’’پولیس اور پی آئی اے‘‘
پاکستانی ادارے فوج‘عدلیہ‘ یا پھر پولیس سبھی قابل رشک کارکردگی کے حامل ہیں۔ ’’پولیس ‘‘ کے متعلق تجزیہ ہے کہ نعوذ باللہ مُردے کو بھی زندہ کر سکتی ہے مطلب یہ کہ یہ قطعی ناممکن ہے صرف اس لئے لکھا کہ اگر چاہے تو کوئی بھی ناممکن کام کردِکھا سکتی ہے۔ پوری پاکستانی قوم اِس نکتہ پر متفق ہے کہ ہمارا نظام خصوصاً پولیس مکمل طور پر ناکام ہوچکا ہے۔تاریخ سامنے ہے ۔ ماضی ۔ حال کے واقعات ۔سانحات یاد ہیں۔ایک ماتڑ سا مجرم ۔ پکڑنے کیلئے درجنوں چھاپے ۔ ہر مرتبہ نفری’’ 1000 ۔1200 ‘‘ یہ کوئی بات ہے۔ اتنا یقین ہے کہ ایک اہلکار پورے ملک کے مجرموں کو پکڑوا سکتا ہے اگر نیت کر لے تو۔
سبھی کی رائے درست ہے مگر حل کی طرف کوئی نہیں جاتا۔ اول تو سیاسی بھرتیوں کو دیکھیں ۔ ’’سیاسی اشرافیہ‘‘ اپنے مفادات ہاتھوں محصور ہے۔ ’’90 فیصد‘‘ خرابیاں اِسی ذہنیت کی پیداوار ہیں۔ دوسرے ــ’’وی آئی پی‘‘ ڈیوٹی ۔ ایک اہلکار دن بھر سٹرک پر کھڑا رہتا ہے سردی ہے یا گرمی ۔بھلے وہ نوکری پر ہے۔ تنخواہ لیتا ہے مگر اُسکے احساسات ہیں۔ آرام کی طلب ہے ۔خانگی ذمہ داریاں ہیں اِس طرف بھی توجہ دیں۔ مسائل ۔ ضروریات کی تکمیل کی کامل ذِمہ داری ’’ریاست‘‘ اُٹھالے تو وہ چوکس بھی ہو گا اور رشوت بھی نہیں لے گا ۔ پہلے بھی بارہا لکھا کہ ’’پولیس‘‘ کی ٹریننگ فوجی انداز میں کروائی جائے دوسرے ’’وی آئی پی‘‘ کیلئے الگ سے فورس تشکیل دیں جس میں اُن نوجوانوں کو بھرتی کیا جائے جو ہاتھوں میں ڈگریاں لیکر پھر رہے ہیں۔ ایک تو بے روزگاری کا مسئلہ حل ہوگا دوسرے ’’پولیس‘‘ اپنے اصل کام یعنی عوام کی حفاظت کا فریضہ صحیح طور سے سر انجام دے سکے گی۔
وقت کے تقاضوں کو سمجھنے کیلئے بہت زیادہ پڑھا لکھا ہونا ضروری نہیں اُسی طرح جیسے ’’کھانا‘‘ کھانے کیلئے تعلیم ضروری نہیں ۔ ’’وقت ‘‘ وہ بھی ایسا کہ نصف سال سے زائد عرصہ کی خوفناک وبا ’’کرونا‘‘ پر تاحال مکمل قابو نہیں پاسکے ۔ ’’وقت‘‘ وہ بھی ایسا کہ غریب سے غریب گھرانہ میں بھی ’’ٹی وی‘‘ نہ ہو تو (اول تو ہر گھر میں ہے) ’’موبائل‘‘ کا مالک ہے۔ ’’24 گھنٹے ’’ کرونا بابت کی ہدایات کے فیز کے باوجود موجودہ عہد کے بچے ۔ چھوٹی عمر کے بچے’’ بڑوں‘‘ سے زیادہ سمجھدار ہیں۔’’ کوئی 50 کوئی 60 سال‘‘۔ ہوائی سفر میں مسافروں کی اکثریت کو ایس او پیز کی خلاف ورزی کرتے دیکھا۔ جاتے ہوئے اور واپسی پر۔ کلاس ٹیچر کی طرح فضائی عملہ ماسک پہننے کی ہدایت کر رہا تھا۔ مسلسل تکرار کے باوجود لوگ رضا مند نہ ہوئے ۔ بعض کو تو زبردستی پہنائے گئے ۔ تجویز ہے کہ اِس موقع پر جبکہ ’’عالمی ادارہ صحت‘‘ ممکنہ دوسری لہر (جو کہ زیادہ شدید ہوگی) کی وارننگ جاری کر چکا ہے اور لوگ ’’ایس او پیز‘‘ کو بھی ماننے سے انکاری ہیں تو چاہیے کہ جو لوگ ماسک پہننے سے انکار کریں۔ اُن کوجہاز میں بیٹھنے نہ دیا جائے ہم دوسری’’ ائر لائینز‘‘ میں جب ہدایات مانتے ہیں تو پھر اپنے ملک۔ اپنے ادارے میں خلاف ورزی کرنے پر کیوں مُصر ہیں؟
دنیا بھر کی ’’ائر لائینز ‘‘ پر کشش ۔ رعایتی مراعات کا اعلان کر چکی ہیں اور کر رہی ہیں۔ وہ ممالک جن کا انحصار ہی سیاحت پر ہے۔ ’’کرونا‘‘ نے اُن کو سب سے زیادہ متاثر کیا تھا۔ وہ سب سے زیادہ پیکجیز دے رہے ہیں اسی لیے تو ’’مسافر‘‘ اُن کو ترجیح دیتے ہیں ایک تو سروسز بہت بہتر۔ دوسرے فضائی عملے کا رویہ انتہائی بااخلاق ’’گھنٹہ‘‘ سے زائد کا سفر۔ صرف ایک گلاس جوس یا پانی ۔ وہ بھی انتہائی روکھے انداز میں ۔ کیا لینگے ؟ ایسا سوالیہ انداز کہ جان چھوڑو ۔ کچھ مت لو تو اچھا ہے۔ سوچیں تو شاید مقصد سماجی فاصلے کا نقصان پورا کرنے کی کاوش ہوسکتی ہے۔ ایسا ہے تو نقصان تو ’’فضائی میزبان‘‘ کا بھی بھرنا بنتا ہے۔
مسافروں کے سامنے (وہ بھی صبح سویرے کے) عملہ کھانے کی ٹرے لیکر جاتا دکھائی دیا تو زیادہ محسوس ہوا۔ ضروری نہیں’’3،4‘‘ عدد کھانے پینے کے لوازمات ہوں۔ ایک آدھ ’’سینڈوچ بمعہ چائے‘‘ تو بہت ضروری ہے۔ صبح کے وقت ٹھنڈے مشروبات تو بدلتے موسم میں زکام ۔ بخار کا باعث بنتے ہیں۔ ہمیشہ اپنی ’’ائر لائن ‘‘ کو ترجیح دی ۔ مسافر تو مہمان ہوتا ہے اور ائیر لائن میزبان ۔ تو اپنے مہمان کی چاہے ایک چیز سے تواضح تو بنتی ہے۔ ’’پی آئی اے ‘‘ کی مہارت ۔ فنی قابلیت کا سکہ چلتا تھا۔ ’’پولیس اور پی آئی اے‘‘ کی صلاحیت ۔ کارکردگی کے ضمن میں کوئی شک ۔نہیں بس ایماندار نیت بہت ضروری ہے۔ درست سمت گامزن صرف ’’نیک نیت ‘‘ ہی کر سکتی ہے۔
پی آئی اے کی کارکردگی بہت اچھی ہے مگر اس کو مزید بہتر بنانا بہت ضروری ہے ۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ نئے طیارے خریدیں تاکہ حادثات کی شرح میں کمی ہو سکے۔ دوسرے موجودہ عہد کے یونیورسٹی ہولڈر نوجوانوں کو بطور’’ فضائی میزبان‘‘ بھرتی کریں ۔ اس قدم سے ناصرف بے روزگاری ختم ہوگی بلکہ ہماری سروسز کا معیار بھی بہت بہتر ہو جائیگا ۔ مزید براں’’ ایک کروڑ نئی نوکریاں‘‘ دینے کا حکومتی وعدہ بھی کافی حد تک پورا ہو جائیگا۔اسکے علاوہـ’’ ائر پورٹس ‘‘ پر سہولتوں کو بڑھایا جائے کیونکہ وہاں پر حالات اچھے نہیں ہیں۔ عملہ زیادہ ہے مگر صفائی اور دوسرے معاملات بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ ’’پولیس اور پی آئی اے‘‘ دونوں ادارے پاکستان کا فخر ہیں مگر کچھ سالوں سے سیاسی مداخلت میں اِسکی چمک کو دھندلا کر دیا ہے ۔ بہت ضروری ہے کہ تمام اداروں کو کلی طور پر سیاسی اثر ورسوخ سے پاک کیا جائے ۔ جس کیلئے بہت جرتمندنہ اقدمات کی ضرورت ہے۔ سب سے بڑا اور ٹھوس قدم یہ اٹھائیں کہ طے شدہ معیاد سے پہلے تبادلوں پر پابندی عائد کر دیں ۔ ہر ادارے میں عرصہ تعنیاتی 2 یا3 سال ہے اس اصول پر مکمل عمل درآمد کو ممکن بنائیں ۔پسند یا نا پسند پر تبادلہ اور’’ او ایس سی‘‘ بنانا انصاف کے اصولوں کے منافی ہے ۔ کوئی بھی حکومت جو شفا فیت سے کام کرنے پر یقین رکھتی ہو اس کا دامن کرپشن کی آلودگی سے پاک ہو تو کوئی قاعدہ کی کبھی خلاف ورزی نہیں کرتی۔ہمارے قوانین بھی بہترین ہیں ۔ ہمارے ادارے بہترین ہیں اور ہمارے پاس باصلاحیت لوگوں کی کمی نہیں پھر وہی بات کہ کمی صرف’’ نیت ‘‘کی فنی خرابی ہے۔