میںنے آرمی چیف کے دورہ چین کی خبر ٹی وی چینلز سے سنی اور وہیں سے مجھے معلوم ہوا کہ انہوںنے چینی صدر سے ون آن ون ملاقات کی ہے اور یہ بھی ٹی وی چینلز ہی سے پتہ چلا کہ چینی صدر نے پاک چین تعلقات کو آہنی قرار دیا ہے۔
میرے لئے اس میں حیرت کی بات یہ تھی کہ ملکی یا غیر ملکی میڈیا پر کسی نے یہ اعتراض نہیں اٹھایا کہ چینی صدر نے ایک آرمی چیف سے کیوں ملاقات کی۔ پروٹوکول کے لحاظ سے انہیں تو کسی صدر مملکت یا چیف ایگزیکٹو ہی سے ملاقات کرنا چاہئے تھی۔ مگر یہ بحث چین کے لئے غیر اہم اور غیر ضروری ہے ، صرف ہمارے ہاں ہی یہ بحث ہو سکتی ہے کہ فلاں ملک کے مہمان نے جی ایچ کیو میں آرمی چیف سے کیوں ملاقات کی۔ ہمارے ہاں وزیر اعظم کو مرکزی حیثیت دینے کارواج ہے مگر دنیا ایسا نہیں سمجھتی ، وہ ہر اس شخص سے ملتی ہے جس کے ساتھ بات کرنے سے ان کا مقصد پورا ہو سکتا ہو۔
چین نے یہ بھی کہا کہ وہ پاک فوج کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا معترف ہے اور دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی مسلح افواج نے جو کامیاب جنگ لڑی ہے اور اس میں قیمتی جانوں کا نذرانہ دے کر کامیابی بھی حاصل کی ہے، چینی صدر نے اس کی بے حد ستائش کی اور پاک فوج کی قربانیوںکو خراج تحسین پیش کیا۔ چین نے یہ بھی کہا کہ وہ ون بیلٹ ون روڈ کے تحت سی پیک کے منصوبے کی ہر قیمت پر تکمیل کا خواہاں ہے ، ملکی اور غیر ملکی میڈیا نے یہ خبر بھی دی کہ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے چینی صدر اور دیگر سرکاری حکام کو یقین دلایا کہ پاک فوج بھی سی پیک کے روٹ کی حفاظت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ رکھے گی۔
یہ تو وہ داستان ہے جو میڈیا کے ذریعے سامنے آئی مگر کیاا س دورے کے بعد پاک فوج کے ترجمان نے کوئی میڈیا بریفنگ دی، اس سے میں بے خبر ہوں ۔ میرا خیال ہے کہ کوئی بریفنگ نہیں دی۔ جنرل عاصم سلیم باجوہ کے آئی ایس پی ا ٓر سے چلے جانے کے بعد میرا اس ادارے سے کم وبیش رابطہ ٹوٹ گیا، ایک بریگیڈیئر عتیق صاحب سے تبادلہ خیال ہو جایا کرتا تھا، انہیں ایک بار فون کیا تو پتہ چلا کہ وہ تو ریٹائر ہو گئے، ایک بریگیڈیئر احسان تھے، بہت عالم فاضل اور محقق ، انہیں بھی فون کرنے سے پتہ چلا کہ وہ پوسٹ آئوٹ ہوچکے ہیں۔ لے دے کے کرنل شفیق صاحب تھے، ان کا فون بند ملتا ہے ۔لاہور میں بریگیڈیئر شاہد عباس کی ریٹائر منٹ کے بعد نیا انتظام کیا عمل میں آیا ہے،اس سے میں بے خبر ہوں ،اس لئے ا س ادارے سے کسی بات کی وضاحت لینا اب میرے لئے تو ممکن نہیں رہا۔
لاہور پرنٹ میڈیا کا مرکز ہے۔ میں جنرل عاصم باجوہ کو کئی بار لاہور لایا اور انہوںنے ضرب عضب پر خصوصی بریفنگز دیں، شروع ہونے سے پہلے بھی اور بعد میں بھی۔ وہ اخبارات کے دفاتر جا کر چیف ایڈیٹرز سے بھی ملتے رہے۔
اطلاعات کے یہ تمام راستے بند ہونے کے باوجود ایک قلم کار کو ٹامک ٹوئیاں تو مارنا ہی پڑتی ہیں۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں کی سی پیک کے ساتھ چین کس حد تک کومٹڈ ہے اور اسی منصوبے کو اس نے وسعت دے کر ون بیلٹ ون روڈ کا نام دے دیا ہے۔ وہ اس منصوبے سے تین بر اعظموں کو تجارتی روابط میں جوڑنا چاہتا ہے۔ ایشیا، افریقہ اور یورپ کے ساتھ قربت پیدا کرناا س کا بنیادی مقصد ہے ۔ ون بیلٹ ون روڈ میں اس نے سی پیک کے علاوہ کئی متبادل روٹس پر بھی کام شروع کر رکھا ہے۔ اسے کسی ملک سے بیر نہیں۔ وہ ا یران کا راستہ بھی اختیار کرنا چاہتا ہے جو اسے چاہ بہار اور بندر عباس تک رسائی دے گا، وہ بنگلہ دیش اور میانمار کے راستے بھی ٹرین لنک بنا رہا ہے اور کلکتہ کی بندرگاہ تک پہنچنابھی اس کی پلاننگ کا حصہ ہے،وہ ٹرانس یورپ ٹرین کے ذریعے اسپین تک ایک مال گاڑی پہنچا چکا ہے ۔
امریکہ اپنی عادت سے مجبور ہے اور وہ چین کا راستہ روکنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔مگراسے کوئی کامیابی ہو نہیں رہی۔ اس پر سٹپٹا کر اس نے چینی درآمدات پر ٹیکس کی شرح بڑھا دی ہے۔
ہمیں ون بیلٹ اور ون روڈ کے جس حصے سے غرض ہے ،وہ ہے سی پیک کا روٹ جسے شاہراہ ریشم کے ذریعے گوادر تک پہنچنا ہے ۔گوادر ایک گہرے پانی کی بندرگاہ ہے جو چین سے قریب ترین ہے۔ چین کی اس میں خصوصی دلچسپی تو ہونا ہی تھی مگر پاکستان کے لئے بھی اس کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، سی پیک کے روٹ پر صنعتی زون بنیں گے۔ ان میں صنعتیں لگیں گی، روزگار اور آمدنی کے نئے ذرائع پیدا ہوں گے۔ پاکستان کو جدید سہولتوں سے ہمکنار کر نے کے لئے چین نے باسٹھ ارب ڈالر کا ایک پیکیج دیا ہے جس سے ہم میٹرو بسوں ، اورنج ٹرینوں ۔ بجلی گھروں کا ایک جال پھیلا رہے ہیں۔یہ منصوبے پاکستان کے چاروں صوبوں میں مساوی طور پر پھیلے ہوئے ہیں۔ ابتدا میں ہمارے صوبوںنے سی پیک پر اعتراضات کئے کہ اس سے صرف پنجاب کو فائدہ ہو رہا ہے۔ چین نے چاروں وزرائے اعلی کو مدعو کیا ور پوچھا کہ مانگو کیا مانگتے ہو اور جس نے جو مانگا۔ چین نے فراخدلی سے اسے دے دیا۔ اب یہ تو ہماری وفاقی ا ور صوبائی حکومتوں کاکام ہے کہ وہ اس پر دلجمعی اور سرگرمی سے کام کریں،۔ چینی سرمایہ کاری کو کھابہ نہ سمجھیں بلکہ اس کی مدد سے اپنے صوبوں کے عوام کی تقدیر بدل ڈالیں۔
پاک فوج نے سی پیک کی حفاظت کا شروع سے ذمہ قبول کیا ہے اورا س مقصد کے لئے ایک الگ سے سیکورٹی ڈویژن کھڑا کرنے کا عندیہ دیا ہے۔یہ ذمے داری آسان نہیں بلکہ فاٹا کے دہشت گردوں کے خلاف لڑنے سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ حال ہی میں گلگت میں دہشت گردی کے پے در پے واقعات رونما ہوئے۔ اس سے ہمارے کان کھڑے ہوئے کہ دشمن ہماری شہہ رگ تک رسائی حاصل کر چکا ہے، صرف بلوچستان ہی میں کل بھوشن کے نیٹ ورک کے ذریعے عدم استحکام نہیں پیدا کر رہا بلکہ سی پیک کو راستے ہی میں جکڑ دینا چاہتا ہے ۔ میرا خیال ہے یہی خطرات آرمی چیف کے دورہ چین کا باعث بنے ہیں ورنہ وہ کشکول تو لے کر نہیں گئے کہ پاکستان میں ایک نئی حکومت قائم ہوئی جسے خالی خزانہ ورثے میں ملا ہے ،ا س لئے چند بلین ڈالر دان کر دیئے جائیں، کسی ملک کا آرمی چیف یہ کام نہیں کرتا، اسے سیکورٹی سے غرض ہے اور وہ انہی امور کاا حاطہ کرتا ہے۔۔ میرے پا س مصدقہ معلومات تو نہیں مگر مجھے یقین ہے کہ جنرل باجوہ بھی سیکورٹی پیرا ڈائم تک محدود رہے ہوں گے۔ چین کو ایک ہی خدشہ لاحق ہے اور وہ ہے دہشت گردی کا۔ وہ اسے ہر قیمت پر ختم کروانا چاہتا ہے۔ اس نے روہنگیا مسلمانوںپر مظالم کی مذمت نہیں کی، اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ میانمار حکومت نے چین کو یقین دلایا ہے کہ یہ روہنگیا مسلمان دہشت گرد ہیں اور ان کا خاتمہ کئے بغیر چین اپنا ریل لنک قائم نہیں کر سکتا۔ چین نے اورمچی ، کاشغر کے مسلم آبادی و الے شہروں پر بھی کڑی نظررکھی ہوئی ہے اور وہاں سے فرار ہو کر فاٹا میں پناہ گزین ہونے والوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا ہے۔ چین کو تجارت سے غرض ہے اور وہ اس میں کسی رکاوٹ کو برداشت نہیں کر سکتا۔ ہمیں اپنے حصے کا کام بہرصورت کرنا ہو گا۔
پاکستان کی پچھلی چار حکومتوں نے سی پیک پر چین سے مذاکرات کئے ہیں مگر افسوس کی بات ہے کہ ان مذاکرات میں ہر قسم کے منصوبوں پر بات ہوئی ا ور چین نے ان کی بخوشی منظوری بھی دی مگر ہماری کسی حکومت نے نئے آبی ذخائر کے منصوبوں پر چین سے کوئی بات تک نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ بھاشہ اور مہمند کے لئے ہمیں چندہ مانگنا پڑ رہا ہے مگر میٹرو بسوں اور اورنج ٹرینوں کے لئے ہم قرض پہ قرض کا بوجھ برداشت کر رہے ہیں، یہ منصوبے عوام کی سہولیات کے لئے تو ہیں مگر پیداواری منصوبے نہیں ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ پاکستان کی نئی حکومت چین سے آبی ذخائر کی تعمیر کے لئے مدد مانگے، چین کہہ چکا ہے کہ وہ پاکستان کی نئی حکومت کی ترجیحات پر بات چیت کرنے کو تیار ہے ، مگر یہ بات چیت میرا خیال ہے کہ آرمی چیف نے تو نہیں کرنی، ہمارے کسی وزیر کو کرنا ہو گی جو پانی اور بجلی کے محکموں کو چلا رہا ہے۔آرمی چیف کے دورے سے میں اندازہ کر سکتا ہوں کہ بہر حال یہ فائدہ ضرور ہوا ہے کہ انتہائی اعلی سطح پر رابطوں سے فضا سازگار ہو گئی ہے۔ اب ہماری سول حکومت آگے بڑھے اور آبی ذخائر میں سرمایہ کاری کے لئے چین کو آمادہ کرے۔ ورنہ بھاشہ ہی کے لیے بیس ارب درکار ہیں جو چندہ مہم سے برسوں میں جا کر اکٹھے ہو سکیں گے ، کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک۔چیف جسٹس کا نشی ایٹو قابل قدر ہے ۔ انہوں نے قوم کو جگا تو دیا ہے مگر یہ بیداری اس حد تک ہے کہ ہم تھرمل ، کوئلے،سولر اور ونڈ سے بجلی پید اکرنے کے ساتھ ہائیڈل بجلی کی طرف بھی متوجہ ہوئے ہیں ،۔ مسئلہ صرف بجلی کا نہیں ۔زرعی ضرورت کے لئے پانی کا بھی نہیں ،بیس کروڑ عوام کے لئے پینے کے پانی کا ہے جو اب بوتلوں میں فروخت ہو رہا ہے ا ور کل کو خدا نخواستہ کیپسول میں گھونٹ بھر ہی مل سکے گا۔ اللہ اس وقت سے بچائے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024