ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے ہم خواجہ سعد رفیق کی بہت قدر کرتے ہیں۔ انہی صفحات پر کئی مرتبہ ان کی سیاسی زندگی پر لکھا گیا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ باقاعدہ طور پر ایک سیاسی کارکن ہیں۔ مرحلہ وار ترقی کرتے کرتے نظام میں رہتے ہوئے اور نظام کو سمجھتے ہوئے وفاق تک پہنچے۔ اس عمل کے دوران انہوں نے صرف کام کرنا ہی نہیں سیکھا بلکہ نظام کو سمجھا ہے۔ اس عمل سے کسی بھی سیاسی کارکن کی سوچ میں پختگی آتی ہے۔ اسے عوامی مسائل کا اندازہ ہوتا ہے۔ نچلی سطح کے سیاسی عمل سے گذر کر ملکی سیاست میں قدم رکھنے والوں کو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی سیٹیں اور انتخاب کارکردگی اور عوامی خدمت سے مشروط ہے۔ انہیں اپنے کارکنوں سے جڑے رہنا پڑتا ہے اور اس مشق میں اپنے ووٹرز سے رابطے میں رہنا اور ملتے رہنا انکے معمول کا حصہ بن جاتا ہے۔ ملک کے سیاسی کلچر میں یہی سب سے بڑی خامی ہے۔ یہاں براہ راست صوبائی وزیر، وفاقی وزیر، وزیر اعلیٰ یا وزیراعظم بننے والوں کو پارلیمانی روایات کا علم ہی نہیں ہوتا نہ وہ اس نظام کے تقاضوں سے واقف ہوتے ہیں جیسا کہ ہماری سیاسی جماعتوں میں یہ معمول کی بات ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کم سے کم وزیراعظم پاکستان کے عہدے پر جائیں گے۔ مریم نواز شریف بھی خود کو مستقبل کا وزیراعظم سمجھتی ہیں۔ ان حالات میں جمہوریت کہ روح تو دفن ہو جاتی ہے۔ جمہوریت تو آپکو بلدیاتی نظام کی طرف لاتی ہے پہلے کونسلر بناتی ہے پھر ناظم بنتے بنتے ضلعے سے صوبے میں آتے ہیں۔ اس بنیاد پر ہم خواجہ سعد رفیق کو پاکستان کا حقیقی سیاسی کارکن سمجھتے ہیں وہ اکثر اس سیاسی تربیت کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔ پارٹی قیادت سے اختلاف اداروں کے ساتھ پر اعتماد انداز میں بات چیت اور سیاسی جماعتوں کے مابین ہر گفتگو جاری رکھنے پر زور دیتے ہیں۔ یہ ساری باتیں کوئی حقیقی سیاسی کارکن ہی کر سکتا ہے۔ ان دنوں بھی جب ایک طرح سے سیاسی آگ لگی ہوئی ہے خواجہ سعد رفیق نے اس آگ کو بجھانے کی کوشش کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی معاملات سلجھانا چاہتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسے این آر او کے طعنے دئیے جائیں۔ ملک کا سیاسی ماحول کشیدہ ہے لیکن صورتحال کو پوائنٹ آف نو ریٹرن تک نہیں پہنچنا چاہیے۔ یہ خواجہ سعد رفیق کی خواہش ہے خوش آئند بات یہ ہے کہ انہوں نے پہل تو کی ہے اس پر ان کی قیادت کو ضرور سوچنا چاہیے بلکہ اب تو عمل کرنے کا وقت ہے۔ عمل کی ضرورت ہے۔ طعنے بالکل نہیں ملنے چاہئیں لیکن یہ بات بھی دیکھی جانی چاہیے کہ کہیں سیاسی جماعتیں، ان کی قیادت سیاسی عمل کو پارلیمنٹ کو ذاتی مفادات کے لیے استعمال تو نہیں کر رہی اگر سیاسی جماعتوں کی قیادت قانون سازی یا دیگر معاملات کی آڑ میں ذاتی مفادات حاصل کرنے چاہے تو این آر او نہیں کہا جائے گا تو کچھ اور کہا جائے گا۔ البتہ دونوں طرف سے غیر ضروری بیان بازی بہرحال نہیں ہونی چاہیے۔ بالخصوص گالم گلوچ برگیڈ کو قابو میں رکھنا ضروری ہے۔ جب ہر طرف غصہ پھیلا ہو، نفرت کے جذبات ہوں تو معتدل افراد کو ہی میدان میں اترنا چاہیے۔
ملک کے سیاسی ماحول میں تناؤ ہے۔ میاں نواز شریف کی آل پارٹیز کانفرنس میں غدار الطاف حسین جیسی تقریر کے بعد ماحول گرم ہے اور اس ماحول میں نقصان صرف ملک اور غریب عوام کا ہو گا کیونکہ رکنا تو کاروبار ہمیشہ چولہا تو غریب کا ٹھنڈا ہونا ہے۔ نہ بابو کو فرق پڑے گا نہ مالک کی زندگی میں کوئی رکاوٹ آئے گی۔ میاں نواز شریف لندن کے ٹھنڈے موسم میں کسی کافی شاپ میں بیٹھے زندگی کے مزے کر رہے ہونگے اور اپنے بیرونی دوستوں کی طرف سے کسی اشارے کے منتظر ہوں گے۔ میاں نواز شریف کی ضد اور جھوٹی انا تو مشہور تھی ان کی صاحبزادی مریم نواز ان سے بھی دو قدم آگے ہے۔ وہ میاں نواز شریف کو اس راستے پر لے گئی ہے جہاں سے واپسی مشکل ہو چکی ہے۔ میاں نواز شریف کی تقریر کے بعد جس انداز میں مریم نے افواج پاکستان کے کردار کو سیاست میں ملوث کیا وہ ان کی سیاسی کم علمی اور انا اور غرور کا نتیجہ ہے۔ ایک طرف ان کی جماعت کے اہم اراکین افواج پاکستان کے اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کر رہے ہیں تو دوسری طرف مریم بی بی عوام کو کچھ اور ہی کہانی سنا رہی ہیں۔ سیاسی اور عسکری قیادت میں ملاقاتیں معمول کا حصہ ہیں اگر یہ کم ہوتی ہیں تو زیادہ ہونی چاہئیں کیونکہ سیاسی و عسکری قیادت کا اوّلین مقصد ملک و قوم کی بہتری اور ترقی ہے۔ اس لیے ان ملاقاتوں کو بھی منفی رنگ دینا مناسب نہیں ہے۔ دنیا بھر میں سیاسی قیادت فوج سے ملتی ہے اور دونوں مل کر ملکوں کو درپیش مسائل کا حل نکالتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں اسے شجر ممنوعہ قرار دینے کے کوشش کی جاتی ہے اور یہ کوشش بھی صرف اس وقت کی جاتی ہے جب کوئی سیاسی جماعت اقتدار سے باہر ہوتی ہے یا اسے اندرون ملک دیگر مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ یہی کچھ مریم نواز شریف نے کیا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کی اعلی قیادت اگر چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ یا دیگر حکام سے ملی ہے تو اس میں کیا برائی ہے۔ نیت نیک ہونی چاہیے، مقصد ملک کی ترقی و بہتری ہونا چاہیے اس مقصد کے لیے ہی ہم سب یہاں موجود ہے۔ اسی مقصد کے لیے سرحدوں پر فوجی جوان اور اندرون ملک قانون نافذ کرنے والے ادارے قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔ اب اگر میاں نواز شریف یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ملک میں لوٹ مار بھی کرتے رہیں، حکومت بھی ہمیشہ ان کی رہے، ملک قرضوں میں ڈوبتا رہے اور میاں نواز شریف یا ان کے خاندان کو ہاتھ بھی نہ لگایا جائے۔ ملک اور مسلم لیگ کو اپنی جاگیر سمجھنا شروع کریں۔ قومی سلامتی کے منافی اقدامات کریں اور پھر بضد رہیں کہ ہر صورت ایوان وزیراعظم پر قبضہ رکھنا ہے یا پھر جمہوریت صرف وہی ہے جس میں وزیراعظم میاں نواز شریف ہوں تو یہ ممکن نہیں ہے۔ جن لوگوں نے میاں نواز شریف کو ووٹ ڈالا تھا انہی لوگوں نے عمران خان کو ووٹ ڈال ایوان وزیراعظم بھجوا دیا ہے تو اب میاں نواز شریف اور ان کی غصیلی صاحبزادی کو انتظار کرنا چاہیے۔ ان کے خلاف جو مقدمات قائم ہیں ان کا مقابلہ کریں۔ انصاف کا شعبہ موجود ہے اس میں اپنی بیگناہی ثابت کریں۔ عدالتوں کا سامنا کریں۔ ہر وقت ملکی ترقی میں روڑے اٹکانا کہاں کی جمہوریت ہے۔ مسلم لیگ ن ہی نہیں پاکستان پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت بھی عسکری قیادت سے ملاقاتیں کرتی رہتی ہے۔ یہ ایک صحت مند مشق ہے اسے جاری رہنا چاہیے۔ اس میں تسلسل آنا چاہیے اس کے ذریعے باہمی اعتماد کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ عوامی مسائل حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ خواجہ سعد رفیق کہتے ہیں کہ ہمسایوں سے تعلقات اچھے نہیں۔ ملک معاشی مشکلات کا شکار ہے۔ سب نے سوچنا تھا کہ ان مسائل کا حل کس طرح نکالا جائے۔ ہمسایوں سے خراب تعلقات کون ٹھیک کرے گا اگر ہمسایہ مسلسل ہماری سرحدوں پر حملے کرے تو کیا اس کا جواب سیاسی قیادت نے دینا ہے یقیناً نہیں اس کا جواب افواج پاکستان نے دینا ہے۔ سیاست دانوں نے سفارتی سطح پر کردار ادا کرنا ہے سب نے مل کر ملک کو مسائل سے نکالنا ہے۔ اس میں کیا برائی ہے۔ میاں نواز شریف یا ان کی صاحبزادی کے لیے یا ان کے اردگرد چند شرپسند اور آگ لگانے والوں کو کیا مسئلہ ہے اگر ملک میں سیاسی و عسکری قیادت ایک صفحے پر رہتی ہے اتفاق رائے سے آگے بڑھتی ہے۔ یہ تو پاکستان کے دشمن کی خواہش ہی ہو سکتی ہے کہ ملک میں سیاسی و عسکری قیادت میں اتفاق رائے نہ ہو وہ آمنے سامنے رہیں۔ سیاسی جماعتوں کو آئینی و قانونی راستے میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔ حکومت کے لیے بھی ضروری ہے کہ اگر وہ کسی بھی سطح پر اثرانداز ہو رہی ہے تو وہ پیچھے ہٹے اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے ترجمانوں، وزیران کرام اور مشیران کے بیانات پر بھی پابندی لگائے۔ یہ شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار بننے کے چکر میں پورے ملک کے سیاسی ماحول میں گرمی سے سب کا نقصان ہو گا۔
اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ اس ملک کو لوٹا گیا ہے جن لوگوں نے لوٹا ہے یا جنہوں نے لوٹنے والوں کے لیے سہولت پیدا کی ہے یا جنہوں نے راستے سیدھے کیے ہیں انہیں تلاش تو کیا جانا چاہیے اور انہیں کٹہرے میں ہونا چاہیے تاکہ قوم یہ تو جان سکے کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے اگر ہم ملکی خزانے کو نقصان پہنچانے والوں کی نشاندہی نہ کریں انہیں انجام تک پہنچائیں ان کا راستہ نہ روکیں تو ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ کوئی بھی حکومت ہو سب کا مقصد ملک و قوم کی بہتری کے لیے کام کرنا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے سربراہان کی آرمی چیف سے ملاقاتوں کی خبروں کو منفی نہیں بلکہ مثبت انداز میں لینا چاہیے۔ دراصل ہمیں دوغلی اور دورخی پالیسی کو چھوڑ کر سچ کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ سیاست دان ایک طرف آرمی چیف سے ملتے ہیں عوام کے سامنے مختلف بات کرتے ہیں اس طرز عمل سے سیاسی کشیدگی اور نفرت میں اضافہ ہوتا ہے۔ سیاست دان خود بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ عسکری قیادت سے ملے ہیں۔ جمہوریت صرف حکومت میں رہنے کا نام ہی تو نہیں۔ سیاست ملکی خدمت کے لیے کرنی چاہیے۔ خواجہ سعد رفیق کے خیالات کو سیاسی جماعتیں اصولی موقف کی طرح اپنائیں، تحمل مزاجی کا مظاہرہ کریں اور ملک و قوم کو درپیش مسائل سے نکالنے کے لیے اتفاق رائے پیدا کریں۔ پاکستان مسلم لیگ کی قیادت آگے بڑھے، ن اور ش کے چکروں سے نکلے، مقدمات کا قانون کے مطابق سامنا کرے۔ سیاست میں اپنا کردار ادا کرے۔
مجبور وفاقی حکومت نے چورانوے دواؤں کی قیمتوں میں نو سے دو سو باسٹھ فیصد تک اضافے کی منظوری دے دی۔ جن ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے ان میں بخار، سردرد، امراض قلب، ملیریا، شوگر، گلے میں خراش، فلو، اینٹی بائیوٹکس، پیٹ درد، آنکھ،کان، دانت، منہ، اور بلڈ انفیکشن شامل ہیں۔ اس اضافے پر ڈاکٹر فیصل سلطان نے نہایت شاندار بیان جاری کیا ہے اتنا دکھ اور تکلیف ادویات کے مہنگے ہونے سے نہیں ہوا جتنا دکھ اور تکلیف ان کے اس غیر ذمہ دارانہ بیان سے ہوا ہے۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت فرماتے ہیں کہ قیمتوں میں اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے دواؤں کی قلت پیدا ہوتی ہیں اور پھر یہ بلیک ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ ادویات کی قلت کو ختم کرنے کے لیے اضافے کی ضرورت تھی۔ ڈاکٹر فیصل سلطان کہتے ہیں کہ اضافہ اتنا کیا گیا ہے کہ پہنچ میں رہیں۔
ڈاکٹر فیصل سلطان عام آدمی کے مسائل اور اس کی آمدن سے یقیناً واقف نہیں ہیں اگر انہیں اندازہ ہوتا تو وہ کبھی ایسے غیر ذمہ دارانہ بیانات جاری نہ کرتے۔ جو بیمار ہو گا وہ خود خریدے، کسی کی منت کرے، کسی سے ادھار لے وہ تو ہر صورت میں دوا کو پہنچ میں لے آئے گا۔ حکومت کی ذمہ داری یہ نہیں ہوتی کہ وہ ادویات کی قلت کو ختم کرنے کے لیے قیمتوں میں اضافہ کر دے بلکہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اشیاء ضروریہ کی مناسب قیمتوں اور بلاتعطل فراہمی کو یقینی بنائے۔ معاون خصوصی یقیناً یہ نہیں جانتے کہ ملک میں مہنگائی کا جن بیقابو ہے، قوت خرید میں خطرناک حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ بیروزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ ان حالات میں ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی کوئی دلیل قابل قبول نہیں ہے۔ مہنگائی کے جن کو قابو کرنے کے بجائے حکومت یہ کہہ رہی ہے کہ ادویات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔ آج اگر اشیائخوردونوش عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں تو اس کی بنیادی وجہ وزیروں اور مشیروں کی یہ سوچ ہے۔ مہنگائی کو کم کرنے اور عام آدمی کی زندگی میں آسانی پیدا کرنے کے لیے حکومت کو اپنی سوچ اور پالیسیوں کو بدلنا ہو گا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024