلمات ادا کیے،اپنے خطاب میں سب سے پہلی وزیراعظم عمران خان نے پاکستان میں اپنی حکومت قائم ہونے کے بعد بنیادی اصلاحات کے حوالے سے گفتگو کی اور بتایا کہ انہوں نے اقتدار سنبھالنے کے بعد نئے پاکستان کی بنیاد ریاست مدینہ کے اصولوں پر رکھی۔انہوں نے کہا کہ ملک میں ریاست مدینہ کی طرز کی حکومت قائم کرنے کیلئے ہمیں امن و استحکام کی ضرورت ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی میں علاقائی امن و سلامتی کو اولیت حاصل ہے اور ہمارا موقف ہے کہ تمام مسائل بات چیت کے ذریعے حل ہونے چاہئیں۔وزیر اعظم نے کہا کہ اقوام متحدہ کی 75 ویں سالگرہ انتہائی اہم سنگ میل ہے، ہم اس اہم موقع کو امن، استحکام اور پر امن ہمسائیگی کے مقصد کو حاصل کرنے کیلئے استعمال کرسکتے ہیں کیوں کہ اقوام متحدہ ہی واحد ادارہ ہے جو ہماری مدد کرسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس موقع پر ہمیں اس بات کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے کہ کیا جو وعدے بطور اقوام متحدہ ہم نے اقوام سے کیے تھے وہ پورے کرسکے؟ آج طاقت کے یکطرفہ استعمال سے لوگوں کے حق خود ارادیت کو دبایا جارہا ہے، اقوام کی خود مختاری پر حملے کیے جارہے ہیں، داخلی معاملات میں مداخلت کی جارہی ہے اور منظم طریقے سے عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہورہی ہے۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ بین الاقوامی معادوں کو پس پشت ڈالا جارہا ہے، سپر پاور بننے کے خواہاں ممالک کے درمیان اسلحہ کی نئی دوڑ شروع ہوچکی ہے، تنازعات شدت اختیار کررہے ہیں، فوجی مداخلت اور غیر قانونی انضمام کے ذریعے لوگوں کے حق خود ارادیت کو دبایا جارہا ہے۔انہوں نے نوم چومسکی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انسانیت کو اس وقت پہلی اور دوسری جنگ عظیم سے بھی زیادہ خطرات لاحق ہیں اور ایسا اس لیے ہے کہ جوہری تصادم کا خطرہ بڑھ رہا ہے، ماحولیاتی تبدیلی عروج پر ہے اور آمرانہ حکومتیں اقتدار میں آرہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ مذکورہ خطرات سے نمٹنے کیلئے ہم سب کو مل کر کام کرنا ہوگا، بین الاقوامی تعلقات میں باہمی تعاون کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہونی چاہیے جو کہ بین الاقوامی قوانین سے مطابقت رکھتا ہو۔
وزیراعظم عمران خان نے کورونا وائرس پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کورونا وائرس نے دنیا کو متحدہ ہونے کا پیغام دیا ہے، ہمیں پیغام ملتا ہے کہ دنیا میں جب تک ہر شخص محفوظ نہیں تو کوئی شخص محفوظ نہیں۔انہوں نے کہا کہ کورونا نے دنیا بھر میں غریب اور نادار افراد کو سخت متاثر کیا، پاکستان نے اسمارٹ لاک ڈاون کی پالیسی اپنائی، پاکستان میں ہم نے سخت لاک ڈاون نہیں کیا۔انہوں نے کہا کہ ہم کثیر الجہتی اشتراک سے مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں، جب سے ہماری حکومت آئی ہم نے عوام کی بہتری کیلئے کوششیں کیں۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ہمیں احساس تھا کہ اگر سخت لاک ڈاون کیا تو لوگ بھوک سے مر جائیں گے۔ ہم نے فوری طور پر زراعت اور تعمیرات کی صنعت کو کھولا۔ کورونا وبا کے دوران پاکستان نے سخت لاک ڈاون نہیں کیا۔وزیر اعظم نے کہا کہ عالمی اصولوں کے تحت مسائل سیلڑنے کیلئے اکٹھا ہونا پڑے گا۔ ترقی پذیر ملکوں کو کورونا بحران سے نمٹنے کیلئے مالی وسائل درکار تھے۔ ہم نے نہ صرف وبا پر قابو پایا بلکہ معیشت کو بھی مستحکم کیا،۔ احساس پروگرام کے ذریعے غریب ترین لوگوں کو مالی امداد دی۔ پاکستان کے کورونا کے خلاف اقدامات کو دنیا میں ایک کامیابی کے طور پر جانا جاتا ہے۔ پاکستان اب بھی کورونا کے خطرے سے باہر نہیں ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ کورونا وبا کے دوران 8ارب ڈالر سے صحت سہولیات اور غریب افرا دکی مدد کی گئی، ہم نے 3 سال میں 10ملین درخت لگانیکا منصوبہ بنایاہے، حکومت کی تمام پالیسیوں کامقصد شہریوں کے معیار زندگی میں اضافہ ہے۔
غریب ممالک سے غیر قانونی طور پر اربوں ڈالرز منی لانڈرنگ کے ذریعے باہر لے جانے والے سیا ستدانوں کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ امیر ملک منی لانڈرنگ کرنیوالوں کو تحفظ دیکر انصاف کی بات نہیں کرسکتے۔انہوں نے کہا کہ وہ پیسہ جو عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوسکتا ہے وہ کرپٹ سیاستدان ملک سے باہر لے جاتے ہیں اور زر مبادلہ کے ذخائر میں کمی سے کرنسی کی قدر گر جاتی ہے اور پھر مہنگائی اور غربت بڑھتی ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ چوری ہونے والے اس پیسے کو واپس لانا قریب قریب ناممکن ہے کیوں کہ اس عمل میں کافی پیچیدگیاں ہیں اور طاقت ور منی لانڈررز ایسا ہونے نہیں دیتے کیوں کہ انہیں بہترین وکلا کی خدمات حاصل ہوتی ہیں اور بدقسمتی سے چونکہ امیر ملک کو غریب ملک سے آنے والے پیسے سے فائدہ ہوتا ہے لہذا وہ امیر ملک بھی اسے روکنے کی زیادہ کوشش نہیں کرتے۔انہوں نے کہا کہ اگر یہ سلسلہ نہ رکا تو امیر اور غریب ممالک کے درمیان فرق مزید بڑھ جائے گا اور بالآخر ہمیں بہت بڑے عالمی بحران کا سامنا ہوگا جو حالیہ مہاجرین بحران سے بھی بڑا ہوگا۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ میں اس اسمبلی پر زور دیتا ہوں کہ وہ ممالک سے غیر قانونی طریقے سے رقوم کی ترسیل کو روکنے کیلئیء ایک عالمی فریم ورک تشکیل دے اور چوری شدہ رقم کی متعلقہ ملک کو واپسی یقینی بنانے کیلئے فوری اقدامات کیے جائیں۔انہوں نے کہا کہ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ عالمی امداد کے نام پر غریب ممالک کو ملنے والی رقم اس رقم کے مقابلے میں بہت چھوٹی ہوتی ہے جو اس ملک کے کرپٹ لوگ غیر قانونی طریقے سے ملک سے باہر لے جاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم نہ صرف کوروناسے نمٹنے میں کامیاب ہوئے بلکہ معیشت کو بھی استحکام دیا، ترقی پذیر ممالک کوقرضوں کی ادائیگی میں مہلت سے ریلیف ملا۔
انہوں نے کہا کہ وبا انسانیت کو متحد کرنے کے لیے ایک موقع تھا لیکن بدقسمتی سے قوم پرستی، بین الاقوامی سطح پر کشیدگی میں اضافہ ہوا اور مذہبی سطح پر نفرت میں اضافہ ہوا اور اسلاموفوبیا بھی سر چڑھ کر بولنے لگا۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارے مقدس مزارات کو نشانہ بنایا گیا ,ہمارے پیغمبرۖ کی گستاخی کی گئی، قرآن کو جلایاگیا اور یہ سب کچھ اظہار آزادی کے نام پر کیا گیا، چارلی ہیبڈو نے گستاخانہ خاکے دوبارہ شائع کرنے کی بات کی جو حالیہ مثال ہے۔عمران خان نے کہا کہ دنیا میں بھارت واحد ملک ہے جہاں ریاست کی معاونت سے اسلاموفوبیا ہے اس کی وجہ آر ایس ایس کے نظریات ہیں جو بدقسمتی سے بھارت میں حکمران ہے۔بھارت پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس انتہا پسند نظریے کی تشکیل 1920 کی دہائی میں کی گئی اور اس کے بانی اراکین نازی نظریات سے متاثر تھے، نازی یہودیوں کو نشانہ بناتے تھے اور آر ایس ایس مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔کشمیر کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ فوجی قبضے اور غیر قانونی توسیعی پسندانہ اقدامات سے کشمیریوں کے حق خودارادیت کودبایاجا رہاہے۔وزیراعظم نے کہا کہ کشمیریوں نے بھارتی قبضے سے آزادی کے لیے نسل درنسل اپنی جانوں کی قربانیاں دی ہیں، مقبوضہ علاقے کا آبادی کا تناسب تبدیل کرنا جنگی جرم ہے، اس ظالمانہ مہم کا مقصد آر ایس ایس ، بی جے پی کے جموں و کشمیر کے خود ساختہ حمتی حل کو عملی جامہ پہنانا ہے.،عمران خان نے کہا کہ بین الاقوامی برادری لازمی طور پر ان سنگین خلاف ورزیوں کی تحقیق کرے، ان مظالم کی اقوام متحدہ کے انسانی کمشنر، انسانی حقوق کونسل کے خصوصی نمائندوں کی رپورٹ گواہ ہیں، بھارت کا مقبوضہ کشمیر پر غیر قانونی قبضہ ہے، آر ایس ایس کے غنڈے مسلمانوں کو حملوں کا نشانہ بنا رہے ہیں، 2002 میں بھارتی شہر گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا، 2007 میں سمجھوتہ ایکسپریس میں مسلمانوں کو زندہ جلایا گیا، جس طرح نازی جرمن یہودیوں کے خلاف تھے بالکل اسی طرح آر ایس ایس مسلمانوں کے خلاف ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ تمام کارروائیاں اس وقت کے وزیراعلی نریندرا مودی کی نگرانی میں ہوئیں، آر ایس ایس نے 1992 میں بابری مسجد شہید کی،آسام میں 20 لاکھ مسلمانوں کو امتیازی قوانین کے ذریعے شہریت جیسے مسائل سے دوچار کیا، پیرس 2015 کے معاہدے پر مکمل عمل ہونا چاہیے۔بھارت میں اقلیتوں کو درپیش مظالم کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اطلاعات ہیں کہ بھارت کے مسلمان شہریوں کی بڑی تعداد کو حراستی کیمپوں میں بھیجا جارہا ہے، مسلمانوں کو کورونا وائرس کے پھیلا کے جھوٹے الزام کے تحت بدنام کرنے کے ساتھ ساتھ نشانہ بھی بنایا جارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ بھارت میں مسلمانوں کو بعض اوقات طبی امداد سے بھی محروم رکھا جاتا اور ان کے کاروبار کا بائیکاٹ کیا جاتا ہے۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اگر بھارت کی فسطائی حکومت نے پاکستان کے خلاف کوئی جارحیت کی تو پاکستانی قوم اس کا بھر پور جواب دے گی، ہم نے عالمی برادری کو بھارت کی طرف سے جھوٹے آپریشن سمیت دیگر اشتعال انگیزی کارروائیوں سے آگاہ رکھا ہے، پاکستان کنٹرول لائن اور ورکنگ باونڈری پر بھارتی اشتعال انگیزی اور خلاف ورزیوں کے باوجود ضبط کا مظاہرہ کررہا ہے،عمران خان نے کہا کہ سلامتی کونسل مشرقی تیمور میں اپنا موثر کردار ادا کرچکی ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ پر امن حل کی بات کی ہے ،بھارت 5اگست کو کیے گئے اقدامات واپس لے۔
افغانسان کے حوالے سے انہوں نے کہاکہ میرا ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ تنازع افغانستان کا کوئی فوجی حل نہیں۔ پاکستان کو انتہائی اطمینان ہے کہ اس نے اپنے حصے کی ذمہ داری نبھائی ہے۔ افغان پناہ گزینوں کی جلد واپسی بھی سیاسی حل کا حصہ ہونا چاہیے۔ افغانستان کے اندر اور باہر سے بگاڑ پیدا کرنیو الے عناصر کو امن عمل خراب کرنے اجازت نہیں دیں گے۔ پاکستان نے اپنے حصے کی ذمہ داری نبھائی، افغان پناہ گزینوں کی واپسی بھی افغان سیاسی حل کا حصہ ہونا چاہیے، افغانستان میں امن سے علاقائی ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی۔وزیراعظم نے کہا کہ اقوام متحدہ آج بھی عالمی تنازعات کے حل ،امن وسلامتی کی ترویج کیلئے بہترین قانونی ادارہ ہے۔ ایسی دنیا جہاں امن وسلامتی کے حالات میں سب کی خوشحالی کیلئے مساوی مواقع دسیتاب ہوں۔فلسطین پر پاکستان کے موقف کا اعادہ کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ فلسطین کے مسئلہ کا حل خطے اور دنیا کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ پاکستان فلسطین میں دو ریاستی حل کی حمایت کرتا رہا ہے۔ ایک آزاد فلسطینی ریاست کی قیام جس کا دارالحکومت بیت المقدس ہو، اس مسئلے کا حل ہے۔ پاکستان فلسطین کے مسئلے پر فلسطینوں کی حمایت کرتا رہے گا۔وزیراعظم عمران خان نے اپنے خطاب کے آغاز میں کہا کہ میں وولکن اوسکر کو جنرل اسمبلی کا 75واں صدرمنتخب ہونے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ موجودہ صدر کی ماہرانہ قیادت کا بھی معترف ہوں جنہوں نے کورونا کے خلاف بہترین خدمات سرانجام دیں۔