گلگت بلتستان پر سیاست؟
ملکی سلامتی اور قومی مفاد سے متعلق کچھ معاملات ایسے ہیں جن پر فی الواقع کسی قسم کی سیاست نہیں کرنی چاہیے اور کسی کو بھی سیاست نہیں کرنی چاہیے۔ مگر یہ کیا ہے کہ سابق وزیراعظم مجرم نوازشریف کی آل پارٹیز کانفرنس میں کی گئی ویڈیو لنک تقریر سے گرم ہونیوالا سیاسی محاذ گرم تر ہوتا چلا جارہا ہے اور اس میں قومی مفادات کو بٹہ لگنے کی بھی کوئی پرواہ نہیں کی جارہی۔ اس تقریر کے بعد پارلیمانی لیڈروں سے ہونیوالی ہفتہ قبل کی خفیہ ملاقات کو منظرعام پر لا کر جنرل ضیاء الحق والے اس ماحول کو پھر سے اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی کہ ’’یہ سیاست دان کس باغ کی مولی ہیں‘ میں انکی جانب انگلی سے ایک اشارہ کروں تو یہ کتے کی طرح دم ہلاتے ہوئے میرے پاس بھاگتے چلے آئیں‘‘ شاید اس پیغام میں کوئی کسر رہ گئی تھی کہ تلخ بیانیے والے مجرم میاں صاحب کے مصاجین کی بھی ’’ملاقاتوں‘‘ کیلئے دوڑ لگاتے ہوئے آمد کا منظرنامہ سامنے آگیا۔ اب بیان در بیان اور جواب الجواب کا سلسلہ جاری ہے اور گلگت بلتستان کا نازک ایشو بیچ میں رگڑے کھا رہا ہے جس پر فی الواقع سیاست نہیں ہونی چاہیے۔
مجھے مریم نواز کے اس موقف سے مکمل اتفاق ہے کہ گلگت بلتستان کے مستقبل کا کیا فیصلہ کرنا ہے اس کیلئے پارلیمنٹیرین حضرات کو سر جوڑ کر پارلیمنٹ کے اندر بیٹھنا چاہیے۔ بے شک یہ معاملہ پارلیمنٹ کے اندر ہی طے ہونے کا متقاضی ہے جس کی بنیاد پر ہماری قومی پالیسی طے ہونی ہے۔ گلگت بلتستان کو پیپلزپارٹی کے دور میں پاکستان کے ایک صوبے کا درجہ دیا گیا تو اس وقت بھی میں نے ان سطور میں عرض کیا تھا کہ اس سے کشمیر پر ہمارا دیرینہ اصولی موقف غارت ہو سکتا ہے۔ آزاد کشمیر سپریم کورٹ اپنے ایک فیصلہ میں گلگت بلتستان کو آزاد کشمیر کا حصہ قرار دے چکی ہے اور کشمیر پر ہمارا دیرینہ اصولی موقف یہی ہے کہ یہ متنازعہ علاقہ ہے۔ بے شک اسے ہندو بنیاء لیڈر شپ نے اپنے مقاصد کے تحت ہی متنازعہ بنایا ہے مگر اب اسکے مستقبل کا فیصلہ کشمیری عوام نے خود کرنا ہے جنہیں اس مقصد کیلئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی نے استصواب کا حق دیا ہے۔ بھارت کشمیریوں کے اس حق کو تسلیم نہیں کرتا اور اس نے اپنے جبری تسلط والے کشمیر کو اپنے آئین میں ترمیم کرکے بھارتی ریاست کا درجہ دے دیا تھا تو ہم اسی بنیاد پر اقوام عالم اور اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی اداروں کے دروازوں پر دستک دے رہے ہیں کہ کشمیر کا تنازعہ کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق طے کیا جائے اور اس کیلئے مقبوضہ کشمیر میں یواین قراردادوں کی روشنی میں استصواب کا اہتمام کرایا جائے۔
ارے بھائی صاحب! یہ اصولی موقف رکھتے ہوئے ہم گلگت بلتستان کو سپریم کورٹ آزاد کشمیر کے فیصلہ کی روشنی میں کشمیر کا حصہ تسلیم کرنے کے بجائے ملک کے ایک صوبے کا درجہ دے دیتے ہیں تو ہم پھر کس زبان سے کشمیر پر اپنے اصولی موقف کی وکالت کرینگے اور بھارت کی جانب سے اپنے زیرقبضہ کشمیر کو بھارتی ریاست کا درجہ دینے پر کس منہ کے ساتھ اقوام عالم کے سامنے اس کا سیاپا کرینگے۔ بھارت نے تو اقوام متحدہ کی قراردادیں‘ انسانی اقدار‘ اخلاقیات اور سارے قانونی‘ آئینی تقاضے پامال کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کو جموں اور لداخ کے دو حصوں میں بانٹ دیا اور انکی الگ الگ حیثیت میں انہیں بھارتی سٹیٹ یونین کا حصہ بنا دیا ہے اور یہی وہ ننگی بھارتی جنونیت ہے جس کیخلاف اقوام عالم میں اور نمائندہ عالمی فورموں پر ہمارا کشمیر کیس مزید مضبوط ہوا ہے اور عالمی قیادتوں اور اداروں کی جانب سے شدومد کے ساتھ تنازعۂ کشمیر کے یواین قراردادوں کے مطابق حل پر زور دیا جارہا ہے۔
اگر مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے سازگار ہونیوالی اس فضا میں ہم اپنا ’’لچ‘‘ تلتے ہوئے گلگت بلتستان کو باضابطہ طور پر پاکستان کے صوبے کا درجہ دے دیتے ہیں تو کشمیر پر پاکستان کا دیرینہ اصولی موقف غارت کرنے کیلئے بھارت کو اور کیا چاہیے۔ ہم تو خود ہی اپنے پائوں کے نیچے سے قالین سرکا رہے ہیں اور بھارت کے زیرقبضہ کشمیر کو پلیٹ میں رکھ کر اسکے حوالے کر رہے ہیں۔ اسکے بعد وہ کشمیر کا علاقہ ہونے کے ناطے گلگت بلتستان پر بھی اپنا حق جتائے گا تو اقوام عالم میں اپنے اصولی موقف کے ساتھ ہم کہاں کھڑے ہونگے۔
اور جناب! آئین کے تقاضے کے تحت کسی ایک صوبے سے نیا صوبہ نکالنا کوئی آسان کام تو نہیں۔ اگر ہم گلگت بلتستان کو صوبہ خیبر پی کے کا حصہ گردان کر اسے نئے صوبے کا درجہ دیتے ہیں تو اس کیلئے ہمیں آئین کی دفعہ 239 اور اسکی ذیلی دفعہ 4 کے تقاضے پورے کرنا ہونگے جس کے تحت پہلے کے پی کے اسمبلی کو اپنے تمام ارکان کی دو تہائی اکثریت کے ساتھ قرارداد منظور کرکے قومی اسمبلی میں بھجوانا ہوگی اور پھر قومی اسمبلی اپنے ارکان کی تین چوتھائی اکثریت کے ساتھ نئے صوبہ کے مسودۂ قانون کی منظوری دیگی جسے صدر مملکت کے دستخطوں کے ساتھ نئے صوبے کی تشکیل سے متعلق قانون کی شکل دی جائیگی۔ کے پی کے اسمبلی میں یقیناً پی ٹی آئی کو دوتہائی اکثریت حاصل ہے۔ بسم اللہ کریں‘ وہاں سے صوبہ گلگت بلتستان کیلئے قرارداد منظور کراکے قومی اسمبلی میں بھجوا دیں۔ مگر قومی اسمبلی کی حالیہ پوزیشن میں تو نہ نومن تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی۔ اگر مسلم لیگ (ن) اپنی سابقہ حکومت میں پنجاب اسمبلی سے صوبہ جنوبی پنجاب کی قرارداد منظور کرانے کے باوجود قومی اسمبلی میں اس نئے مجوزہ صوبہ کیلئے قانون سازی نہیں کراسکی تھی تو اب کی قومی اسمبلی میں بھی بھلا کسی نئے صوبے کی گنجائش کیسے نکل پائے گی۔ اور گلگت بلتستان کو صوبے کا درجہ دینے کیلئے تو جس اتفاق رائے کی ضرورت ہے وہ اس ایشو کو غوروخوض کیلئے پارلیمنٹ کے فورم پر لانے کا ہی متقاضی ہے جہاں پہلے اس بات پر بحث ہو کہ گلگت بلتستان کو صوبے کا درجہ دینا ہمارے قومی مفادات سے مطابقت رکھتا بھی ہے یا نہیں۔ حضور! یہ ایشو سیاست بازی کا ہرگز نہیں بلکہ اس پر ویسے ہی قومی سیاسی عسکری قیادتوں کی ایک جامع کانفرنس ہونی چاہیے جیسے اس دھرتی کو دہشت گردی سے پاک کرنے کی متقاضی قانون سازی اور نیشنل ایکشن پلان کی تیاری کیلئے قومی‘ سیاسی‘ عسکری قیادتوں نے باہم سر جوڑ کر متفقہ فیصلہ کیا تھا۔ موجودہ حالات میں تو ہمیں اپنا کوئی کمزور پہلو اپنے مکار دشمن بھارت کے ہاتھ لگنے ہی نہیں دینا چاہیے کہ وہ تو پہلے ہی پاکستان کی سلامتی پر اوچھا وار کرنے کے موقع کی تاک میں ہے۔ حضور! یہ گڈی گڈے کا کھیل ہرگز نہیں۔ آپ ملک کی سلامتی کی فکر کیجئے اور آئین نے جس کی جو ذمہ داری طے کر رکھی ہے‘ اسکی ادائیگی میں کوئی کمی نہ آنے دیجئے۔ تاریخ بہرصورت اپنا حساب کتاب پورا رکھتی ہے اور کوئی سیاست اس میں ڈنڈی نہیں مار سکتی۔