شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں پاکستان کے سیاسی نقشہ کی گونج !
گزشتہ سے پیوستہ
بھارتی تجزیہ کاروں کے مطابق ’’شاید اجیت کماردول مغالطے میں تھا کہ اس کی طرف سے نخرا دکھانے پر روس کی حکومت پاکستان کے نقشے پر بھارتی اعتراض کو قبول کرتے ہوئے اجلاس کی کاروائی کو روک کر پاکستان کا سیاسی نقشہ ہٹانے اور بھارت کو مناکر واپس اجلاس میں شریک کرنے کی کوشش کرے گی لیکن اجیت کمار دوول کے بائیکاٹ نے الٹا بھارت کو عالمی سطح پر تماشہ بنادیا کیونکہ ایک تو دودل نے اپنے اس اقدام کے ذریعے پاکستانی مندوب کو موقع فراہم کردیا کہ وہ ریاست جموں و کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم کو بھر پور انداز سے دنیا کے سامنے رکھے اور بتائے کہ وہاں بھارت نے ناجائز قبضہ ہی نہیں کر رکھا بلکہ بین الاقوامی صحافتی اداروں سمیت انسانی حقوق کے نمائندوں کو بھی وہاں جانے کی اجازت دینے کو تیار نہیں تاکہ مقبوضہ کشمیرکے اصل حقائق منظر عام پر لائے جاسکیں۔ علاوہ ازیں اجیت کماردودل نے میزبان ملک روس کے وزیرخارجہ کی تقریر کے وقت اپنی غیر حاضری سے خطے میں اپنے واحد دوست روس کو مزید دور کردیا جس کے بعد تاثرابھرا کہ روس نے بھارت کی بجائے ریاست جموں کشمیر پر پاکستانی موقف کو تسلیم کرتے ہوئے بھارت کو پیغام دیا ہے کہ روس 5 اگست 2019 کو بھارت کی طرف سے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمہ اور ان علاقوں کو بھارتی یونین کا حصہ بنانے جیسے اقدامات کو تسلیم نہیں کرتا ‘‘۔ بھارت کے مختلف اخبارات میں شائع ہونے والے ان تبصروں سے گھبراکر بھارتی وزارت خارجہ کے نمائندے Anurag Srivastava نے فوری طور پر پریس کانفرنس بلاکر بھارتی صحافیوں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ اجیت کماردودل کا ردعمل پاکستانی مندوب ڈاکٹر معید یوسف کی طرف سے پاکستانی کا سیاسی نقشہ شنگائی تعاون تنظیم میں لائے جانے کیخلاف احتجاج تھا کیونکہ پاکستان کا یہ اقدام اجلاس کیلئے طے شدہ اصولوں کی بھی خلاف ورزی تھی ۔ ا س طرح پاکستان کشمیر سے متعلق اپنے پروپیگنڈے کو اجلاس میں لے آیا تھا ۔ اس موقع پر بھارتی وزارت خارجہ کے نمائندے نے جھوٹ بول کر اپنی جان چھڑائی کہ بھارت نے میزبان ملک روس سے مشاورت کے بعد اجلاس کا بائیکاٹ کیا تھا۔ تاہم مودی سرکار کے کنٹرول سے آزاد بھارتی صحافیوں نے اپنی وزارت خارجہ کی وضاحت کو مسترد کرتے ہوئے اجیت کماردودل کے بائیکاٹ کو پاکستان کے ہاتھوں بھارت کی سفارتی شکست قراردیا ۔ یادرہے یہ پاکستان کا وہی سیاسی نقشہ ہے جس کی منظوری پر ہمارے بہت سے نام نہاد لبرل پاکستانیوں نے خوب مذاق اڑایا تھا ۔ مذاق اڑانے والوں میں اپوزیشن جماعتوں کے وابستگان کے علاوہ وہ دانشور بھی شامل تھے جو دو قومی نظریہ سے بیزار ی کا اظہار کرنے پر فخرمحسوس کرتے ہیں ور ایک معروف میڈیا گروپ سے تعلق رکھنے والے چار معروف صحافیوں نے تو حد کرتے ہوئے اپنے سفید بالوں کا لحاظ کئے بغیر میز پر دنیا کا نقشہ بچھا کر مختلف ممالک کو پاکسانی نقشے میں شامل کرنے کی مزاحیہ انداز میں اداکاری کرتے ہوئے بظاہر نقشہ منظور کرنے والی موجودہ حکومت کا مذاق اڑانے کی کوشش کی اور ویڈیو کو سوشل میڈیا پر وائرل بھی کردیا گیا لیکن وہ بھول گئے کہ اس نقشہ کی منظوری میں اپوزیشن کی پارلیمنٹ میں موجود تمام بڑی جماعتوں کی رضامندی شامل تھی اور یہی پاکستان کا اصل نقشہ ہے جسے شنگائی تعاون تنظیم نے بھارتی احتجاج کو خاطر میںنہ لاتے ہوئے تسلیم کیا ہے۔