یکسوئی ناگزیر،پاک فوج کو سیاست میں گھسیٹنا قطعی معقولیت نہیں
ایل او سی پر بھارتی شر انگیزی بدستورجاری،فائرنگ سے دو جوان شہید،پاکستان کا منہ توڑ جواب
لائن آف کنٹرول کے دیوا سیکٹر میں بھارتی فوج کی فائرنگ سے پاک فوج کے دو جوان جام شہادت نوش کر گئے۔ پاک فوج نے بھارتی جارحیت کا بھرپور جواب دیتے ہوئے دشمن کی چوکیاں تباہ کر دیں اور اسے بھاری جانی و مالی نقصان پہنچایا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق بھارتی فوج کی طرف سے لائن آف کنٹرول کے دیوا سیکٹر میں جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی۔ فائرنگ کے تبادلے میں 29 سالہ سپاہی نور الحسن اور 25 سالہ وسیم علی نے جام شہادت نوش کیا۔ پاک فوج نے بھارتی جارحیت کا موثر جواب دیتے ہوئے دشمن کی ان چیک پوسٹوں کو نشانہ بناتے ہوئے انہیں تباہ کر دیا جہاں سے فائر آ رہا تھا۔
بھارت کو جب بھی اندرونی خلفشار درپیش ہوتا ہے جس پر عالمی برادری کی جانب سے تحفظات و تفتیش کا امکان ہو‘ بھارت ان معاملات سے توجہ ہٹانے کیلئے ممبئی‘ پٹھانکوٹ‘ اڑی اور پلوامہ جیسی ڈرامہ بازیوں سمیت بہت کچھ کرتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں مظالم و بربریت کو دنیا سے روپوش رکھنے کیلئے بھی وہ ہر قسم کے حربے اور ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے۔ وادی میں سخت ترین پابندیوں کے حامل کرفیو کو چودہ ماہ ہونے کو ہیں‘ وہاں انسانی المیہ بدترین صورت اختیار کرچکا ہے۔ مودی سرکار کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں باہر سے انسانی حقوق کی غیرجانبدار تنظیموں‘ میڈیا اور پارلیمنٹیرین سمیت کسی کی بھی رسائی ناممکن بنا دی گئی ہے۔ اندرونی سطح پر ذرائع ابلاغِ؛ ریگولر اور سوشل میڈیا پابندیوں کی زد میں ہیں۔ نو لاکھ سے زائد بھارتی افواج کشمیریوں کیخلاف جبر کا ہر ضابطہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ تمام تر حکومتی پابندیوں کے باوجود کسی حد تک بربریت کی خبریں وادی سے باہر آجاتی ہیں۔ وہ شاید وہاں روارکھے جانے والے مظالم کا دوچار فیصد ہی ہونگے۔ یہ بھی دل دہلا دیتے اور روح تک کو تڑپا دیتے ہیں جس پر عالمی ردعمل آنا فطری امر ہے۔ گو یہ ردعمل زبانی کلامی ہوتا ہے مگر بھارت پر کسی حد تک دبائو تو آتا ہے۔ بھارت ایسے دبائو سے بچنے کیلئے پاکستان کے اندر دہشتگردی کراکے دنیا کی توجہ اس طرف مبذول کرانے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ لائن آف کنٹرول پر شرانگیزی کرکے بھی ایسے ہی مذموم مقاصد حاصل کرنے کیلئے سرگرداں رہا ہے۔ اس کا رویہ چور مچائے شور جیسا ہے۔ ایل او سی اور ورکنگ بائونڈری پر شرانگیز کارروائیوں کے بعد پاکستان پر الزامات لگانے کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے۔ اس کا میڈیا جھوٹ بولنے‘ لغو پراپیگنڈا کرنے میں اپنی حکومت سے بھی دوچار ہاتھ آگے رہتا ہے۔
لائن آف کنٹرول پر بھارت کی شرانگیز کارروائیوں میں پاک فوج کے سپوتوں کے ساتھ عام شہریوں کو نشانہ بنانا بھی پاکستان کے ازلی و ابدی دشمن کی فطرت کا حصہ ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ پر گولہ باری کی جاتی ہے‘ گھروں اور کھیتوں میں کام کرنیوالوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے جس سے بے گناہ افراد بچوں عورتوں سمیت شہید اور بڑی تعداد میں زخمی ہو جاتے ہیں۔ گھروں ، بچوں اور خواتین کو جنگ کے دنوں میں دانستہ نقصان پہنچانا جنگی جرائم میں شامل ہے۔ ایسے جرائم پر دوسری جنگ عظیم میں جرنیلوں اور اعلیٰ افسروں کو پھانسی تک کی سزائیں دی گئی تھیں۔ مودی سرکار کیخلاف بھی جنگی جرائم کے حوالے سے عالمی عدالت انصاف میں معاملہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ایل او سی پر ایسی کارروائیاں انتہا کو پہنچ چکی ہیں اور یہی عالمی عدالت سے رجوع کرنے کا مناسب موقع ہے۔
دشمن کی طرف سے کس تعداد میں ایل او سی کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔ اس اندازہ ان اعداد و شمار سے لگایا جا سکتا ہے جن کے مطابق رواں سال 2020ء میں 9 ماہ کے دوران دو ہزار تین سو 33 بار جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی۔ بھارت کی جانب سے جب بھی ایل او سی پر شرارت کی گئی اس کا منہ توڑ جواب دیا گیا اور ہر بار ایسا ہی جواب دیا گیا جیسا 27 فروری 2019ء کو دو جہاز گرا کر اسکے گھمنڈ اور تکبر کو خاک میں ملا دیا گیا تھا۔ پاکستان پر ہونیوالی یلغار کا بھرپور وار کی صورت میں جواب پاک فوج ہمہ وقت تیاری کے باعث ہی دے پاتی تھی اور ایسا ہر موقع پر کیا گیا ہے۔ بھارت ایسے مکار اور مکروہ عزائم رکھنے والے دشمن کے مقابلے کیلئے پاک فوج اور متعلقہ اداروں کو ہمہ وقت چوکس اور یکسو ہونا ہوتا ہے۔ بھارت فوج کی تعداد‘ اسلحہ و بارود کی مقدار میں پاکستان کے مقابلے میں چھ سات گنا زیادہ ہے۔ اس کا دفاعی بجٹ پاکستان کے کل بجٹ کے برابر ہے۔ ایسے دشمن کے اگر پاک فوج نے دانت کھٹے کئے ہیں تو اپنی مہارت‘ اسلحہ کے معیار اور قوم کے شانہ بشانہ ہونے کے باعث ہی کئے ہیں۔ قوم کا متزلزل اعتماد اور بھرپور ساتھ فوج کے ساتھ ہو تو اسے شکست دینا ناممکن ہے۔ پاک فوج کو جن چیلنجز کا سامنا ہے‘ وہ اسکی پوری توجہ بارڈر پر مبذول رکھنے کے متقاضی ہیں مگر پاک فوج کو دہشت گردی کیخلاف جنگ کیلئے بھی بروئے کار آنا پڑتا ہے۔ سیلاب‘ کرونا‘ ٹڈی دل اور اور کسی بھی ایمرجنسی میں فوج کو طلب کرلیا جاتا ہے اور پاک فوج نے اس حوالے سے بھی قوم کو کبھی مایوس نہیں کیا۔ پاک فوج کا مورال ہائی رکھنے کی ضرورت ہے مگر کچھ لوگ پاک فوج کو سیاست میں گھسیٹ کر اپنے مفادات کی بجاآوری کرتے نظر آرہے ہیں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی طرف سے سیاست دانوں سے ملاقاتوں اور موقع بہ موقع بیانات میں یقین دلایا گیاہے کہ پاک فوج سیاسی معاملات سے قطعی لاتعلق ہے۔ سیاست دانوں کو قوم کا حصہ ہی نہیں ہراول دستہ بن کر معروضی حالات میں پاک فوج کا حوصلہ بڑھانا چاہیے۔