معاشرتی تبدیلیاں۔چندتجاویز
جب ظالم درخت کی ایک شاخ کو کاٹتا ہے تو پھر کیا ہوتا ہے اُس کٹی ہوئی شاخ کی جگہ سے کئی شاخیں نکلتی ہیں۔اور درخت اور تیز ی سے بڑھتا جاتا ہے جو لوگ اس معاشرہ میں حقیقت کو نا پسند کرتے ہیں اور اسے ایک جرم تصور کرتے ہیں۔تو پھرایک لمحہ وہ آتا ہے جب مظلوم اور ظالم کی چکی میں پسے ہوئے لوگ نا انصافی افلاس جبر اور تشدد کے خلاف جو کہ ان کی نسلوں پر کیا جارہا ہے۔کھیتوں کھلیانوں میں اگنے والی فصل کو بچانے کے لیے ہر ظلم اور تشدد کے خلاف بر سر پیکارہو جاتے ہیں۔کارخانے بند ہو جائیں اور نئے نہ لگائے جائیں تو بیروز گاری بڑھتی ہے۔ بیروز گاری کے سبب جرائم بڑ ھتے ہیں ۔بداخلاقی بڑھتی ہے تہذ یب و تمدن کا نام ونشان مٹنا شروع ہو جاتاہے۔ اسکے بر عکس اگر کارخانے چلیں گے اور نئے لگا ئے جا ئیں گے تو پیداوار بڑھے گی ۔ زمیند ار کو اُس کی فصل کا اچھا ریٹ ملے گا ۔ بیروز گاری ختم ہو گی تو معیارتعلیم بڑھے گا صحت کا گراف بلند ہوگا ۔ جرائم میںواضع کمی ہوگی۔یہ سب کچھ لکھنے کا مطلب صرف اور صرف یہ ہے کہ اگر جرم اورظالم کے خلاف آواز اُٹھانا جر م ہے اگر اپنی اور دیس کے باسیو ں کی حفاظت کرنا جرم ہے اگر اپنی اپنے لخت جگروں مائو ں بہنو ں بیٹیوں کی عزت بچانا جرم ہے ۔اپنے شہروں گائوں اور اپنے کھیتوںکی سہنری بالیو ں کی حفاظت کرنا جرم ہے تو زندہ رہنے کیلئے سانس لینا اور زندہ رہنا بھی جرم ہے ۔ تو زندگیاں اجاڑ دو بستیاں نسیت و نابود کر دو ۔نئی دنیا آباد کرو اپنے قانون اور قائد ے کے مطابق ۔ لوگوں کی سوچیں بدل دو اپنے دھارے کے مطابق سب کچھ بدل دو ۔
کیوں کہ اس نظام میں تو یہ سب کچھ ہورہا ہے ۔والدین دکھ اور تکالیف کاٹ کر اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر کولہو کے بیل کی طر ح دن رات کام کر کے ۔ اپنی جوانیو ں کو بڑھاپے میںڈال کر سیاہ بالوں کو سفیدی میں بدل کر ہشا ش بشاس چہروں کو مر جھائے ہوئے چہروں میں بدل کر۔اپنے بچوں کو اس امیدپر پڑ ھا کر انجینئر ڈاکٹر فارماسسٹ کی ڈگریاں حاصل کرواتے ہیں کہ بچے یہ ڈگر یاں لے کر اچھے انسان بن جا ئیں گے اور برسرروزگارہوجائیں گے۔ہماری زند گی کے بقایا ایام سکھ سے گزر جائیں گے۔لیکن اُن کی کمر اُس وقت بل کھا جاتی ہے۔ چہرہ مزید مر جھا جاتا ہے۔جب وہ یہ دیکھتا ہے کہ اُسکا بچہ ہا تھو ں میں ڈگریاںلیے نوکری کی تلاش میں ہردروازے پر دستک دے رھاہے اور نا اُ مید مرجھائے ہو ئے چہرے کے ساتھ نا کام اپنے گھرلوٹ رہا ہے ۔والدین بہن بھائی جن کا اُس نے آسرا بننا تھا وہ نہیں بن پارہا ۔نوکری نہیں مل رہی وہ غریب ماں باپ کا بیٹا ہے۔ رشوت کیلئے اُس کے پاس کچھ نہیں۔ کسی منسٹر ایم پی اے ایم این اے کی سفارش یا رشتہ داری نہیںنہ ہی اُ سکی پشت پر کوئی تکراں سفارش ہے۔جب یہ بچہ ڈاکو بنے گا ۔لیٹرا بنے گا یا پھر اپنی زندگی اپنے ہاتھوں ختم کریگا۔ تو اس کا کنبہ تو برباد ہوگا ہی لیکن سوچو روز محشر اپنے رب سے کیا کہہ رہا ہو گا۔رب سے فریاد کر رہا ہوگا ۔ یہ ہیںوہ حاکم جن کی وجہ سے میں ڈاکو بنا کیو ں کہ میں اپنے بچوں اور چھوٹے بہن بھائیوں کو بھو ک کے ہاتھوں مرتا ہو ا ۔بے سروسامانی کی حالت میں نہ دیکھ سکا موت کو اپنے ہا تھوں اس لیئے گلے لگایا کہ میں ڈاکو بن نہیںسکتا تھا ۔ بزدل تھا کسی پر ظلم نہیں کر سکتا تھا ۔ اور میں نے بہتر سمجھا کہ اپنی زندگی کا خاتمہ کر لو ں چوکوں اور سٹرک کنارے پڑے ہوئے اُ ن نوجوانوںکو دیکھ کر میں پہر وں سوچتا ہوں۔ اور خون کے آنسو روتا ہوں کہ کہ ان کی جوانیوں کو برباد کس نے کیا ۔مر جا ئیں تو اعلان کر دیا جا تا ہے کہ نشی تھا مر گیا لاش اُٹھا کر ہسپتالوں میں سردخانوں میں ڈال دی جاتی ہے۔اور وہ نشئی تو مرکے بھی امر ہوگیا ۔ میڈیکل کالج کے کتنے طلبا ء نے اُس کی لاش سے کیا کچھ نہ کیا ہو گا ۔ اُس کی لاش پر کتنے سبق پڑھے ہوں گے۔ لیکن ہا ئے صد افسوس کبھی کسی نے نہ سوچا کہ اس حالت تک اُسے کس نے پہنچایا۔اس حالت تک اُسے پہنچا نے والوں پر کسی نے مضبوط ہاتھ نہ ڈالا ۔یہ کبھی ایک سوال بہت سارے دانشور یہ کہہ رہے ہیں کہ زانی کو سزائے موت نہ دو کیو ں کہ مغربی معاشرہ اسے قبول نہ کرے گا ۔ کیا مغربی معاشرے میں یہ نہیں ہورہا مساجد کو شہیدکیا جارہاہے مسلمانوں کاقتل عام کیا جارہاہے یہودیوں کو مسلط کیا جارہاہے ۔ کیا مغربی معاشرہ آپکے اور اسلام کے حق میں ہے۔ شام عراق لیبیا لبنان فلسطین کشمیر افغانستان کے مسلمانوں کے ساتھ کیا ہورہاہے۔
اسلام کے اپنے قوانین میں قتل میں ورثاء قصاص لے کر قاتل کو معاف کر سکتے ہیں۔ لیکن زانی کی سزا بذریعہ سنگسار مو ت ہے۔چو ر اور ڈاکو کی سزا ہاتھ کا ٹنا ۔شرابی کی سزا کوڑے ہیں ۔ ان جرائم میں کوئی معافی نہیں آپ نے اپنے رب کے دین کو دیکھنا ہے۔ اور مدینہ کی ریاست میں یہ سب کچھ تھایا مغربی معاشرے میں ہے ۔ یہ مغربی معاشرہ ہی ہے جس نے ہم مسلمانوں کو برباد کر دیا ذلت اور رسوائی بے حیائی کے گھڑے میں دھکیل دیا ہمیں اگر اپنے ملک کو مدینہ جیسی ریاست بنا ناہے تو نبی پاکﷺ کی زندگی اور صحابہ کرام کی تعلیم پر عمل کرنا ہوگا۔ قر آن پاک ہمارے پاس سب سے بڑ ی قانون کی کتاب ہے اس سے راہنمائی لینا ہو گی ۔ قیامت والے دن یہ نہ پوچھا جائے گا کہ تمہارا تعلق کس سیاسی جما عت سے ہے ۔
ان تما م جر ائم کی سزا سر عام ہو جیسا کہ نبی پاک کے دورمیں ہوتی تھی ۔معا فی کا حق صرف ورثا ء کو ہو۔ چند ایک نقاط تحریر کر رہا ہوں انکی سزا اسلامی قوانین کے مطابق دی جائے جو کہ ریاست مدینہ میں دی جاتی تھی ۔اسلامی سزائو ں میں تر میم کا حق کسی شخص کو نہیں ۔
قتل کی سزا سزائے موت ہواور معافی کا حق ورثہ کو ہو ۔منشیات فروشی اور منشیات کی تیاری ۔زنا با لجبر یا زنا بل رضا چاہے خواتین سے ہو یا بچے بچیوں سے ۔ڈاکہ زنی اغوا برائے تاوان۔ ملاوٹ۔ رشوت خوری ۔دہشت گردی ۔ وطن سے غداری کے مرتکب کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔ بڑی جائید ادیں لے کر چھوٹے یو نٹ بنا دیے جائیں۔غیر آباد سرکاری اراضی آباد کاری کے لیے غریب ہا ریو ں کو دے دی جائے۔ معیار تعلیم یکساں کر دیا جائے ۔رہائش تعلیم اور صحت بذمہ حکومت ہو تومعاشرتی تبدیلی کے کچھ امکان پیدا ہوسکتے ہیں۔