چوہدری ظہور الٰہی شہید کی یاد میں
شہرہ آفاق عوامی شاعر حبیب جالب نے چوہدری ظہور الٰہی کو منظوم خراج تحسین پیش کیا تھا
؎ آبرو پنجاب کی تو،شان پاکستان کی
پیار کرتی ہے تجھے دھرتی بلوچستان کی
سندھ کی دھڑکن ہے تو ،سرحد کی تو آوازہے
تیرے دل میں قدر ہے ہر اک جری انسان کی
چوہدری ظہور الٰہی شہید کی کہانی دریائے چناب کے کنارے واقع گجرات کے ایک چھوٹے سے گائوں ’’نت وڑائچ‘‘ سے شروع ہوتی ہے۔ مجھے چوہدری برادران کی تین نسلوں کی کوریج کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ چوہدری ظہور الٰہی شہید کے بعد چوہدری شجاعت حسین اور اب چوہدری سالک حسین کی پارلیمنٹ کی کوریج کر رہا ہوں ۔ چوہدری برادران سے ذاتی سطح پر مراسم قائم ہیں چوہدری ظہور الٰہی شہید کا شمار پاکستان کے ان جرأت مند سیاست دانوں میں ہوتا ہے جنہوں نے مشکل ترین حالات میں کلمہ حق بلند کیا ۔ فاشسٹ حکمرانوں کے سامنے اپنے آپ کو ’’سرنڈر‘‘ نہیں کیا ۔ جب پیپلز پارٹی کے پہلے دور حکومت میں اپوزیشن کو دیوار سے لگا دیا گیا تو یہ چوہدری ظہور الٰہی شہید تھے جن کے جرأت مندانہ کردار نے اپوزیشن کا حوصلہ بڑھا یا چوہدری ظہور الٰہی شہید نے کچھ اس شان جیل آباد کی کہ اپنے بعد آنیوالے لوگوں کیلئے جرأت و بہادری کی داستانیں چھوڑ گئے۔ چوہدری ظہور الٰہی شہید کی رہائش گاہ99ویسٹریج راولپنڈی میرے آبائی گھر مصریال کے بہت قریب تھی میں اکثرو بیشتر ان سے ملاقات کیلئے چلا جاتا یہ رہائش گاہ حکومت مخالف تحاریک کا مرکز تھی۔ جبکہ خود چوہدری ظہور الٰہی شہید اپوزیشن کے روح رواں تھے۔ جب انہوں نے جنرل ضیا الحق سے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کے فیصلے پر دستخط کئے تو یہ چوہدری ظہور الٰہی شہید تھے جنہوں ان سے وہ قلم لے لیا جس سے جنرل ضیاالحق نے وفاقی کابینہ کے فیصلے کی توثیق کی اگرچہ انٹیلی جنس نے چوہدری ظہور الٰہی شہید کو آگاہ کر دیا تھا کہ ان پر کسی وقت بھی قالانہ حملہ ہو سکتا ہے ۔دہشت گرد ان کا تعاقب کر رہے ہیں لہذا جہاں انہیں اپنی آمدورفت ’’ خفیہ‘‘ رکھنی چاہیے وہاں وہ اپنی حفاظت کے لئے خصوصی انتظامات کر لیں لیکن گجرات کے اس بہادر ’’جٹ ‘‘ نے اپنی جان کا لاحق خطرات کی پروا کئے بغیر اپنی روزمرہ کی مصروفیات ترک نہیں کیں یہی وجہ ہے۔ 25ستمبر 1981 دن دیہاڑے لاہور میں شہید کر دیا گیا۔ چوہدری ظہور الٰہی نے ایک عام آدمی کی حیثیت سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا انہوں 1950ء میں میدان سیاست میں قدم رکھا انہوں نے اپنے پیچھے جو ’’ سیاسی ورثہ ‘‘ چھوڑا ہے۔ آج ان کی اولاد اس سیاسی ورثے کا پھل کھا رہی ہے۔
آج ملکی سیاست میں چوہدری شجاعت حسین ، چوہدری پرویز الٰہی اور انکی اولاد چوہدری سالک حسین و مونس الٰہی کو جو مقام حاصل ہوا ہے یہ سب کچھ چوہدری ظہور الٰہی شہید کی محنت شاقہ کا ثمر ہے۔ چوہدری خاندان نے اس پر کبھی کمپرو مائز نہیں کیا۔ اگرچہ شیخ رشید احمد نے زمانہ طالبعلمی میں ہی قدم رکھ دیا تھا لیکن ان کیلئے چوہدری ظہور الٰہی شہید سایہ شجر بنے رہے اور انکی سرپرستی کرتے رہے۔ چوہدری ظہور الٰہی شہید کی ذوالفقار علی بھٹو سے دوستی تھی تو انکی تصویر اپنے ڈرائنگ روم میں سجا رکھی تھی لیکن جب دونوں کے درمیان اختلاف نے ذاتی ’’ دشمنی‘‘ کی شکل اختیار کر لی تو ذوالفقار علی بھٹو نے چوہدری ظہور الٰہی شہید کو کوہلو میں مروانے کی کوشش کی پھر چوہدری ظہور الٰہی شہید نے بھی ذوالفقار علی بھٹو سے دشمنی ان کو تختہ دار پر لٹکانے تک نبھائی ۔ بہادر بلوچ اکبر بگٹی نے چوہدری ظہور الٰہی شہید کی اپنے خاندان کے ایک فرد کی طرح حفاظت کی۔ گجرات کے چوہدری اپنے دشمن کو نہیں بھلاتے وہ کار آج بھی چوہدری خاندان کے پاس ظہور الٰہی پیلس گجرات میں محفوظ ہے جسے الذولفقار کے دہشت گردوں نے کلاشنکوف کی گولیوں سے چھلنی کر دیا تھا مجھے یاد ہے محترمہ بے نظیر بھٹو ’’ سیاسی دشمنی ‘‘ختم کرنے کیلئے ظہور پیلس گجرات آنا چاہتی تھیں جہاں چوہدری شجاعت حسین نے انکے سر پر چادر پہنانی تھی لیکن چوہدری ظہور الٰہی شہید کی صاحبزادیاں ’’سیاسی صلح‘‘ کی راہ میں حائل ہو گئیں اور چوہدری شجاعت حسین کو محترمہ بے نظیر بھٹو کا ’’ ظہور پیلس ‘‘میں استقبال کی تقریب منسوخ کرنا پڑی ۔چوہدری ظہور الٰہی شہید پارلیمنٹ کی رونق تھے جب وہ پارلیمنٹ ہائوس کی کیفے ٹیریا میں قدم رکھتے رونقیں لگ جاتی تھیں۔ 99ویسٹریج راولپنڈی کو ’’مہمان خانہ‘‘ کی حیثیت حاصل ہو گئی ۔ انہوں نے جس دور میں اپوزیشن کی سیاست کی ہے اس میں سیاسی رہنمائوں کو مخالفت پر ’’سر ‘‘ کی قیمت ادا کرنا پڑتی تھی۔سیاست بڑا بے رحم کھیل ہے ۔گجرات کے چوہدری برادران نے ’’نواز شریف دشمنی ‘‘ میں اپنے باپ کے قاتلوں کو معاف کر دیا اور پیپلز پارٹی کی حکومت جائن کر لی۔ میاں نواز شریف کی جانب سے جاتی امرا میں چوہدری برادران کے اعزاز میں دئیے جانے والے ظہرانہ کی منسوخی انکی سیاست میں ’’ٹرننگ پوائنٹ ‘‘ بن گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے چوہدری ظہور الہی شہید کی دعوت میں عین وقت پر گجرات آنے سے معذرت کی توانکے ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان ایسے فاصلے پیدا ہوئے جو زندگی بھر ختم نہ ہو سکے ۔ عظیم باپ کی خوبیوں کی ایک جھلک انکے صاحبزادے چوہدری شجاعت حسین میں نظر آتی ہے۔ خو ش گفتاری اور حس مزاح ان کی شخصیت کا پر تو ہے میں نے ان سے کم و بیش 40 سالوں پر مبنی دوستی میں کبھی غصے میں نہیں دیکھا ۔ 12اکتوبر1999ء کے ’’پرویزی مارشل لائ‘‘ میں ماڈل ٹائون لاہور میں شریف خاندان کی خواتین نے اپنی گرفتاری کا خطرہ محسوس کیا تو انہوں نے روزنامہ نوائے وقت کے معمار جناب مجید نظامی کی رہائش گاہ پر پنا ہ لے لی۔ جب چوہدری شجاعت حسین کو معلوم ہوا تو وہ انہیں لینے کیلئے جناب مجید نظامی کی رہائش گاہ پر پہنچ گئے او یہ کہہ کر اپنے گھر لے گئے ’’ دیکھتے ہیں ہمار ی ان مائوں بہنوں اور بیٹیوں کو کون گرفتا ر کرتا ہے ؟‘‘ چوہدری برادران نہ چاہتے ہوئے بھی ’’نواز شریف دشمنی ‘‘ میں عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
٭…٭…٭