جنابِ عالی!
خوبصورتی ، ذہانت اور حاضر جوابی جیسی خوبیاں اللہ کی طرف سے ہی عطا ہوتی ہیں اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ و ان کا استعمال کس طرح سے کرتا ہے۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ نام میں کیا رکھا ہے حالانکہ نام میں بہت کچھ رکھا ہوتا ہے اور بعض دفعہ تو انسان کی شخصیت پر اس کے نام کا بہت گہرا اثر بھی ہوتا ہے۔ عطاء اللہ عالیٰ کا نام اس کے والدین نے عطاء اللہ رکھا اگرچہ عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کی شہرت دیکھ اور سن کر نہیں رکھا تھا لیکن عطا کے والدین کو یہ تویقین تھا کہ ان کا بیٹا بھی عطا اللہ عیسیٰ خیلوی کی طرح اپنے نام کا ڈنکا ضرور بجائے گا کیونکہ انہیں پالنے میں ہی ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات نظر آنے لگے تھے ۔اگست 1963ء میں ملتان کے ایک مضافاتی علاقے جہانیاں میں پیدا ہونے کے بعد اس کے والدین نے اسے اپنی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کیلئے ابتدائی دینی اور تعلیمی ماحول بھی فراہم کیا لیکن طبیعت کے لااُبالی پن نے اسے جلد ہی دیہات کی قدرتی زندگی سے شہر کی مشینی زندگی کی طرف آنے پر مجبور کر دیا۔اگرچہ ماں باپ کی پوری خواہش تھی کہ ان کا بیٹا دودھ مکھن اور لسی جیسی سوغات سے بھرپور دیہات کی قدرتی زندگی سے لطف اندوز ہو لیکن عظاء اللہ نے دیہات کے دودھ مکھن اور لسی پر شہر کی ڈبل روٹی، چائے، بسکٹ اور مستقبل کے سہانے خوابوں کو ترجیح دی اور یوں وہ شہری بابو بن کر شہر در شہر گشت کرتا رہا۔ بی اے تک ملتان کے ایمرسن کالج میں تعلیم حاصل کی اور علم کے موتی چننے کے ساتھ ساتھ سیاست کے خار بھی چنتا رہا۔ ہر سر پھرے جذباتی طالب علم لیڈر کی طرح نعرہ بازی کی سیاست بھی کی لیکن جلد ہی اس کھیل سے اکتا کر تحصیل علم کے شوق میں کراچی جا پہنچا کراچی جو سمندر اور انسانوں کے سمندر کا شہر، روشنیوں کا شہر، بلند و بالا عمارتوں کا شہر، تعلیمی ماحول کی سہل پسندی بھی اسے اس شہر میں میسر آئی اور شہر کی چکا چوند روشنیوں نے بھی اسے متاثر کیا سو تعلیم اس کے دیگر مشاغل میں کوئی رکاوٹ نہ ڈال سکی۔ عطاء اللہ عالیٰ شروع دن سے ہی دو کشتیوں کا سوار بننے اور ہر کام مشکوک اور خفیہ انداز سے کرنے کا عادی ہے۔سر راہ چل رہا ہو تو لگتا ہے کہ ابھی دوڑنے بلکہ اُڑنے لگے گا کھڑا ہو تو محسوس ہو گا کہ شاید سونے کا ارادہ ہے۔ کراچی میں بھی اس کے شب و روز کچھ ایسے گزرے کہ اس کے بارے میں بہت کم لوگوں کو اس کے اصل حالات سے آگاہی ہوپائی۔ اس نے دولت کے حصول کیلئے بنک دولت پاکستان میں ملازمت اختیار کی اور ساتھ ہی حصول علم کے لیے یونیورسٹی میں بھی داخلہ لے لیا یوں اس نے بنک اور یونیورسٹی کے حقوق و فرائض ایک ساتھ ادا کئے صبح گھر سے بنک کے لئے روانہ ہوتا تو شام کو واپسی یونیورسٹی سے ہوتی یعنی ایک قدم بنک میں ہوتا تو دوسرا قدم یونیورسٹی میں اس لیے بنک اور یونیورسٹی والے دونوں اس کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم نہ کر سکتے اس نے البتہ دونوں سے مساویانہ سلوک اور انصاف روا رکھا بنک والوں کو استعفی اور یونیورسٹی والوں سے سند لے کر اس نے اپنے فرض شناس ہونے کا پورا پورا ثبوت دیا بنک دولت پاکستان میں اس نے راقم کے ساتھ مل کر حلقہ ادب کی داغ بیل ڈالی جہاں کی ادبی محفلوں کو ہندسوں کی بجائے لفظوں کی جادوگری سے پررونق بنائے رکھا۔کراچی سے فارغ الملازمت اور فارغ التحصیل ہو کر اس نے پہلے اپنے آبائی شہر جہانیاں اور پھر خانیوال کا رخ کیا اور اپنے علمی خیالات و تجربات سے مستقبل کے نوجوانوں کو عملی طور پر مستفید ہونے کا موقع فراہم کیا۔ اپنی سہل پسندی کی وجہ سے تعلیم کے میدان کو بھی کھیل کا میدان ہی سمجھا لہٰذا طالب علموں کو بھی کھیل ہی کھیل میں پڑھانا شروع کیا طلباء اور اپنی طبیعت کے پیش نظر کلاس بند کمرے کی بجائے کھلی فضا اور آب و ہوا میں لینے کو ترجیح دی۔مطالعہ پاکستان اس کا مضمون ہے لہٰذا پاکستان کی سیاحت کے لئے اپنے پائوں کے چکر کا سہارا لیتا ہے اپ گریڈیشن کے لئے گریڈوں کے شہر اسلام آباد کی یاترا بھی کر چکا ہے لیکن جلد ہی یہ بات اس پر عیاں ہو گئی کہ اس کے لیے اسلام آباد جیسے شہر میں قدم جمانا ہتھیلی پر سرسوں جمانے کے مترادف ہے۔ سو اب مرکز سے صوبائی دارالخلافہ لاہور میں اپنے قدم جمانے میں مصروف عمل ہے۔ پروفیسری کے بعد اب ٹیلی ویژن کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا چکا ہے۔ مختلف ٹی وی چینل پر اس کے ڈرامے اور سیریل آن ایئر ہو چکے ہیں اور اب اسی دشت کی سیاحی میں گم ہے۔ادب کے میدان میں طنزو مزاح کے زور پر داخل ہوا زمانہ طالب علمی میں سندھ نیشنلزم پر ایک فکر انگیز کتاب لکھ چکا ہے۔ بادل نخواستہ کے عنوان سے طنزو مزاح میں اپنا قد بڑھانے کیلئے اس نے خوب پر پرزے نکالے میدان ظرافت کے پانچ میناروں میں سے ایک مینار کے سائے تلے سستانے کے لیے اس نے میدان ظرافت کے بادشاہ ضمیر جعفری کو اپنا پیرو مرشد بنایا البتہ عالی جعلی پیروں کا سخت مخالف ہے۔ اوائل عمری میں کسی کے عشق میں گھر سے بھاگنے کا تجربہ بھی کر چکا ہے لہٰذا اب کسی اور چکر میں پڑنے سے ڈرتا ہے شادی بھی گھر والوں کی مرضی سے کر کے اپنے مشرقی ہونے کا ثبوت دیا ویسے بھی اب گھر اور گھر والی کا ڈر اسے گھر سے بھاگنے نہیں دیتا ۔ پروین شاکر کے فلسفے ’’وہ جب بھی لوٹا تو میرے پاس آیا ‘‘پر مکمل یقین رکھتا ہے۔
ایک بیٹے کا نام آسمان رکھا ہے اور کہتا ہے کہ بیٹی ہوئی تو اس کا نام زمین رکھوں گا تاکہ زمین آسمان کے قلابے ملانے میں آسانی رہے۔ چال ڈھال بول چال، لباس اور رکھ رکھائو سے ولایتی بننے کی کوشش کرتا ہے لیکن اندر سے پورا پینڈو ہے کسی مصلحت اور لگی لپٹی کے بغیر بات کرنے کا عادی ہے۔ اس محفل میں بھی نہیں جاتا جہاں صرف تعزیتی قرارداد پاس ہونے والی ہو بلکہ اس محفل میں جانا پسند کرتا ہے جہاں صرف تعزیتی قرارداد پاس آنے والی ہو۔ یعنی خیالی پہلوئوں سے زیادہ جمالیاتی پہلوئوں پر توجہ دیتا ہے۔ بظاہر خوش خوراکی کا مظاہرہ کرتا ہے لیکن باطنی طور پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اکثر راہ چلتے خوانچہ فروشوں اور ریڑھی والوں سے چیزوں کے ریٹ معلوم کر کے ان کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور اپنی ذائقے کی حس کو زندہ رکھتا ہے۔ رنگوں میں بدلتا رنگ اسے پسند ہے بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے اس کا پسندیدہ موضوع ہے جسے اپنے اکثر ڈراموں میں بھی شامل کر چکا ہے۔ خود بھی زمانے کی طرح ہر رنگ میں رنگ جانے کیلئے تیار رہتا ہے۔ مکانوں اور شہروں کی نقل مکانی کے بعد پراپرٹی ڈیلنگ کے فن میں بھی ماہر ہو چکا ہے۔ خوشبو وہ پسند کرتا ہے جو خواتین پسند کرتی ہوں اس لیے خوشبو پر خود رقم خرچ نہیں کرتا بلکہ دوسروں کی خوشبوئوں پر ہی قناعت کر لیتا ہے۔ کراچی میں تھا تو اسے ٹی وی پر آنے کا شوق تھا اسلام آباد رہا تو ٹی وی پر جانے کا شوق رہا اسی شوق شوق میں کئی مرتبہ ٹی وی کی اسکرین پر آ چکا ہے۔ ریڈیو سے عالمی سروس پر مزاحیہ کالم نگاری اور ٹی وی کیلئے اسکرپٹ لکھ کر آواز اور تصویر کی دنیا سے رابطہ استوار کئے ہوئے ہے۔ بادل نخواستہ اس کے طنزو مزاح پر مبنی پہلی کتاب ہے لیکن اس کے جملوں کی کاٹ اور الفاظ کے خوبصورت انتخاب کی داد دینا پڑتی ہے اس نے کتاب کا انتساب اپنی ماں اور بیوی کے نام اس خوبصورتی سے کیا ہے کہ دونوں کو یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ روئے سخن کس کی طرف ہے شروع ہی سے وہ انجانی سمتوں کا مسافر ہے اسلام آباد کی طرف سفر کر رہا ہو تو لگتا ہے لاہور کی فضائوں میں سے اور اگر لاہور میں ہو تو جہانیاں ، خانیوال یا ملتان میں اس کے اثرات دکھائی دیتے ہیں۔ عطاء اللہ عالیٰ کے بال ایسے ہیں کہ کبھی وبال جان محسوس نہیں ہوئے۔ لہٰذا بالوں کے سٹائل کی بجائے سر منڈوانے کو ترجیح دیتا ہے ور اولے پڑ نے کا انتظار کرتاہے۔اب اپنی پوری توجہ ٹی وی اور ٹی وی والوں پر رکھے ہوئے ہے البتہ جمیل الدین عالی جلیل عالی اور عطا اللہ عیسی خیلوی کو اب بھی اپنی شہرت کی راہ میں رکاوٹ سمجھتا ہے اسکی خواہش ہے کہ اپنے فن کی بلندیوں کو جلد چھو لے اور لوگ اسے عطا اللہ عیسی خیلوی کی بجائے جناب عالی کہہ کر پکاریں۔