جمعۃ المبارک ‘ 7 ؍ صفرالمظفر 1442ھ‘ 25؍ ستمبر 2020ء
قومی سلامتی کی بریفنگ پر تعاون کرتے رہیں گے۔ شیخ رشید کی موجودگی میں نہیں جائوں گا: بلاول
آہستہ آہستہ بلاول میں سیاسی پختگی آ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ رشید کی بچگانہ سیاست پر انہوں نے خفگی کا اظہار کیا ہے۔ یہ وہی شیخ جی ہیں جو بلاول کو بچہ ہونے کا طعنہ دیتے تھے۔ قومی سلامتی کے اجلاس کے حوالے سے اب کی بار شیخ رشید نے جو منہ کھولا تو عجب بولا۔ اندرونی باتیں اور شرکاء کے حوالے سے ان کی بیان بازی ایک شرارت محسوس ہوتی ہے۔ معلوم نہیں یہ ان کی اپنی شرارت ہے یا کسی کے کہنے پر انہوں نے یہ شرارتی کام کیا ہے۔ بلاول نے اسی تناظر میں کہا ہے کہ شیخ رشید جن کے ترجمان بنے پھرتے ہیں وہ خود ان کا منہ بند کرائیں۔ اب تک مقتدر قوتوں اور سیاست دانوں کے درمیان خاص طور پر قومی سلامتی کے حوالے سے جو اجلاس ہوتے ہیں۔ ان کی بھنک بھی کسی کے کان میں نہیں پڑتی۔ شیخ جی کا کیا۔ کل کلاں کو وہ کسی سیاسی میلے کو لوٹنے کے لئے جلسہ گرمانے کے لئے مزید منہ کھولیں اور مزید اندرونی کہانیاں بیان کر کے دشمنوں کو بھی خوش کر دیں۔ بعد میں بے شک وہ
بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
بڑا ناسمجھ ہوں سزا چاہتا ہوں
کہہ کر معذرت بھی کرتے پھریں تو کیا اس غلطی کا ازالہ ہو سکے گا۔ وہ خفیہ معاملات کو بھی خفیہ رکھنے کی بجائے اپنا سیاسی قد کاٹھ بڑھانے کے چکر میں رہتے ہیں۔
٭٭٭٭
وزیر اعلیٰ پنجاب نے ناقص صفائی پر لاہور سالڈویسٹ کمپنی کے ایم ڈی کو ہٹا دیا
ہم کہہ سکتے ہیں کہ لاہور کا گندہ چہرہ بالاخر وزیراعلیٰ کو بھی نظر آ ہی گیا۔ بے شک لاہور بے مثال صفائی کا حامل کبھی نہیں رہا مگر شریف برادران کے دور میں اسے صاف رکھنے کی کامیاب کوشش کی گئی۔ ڈیڑھ کروڑ کی آبادی والا یہ شہر کراچی کی طرح بے ہنگم پھیل رہا ہے۔ قبضہ گروپ والے دھڑا دھڑ ہائوسنگ سکیمیں بنا رہے ہیں۔جس نے اس شہر کا نقشہ بگاڑ دیا ہے۔ کچی آبادیاں برساتی کھمبیوں کی طرح جا بجا اُگ رہی ہیں۔ جہاں نہ نکاسی آب کا انتظام ہے نہ صفائی کا جس کی وجہ سے ہر طرف گندگی بکھری رہتی ہے۔ مگر یہ جو شہر میں ہر چوک پر یا سڑک کے کنارے گندگی جس طرح عملہ صفائی کی کارکردگی کا پول کھول رہی ہوتی ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ لوگوں کا احتجاج بھی رائیگاں جاتا ہے۔ کوئی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں۔ عملہ صفائی صرف موبائل فون پر جھاڑو سنبھال کر ویڈیو بنا کر گھر چلا جاتا ہے۔ نالے اور نالیاں، کچرے سے اٹی ہوتی ہیں کوئی ہاتھ نہیں لگاتا۔ نالیوں اور گٹروں کا پانی سڑکوں اور گلیوں میں مچھروں کو مکھیوں کو دعوت افزائش نسل دیتا نظر آتا ہے۔ سالڈ ویسٹ کمپنی کا کام شہر کو صاف رکھنا ہے مگر یہی کام اس سے نہیں ہو رہا جس کے بعد ’’نزلہ برعضو ضعیف ‘‘ کے برعکس اس بار وزیراعلیٰ نے موٹی گردن پر ہاتھ ڈالا اور سربراہ کو ہی ہٹا دیا ، اس سے اگر چھوٹا عملہ ڈر جائے اور عبرت پکڑ لے تو شہر صاف ہو سکتا ہے۔
اکاڑہ میں پولیو ٹیم پر خواتین کا حملہ ویکسین چھین لی
بڑے افسوس کی بات ہے کہ ایک طرف ہمارے ملک میں پولیو کیسوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں ہم پر لمحہ بہ لمحہ بین الاقوامی سطح پر سفری پابندیاں لگنے کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔ دوسری طرف یہ حالت ہے کہ اپنی جانوں پر کھیل کر ہمارے بچوں کو دور دراز، دشوار گزار علاقوں میں پولیو سے بچانے کی ویکسین پلانے والے ورکروں کے کام میں رکاوٹ ڈالی جا رہی ہے۔ کہیں انہیں قتل کیا جا رہا ہے، کہیں مار پیٹ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جو کچھ اوکاڑہ میں ہوا اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ ان خواتین کیخلاف قانون کے مطابق ایکشن لینا چاہئے جنہوں نے پولیو ورکر پر حملہ کر کے ان سے صرف ویکسین ہی نہیں چھینی بلکہ ان کی جوتوں سے پٹائی بھی کی۔ یہ پولیو ورکرز کوئی بھکاری یا چور نہیں ہیں کہ ان کی بے عزتی کی جائے۔ انہیں جوتے مارنے والوں کو سوچنا چاہئے کہ اگر یہ پولیو کے قطرے نہ پلائیں تو پولیو کی وجہ سے انہی لوگوں کے پائوں جوتے پہننے سے بھی محروم ہو جائیں گے۔ ساری زندگی یہ لوگ زمین پر گھسٹ گھسٹ کر چلتے نظر آئیں گے۔ حیرت کی بات تو یہ بھی ہے کہ حکومت کی طرف سے ہروقت ٹی وی ، ریڈیو اور اخبارات میں ان ٹیموں کی حفاظت کے لئے پولیس کی فراہمی کا ڈھول بجایا جاتا ہے مگر لگتا ہے یہ صرف پراپیگنڈہ ہے۔ اگر پولیس ساتھ ہوتی تو عورتیں کیا کسی مرد کی بھی جرأت نہ ہوتی کہ وہ پولیو ورکروں کو ہاتھ لگاتے۔ اب اگر ہمیں ملک کو پولیو فری بنانا ہے تو ہمیں بہرصورت ہر بچے کو قطرے پلانا ہوں گے چاہے اس کے لئے فوج کو ہی کیوں نہ بھیجنا پڑے۔
٭٭٭٭
’’مینوں معاف کر دیو‘‘ سی سی پی او لاہور نے استحقاق کمیٹی کے سامنے ہاتھ جوڑ دئیے
یہ خبر پڑھ کر ایک شعر یاد آ رہا ہے ، جس میں اس واقعہ کی منظر کشی کی جھلک نظر آتی ہے شعر کچھ یوں ہے ۔
اچھا کہو یا برا کہو ہم کو ہے قبول
ہم سے بھول ہو گئی ہم کا معاف دیدو
یہی کچھ سی سی پی او لاہور کو یاد دلایا گیا جب وہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے۔ پے درپے سوالات کے سامنے ان کے ہوش بجا نہیں رہے جس طرح پولیس والوں کے سامنے عام آدمی کے حواس بجا نہیں رہتے انہوں نے تسلیم کیاکہ جس کیس کا تذکرہ ہو رہا ہے انہوں نے ابھی تک اس کی ایف آر سی نہیں پڑھی۔ جب ایسے چبھتے سوال جواب ہوں تو ہاتھ جوڑنے کے سوا اور رہ ہی کیا جاتا ہے۔ مگر استحقاق کمیٹی والے بھی پتھر دل نکلے اور معافیوں سے بھری بوریاں دیکھ کر بھی ان کا دل نرم نہیںہوا۔ چلیں جو ہوا اب معافی تلافی کے بعد معاملہ ٹھنڈا ہونا چاہئے۔ ویسے بھی موسم بہت گرم ہے۔ اوپر سے اعلیٰ پولیس افسران کے تبادلوں کی نان سٹاپ ریل چل رہی ہے۔ ایک آتا ہے دوسرا جاتا ہے۔ تقرر جن کا ہوتا ہے وہ بھی سامان کھولنے سے گھبراتے ہیں کہ نجانے کب تبادلے کے جھکڑ کی زد میں آ کر مثل برگ آوارہ وہ کہیں سے کہیں پہنچ جائیں۔اب ایسے گھبرائے ہوئے پریشان افسروں سے اچھی کارکردگی کی توقع بھی تو فضول ہی ہے۔
٭٭٭٭٭