بھارت کی خوش فہمی
خوش فہمی ایسا انسانی موڈ ہے جس میں انسان ہر چیز کو مثبت انداز میں دیکھتا ہے اور محسوس کرتا ہے۔ تمام حالات کو حقیقی انداز میں دیکھنے کی بجائے اور سمجھنے کی بجائے منفی حالات کو بھی مثبت انداز میں دیکھنے کی عادت ہوتی ہے۔اکثر لوگ اسے کردار کی مثبت خصوصیت قرار دیتے ہیں لیکن بعض اوقات یہ عادت انسان کو تباہی کے دہانے تک پہنچا دیتی ہے۔سمجھدار انسان کو ہر چیز اور ہر واقعہ کو اصلی اور حقیقی رنگ میں دیکھنا چاہیے۔ ورنہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔1967کی عرب اسرائیل جنگ اسی خوش فہمی کا نتیجہ تھا اور یہ خوش فہمی جناب یاسر عرفات مرحوم سے شروع ہوئی۔ہوا یہ کہ اسے خوش فہمی ہو گئی تھی کہ اسرائیل کے اردگرد کے عرب ممالک عسکری لحاظ سے بہت مضبوط ہو گئے ہیں۔ اگراب عرب ممالک مل کر اسرائیل پر حملہ کرتے ہیں تو اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹا سکتے ہیں اور یہی تمام مسلمانوں کی خواہش ہے۔لہٰذا مرحوم یاسر عرفات صاحب نے عربوں کی عسکری طاقت کی دل کھول کر اتنی تعریف کرنی شروع کی کہ اسے آسمان کی بلندیوں تک لے گیا۔ ایسی تعریف کو عام طور پر ’’ہوا بھرنا‘‘ کہتے ہیں۔با الفاظ دیگر اس نے عربوں میں اتنی ہوا بھری کہ وہ بالآخر جنگ کیلئے تیار ہو گئے اور اسرائیل پر حملہ کر دیا۔یہ محض ان کی خوش فہمی تھی کہ وہ اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹا سکتے ہیں۔خوش فہمی کی اس جنگ کا نتیجہ یاسر عرفات اور عربوں کی خواہش کیخلاف نکلا۔ عربوں کا بہت سا تزویراتی طور پر اہم علاقہ اسرائیل کے قبضے میں چلا گیاعربوں کو عبرتناک شکست سے دو چار ہونا پڑا۔
یہی حالت اسوقت بھارت کی ہے بھارت اور چین چند ماہ سے لداخ کے علاقے میں سرحدی لائن پر ایک دوسرے کے ساتھ بر سر پیکار ہیں۔ فوجوں کی کئی دفعہ آپس میں جھڑپیں ہو چکی ہیں۔ان جھڑپوں میں بھارت کو برے طریقے سے مار پڑی اور بیس آدمی بمعہ ایک کرنل را ہی ملک ِ عدم بھی ہوئے لیکن اسوقت بارڈر پر سکون اور خاموشی ہے۔ ایک اخباری خبر کے مطابق لداخ میں بھارت کا38 ہزار مربع کلومیٹر چین کے قبضے میں چلا گیا ہے جو وہ واپس کرنے پر راضی نہیں۔ مزید یہ کہ چین نے ریاست ارونا چل پردیش کے 90ہزار مربع کلو میٹر رقبے پر بھی دعویٰ کیا ہے۔اسوقت دونوں فوجوں کے درمیان باہمی افہام و ر تفہیم کیلئے میٹنگز ہو رہی ہیں۔ ماسکو میں دونوں ممالک کے وزرائے دفاع بھی مل چکے ہیں۔وزرائے خارجہ کی باہمی ملاقات بھی ہوئی ہے۔گو دونوں ممالک کی پانچ نقاط پر صلح ہو چکی ہے لیکن اس پر تا حال عمل نہیں ہوا۔ موجودہ حالات سے تو یہی نظر آتا ہے کہ دونوں ممالک کوکسی نہ کسی مرحلہ پر ایک فیصلہ کن جنگ لڑنا پڑے گی۔ بھارت کو یقین ہو گیا ہے کہ وہ چین کو ایک بڑی شکست دے سکتا ہے جس کی کئی وجوہات ہیں۔
ایک وجہ تو بھارت کے نجومی ہیں۔ بھارتی ہندووں کا اعتقاد ہے کہ ہر کام کیلئے حساب ضرور کراتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب بچہ پیدا ہوتاہے تو نجومیوں سے اسکی ’’ کنڈلی‘‘ ضرور بنوائی جاتی ہے جس سے انہیں پتہ چلتا ہے کہ بچے کا مستقبل کیسا ہو گیا۔ شادی بیاہ کیلئے بھی کنڈلی نکلوائی جاتی ہے ۔اسی طرح بھارتیوں نے پاکستان اور چین کیلئے بھی زائچے بنوا رکھے ہیں۔ پاکستانی زائچے کے متعلق تو میں نے اپنے کسی سابقہ کالم میں تفصیل دی تھی۔ چین کے متعلق زائچہ کافی تفصیل میں ہے اور پوری ویڈیو ہے جو آپ دیکھ سکتے ہیں۔ اس ویڈیو میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ بالآخر چین کو برے طریقے سے شکست ہوگی اور بھارت علاقے کی سپر پاور بن جائیگا۔ اس لئے بھارتیوں کو یقین ہے کہ بالآخر فتح انہی کی ہوگی اور اسکے علاوہ ان کے پاس عسکری وجوہات بھی ہیں۔ کچھ دن پہلے کرنل دنویر سنگھ کا تجزیہ سننے کا اتفاق ہوا۔ کرنل صاحب بھارت کے مشہور تجزیہ نگار ہیں۔ فرماتے ہیں جب بھی جنگ ہوگی یہ بڑے پیمانے پر ہوگی اور بھارت کے دوست یعنی امریکہ، برطانیہ ،فرانس ، جاپان، ویت نام وغیرہ سب بھارت کی مدد کریں گے اور یہ جنگ ایک ہی وقت میں چین اور پاکستان دونوں کے خلاف لڑی جائیگی۔ بھارت کو خطرہ ہے کہ جنگ کی صورت میں ضرور پاکستان چین کی مدد کو آئیگا لہٰذا ہم پاکستان پر حملہ کر کے یہ خطرہ ہمیشہ کیلئے ختم کر دیں گے۔ میجرگوروآریا کے مطابق بھارت اس لئے جیتے گا کہ بھارتی سولجرز بہت مضبوط ہیں۔
اکثر وہ مثال پاک بھارت جنگوں کی دیتے ہیں یعنی مشرقی پاکستان میں 1971 کی جنگ اور کارگل جنگ وہ اپنی پبلک کو خوش کرنے کیلئے جو مرضی آئے کہتے رہتے ہیں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ مشرقی پاکستان کی جنگ بھارت اتنی آسانی سے کبھی نہیں جیت سکتا تھا اگر بنگالی عوام، بنگالی پولیس اور بنگالی رضا کار فورس ان کے ساتھ نہ ملتی تو۔ ہم نے اپنے بھائیوں سے مارکھائی نہ کہ بھارتی فوج سے ۔ بھارتی فوج کی مشرقی کمان کے چیف آف سٹاف جنرل جیکب نے اپنی بائیوگرافی میں لکھا ’’پاکستانی سولجرز ایک ایک انچ زمین کیلئے لڑے۔ پانی اور دلدل میں چل چل کر انکے پائوں گل چکے تھے۔ نیند سے ان کی آنکھیں بوجھل تھیں۔ بدن تھکاوٹ سے چور تھے مگر پھر بھی نہ کوئی سولجر بھاگا نہ ہی پیچھے ہٹا‘‘ فیلڈ مارشل مانک شانے بھی پاک فوج کی بڑی تعریف کی خصوصاً کیپٹن احسن صدیقی کی جسکی چھوٹی سی پارٹی نے پورے بھارتی ڈویژن کو آگے بڑھنے سے 18دنوں تک روکے رکھا۔ جہاں تک کارگل جنگ کا تعلق ہے یہ ایک خفیہ جنگ تھی جس کی کوئی سپلائی لائن ہی نہ تھی اور نہ کوئی مدد پہنچ سکتی تھی نہ پہنچائی گئی نہ بھاری ہتھیار تھے پھر بھی ان لوگوں نے بھارتی فوج کے چھکے چھڑا دئیے ۔ بھارتی جنرل جی ڈی بخشی نے بتایا کہ ’’ میں جب وہاں بٹالیں کی کمانڈ کے لئے گیا تو میری پلٹن کا برا حال تھا۔ کافی اموات ہو چکی تھیں اور بھارت کے سولجرز ڈر سے لیٹرین تک نہیں جاتے تھے‘‘ ایک چھوٹی سی پارٹی اس سے زیادہ بھلا کیا کر سکتی تھی؟ حالات تب تبدیل ہوئے جب بھارتی ائیر فورس کی بے تحاشا بمبنگ شروع ہوئی اور بعد میں بو فور گنز لائی گئیں۔ہم ان ہتھیاروں کا جواب نہ دے سکے۔ہم یہ ہتھیار وہاں نہ تو لے جا سکتے تھے اور نہ ہی لے گئے۔ہماری اپنی غلط منصوبہ بندی کی وجہ سے نتیجہ ہمارے خلاف نکلا۔