مقامی حکومتوں کیلئے سپریم کورٹ کی رولنگ
سپریم کورٹ نے باور کرایا ہے کہ مقامی حکومتوں کا ہونا کسی کی چوائس نہیں بلکہ لازم ہے۔ اس پر شہریوں کے مفاد کو دیکھ کر قانون سازی ہونی چاہئے۔ بلدیاتی اداروں کو اختیارات کی منتقلی کے کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس گلزار احمد نے قرار دیا کہ بلدیاتی اختیارات وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو دینا غیر آئینی ہے۔ حکمران اقتدار میں ہوتے ہیں تو اختیارات منتقل نہیں کرتے ، یہ سارا کھیل طاقت کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ بلدیاتی ادارے ہی جمہوریت کی بنیاد ہیں مگر جمہوریت کے نام لیوا سیاستدان اقتدار میں آتے ہیں تو اسی بنیادکو ہلانے کے درپے ہو جاتے ہیں کیونکہ ان کی بلدیاتی اداروں کے فنڈز پر نظریں ہوتی ہیں جنہیں وہ اپنی دسترس میں رکھنا چاہتے ہیں۔ اس معاملہ پر حکومت چاہے جس بھی جماعت کی ہو وہ بلدیاتی نظام کو پنپنا نہیں دیکھنا چاہتی۔ پنجاب کے بلدیاتی ادارے نگران دور حکومت میں معطل ہوئے اور اب پی ٹی آئی کے اقتدار کو دو سال سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے مگر بلدیاتی اداروں کی بحالی کی آج بھی سازگار فضا پیدا ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ اسی طرح سندھ میں بلدیاتی ادارے تحلیل ہوئے ہیں تو وہاں پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نئے بلدیاتی انتخابات کے انعقادمیں حیلے بہانے سے رکاوٹیں پیدا کر رہی ہے۔ اس سے ہماری سیاسی جمہوری پارٹیوں کے اندر جمہوری رویوں کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے جبکہ عوام کے روزمرہ کے مسائل کے حل کے اولین فورم بلدیاتی ادارے ہی ہیں، اگرکوئی حکومت بلدیاتی نظام کے استحکام میں مخلص نہیںتو وہ درحقیقت جمہوریت کا استحکام نہیں چاہتی، اس لئے جیسے بھی ہو‘ ملک کے چاروں صوبوں میں بلدیاتی انتخابات کا جلد از جلد انعقاد ممکن بنایاجائے تاکہ عوام کو اپنے علاقائی مسائل کے حل کیلئے در در کے دھکے نہ کھانے پڑیں۔