مذموم بھارتی سیاست
قائداعظم محمد علی جناح جب اپنے رفقاء کار کے ساتھ برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں کیلئے علیحدہ ملک کے قیام کی جدوجہد کررہے تھے توانہیں اس وقت کی انگریز حکومت ہندو بنیئوں کی جماعت نیشنل کانگریس کی بھرپور مخالفت کا سامنا تھا۔ قائداعظم ان سب سے استقامت اور ذہانت کے ہتھیاروں سے لیس نبرد آزما تھے۔ طرفہ تماشا یہ تھا کہ ہندوئوں اور انگریزوں کے علاوہ دو بڑی مسل جماعتوں نے ڈٹ کر قیام پاکستان کی مخالفت کر رہی تھیں اور پنجاب کے مسلمان جاگیر داروں کی سب سے بڑی جماعت یونسٹ پارٹی بھی قیام پاکستان کی کھلے عام مخالف تھی ۔ صحافتی محاذ پر صرف مولانا ظفر علی خانؒ کا اخبار زمیندار اور حمید نظامیؒ کا نوائے وقت قیام پاکستان کا حامی رہا۔ آج 71 برس بیت گئے اور ہر روز کوئی نہ کوئی بھارتی قدم قائد کی بصیرت اور قیام پاکستان کے جواز کو صداقت کی سند عطا کردیتا ہے۔ سات دہائی گزر جانے کے باوجود بھی اس خطے میں ہندو بنیے کی بالادستی کی خواہش اسے بے چین کئے رکھتی ہے اور وہ کبھی مشرقی پاکستان میں سازشیں کرکے کبھی سیاچن میں ریشہ دوانیاں کرکے ، کبھی مظلوم کشمیریوں پر ستم ڈھا کر اور گاہے گاہے مذاکرات کی میز پر بیٹھنے سے انکار کرکے یہ بات ثابت کردیتا ہے کہ بھارت صرف سازشوں بھری جنگ کا خواہاں ہے ، نہ وہ میدان جنگ میں ہمارا مقابلہ کرسکتا ہے اور نہ ہی سفارتی محاذ پر۔ حال ہی میں پہلے مذاکرات کی حامی بھر کر اس سے مکر جانا بھارت کی کوئی نئی حرکت نہیں ہے اور دنیا بھر کے سفارتی حلقوں نے اسے بجا طور پر بھارت کی اخلاقی اور سفارتی کمزوری سے تعبیر کیا ہے۔
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف ، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی رہائی اس ماہ کی اہم ترین سیاسی پیشرفت ہے ۔ اس معاملے کے قانونی پہلوئوں سے صرف نظر کرتے ہوئے اگر صرف سیاسی عوامل کا جائزہ لیا جائے تو یہ با آسانی محسوس کیا جاسکتا ہے کہ ملکی سیاسی فضا میں چھائی ہوئی غیر محسوس سیاسی کشیدگی میں واضح کمی دیکھنے میں آئی اور سیاسی تلخیوں کے موسم میں مفاہمت کے گل کھلے ہیں ۔ ہمارے ملک میں بالعموم اور پنجاب میں بالخصوص بیٹوں کا جیل جانا اور قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنا ہمیشہ ان کے لئے ہمدردی کے جذبات پیدا کرتا ہے اور حکومت کے لئے ناپسندیدگی کو جنم دیتا ہے ۔ مریم نواز کا اپنے والد کے ساتھ جیل جانے کا فیصلہ اور جیل میں قیام موجودہ حکومت کیلئے ایک مستقل امتحان اور سیاسی خطرہ تھا اور ایک ایسا آتش فشاں ثابت ہو رہا تھا جو کسی وقت بھی پھٹ سکتا تھا۔ میاں صاحب اور ان کی صاحبزادی کے رہائی کے عدالتی فیصلے نے جہاں تمام قانونی تقاضے پورے کئے ہیں وہاں اس سے مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف دونوں کو سیاسی ریلیف ملا ہے۔ نون لیگ کے کارکن اس بات پر خوش ہیں کہ ان کے قائد پھر سے ان کے درمیان آزاد فضائوں میں سانس لے رہے ہیں جبکہ حکومت اس امر پر خوش ہے کہ اسے سیاسی کشیدگی کے ازالے کیلئے کوئی کڑوا انتظامی گھونٹ نہیں بھرنا پڑا۔ رہائی کے بعد سے میاں نواز شریف کی مکمل خاموشی کو کئی تجزیہ نگار بیگم کلثوم نواز کی وفات کے بعد ہونے والے بے پناہ صدمے کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں جبکہ کئی اس امر پر اصرار کررہے ہیں کہ میاں صاحب شاید اکثر سیاسی معاملات شہباز شریف کے حوالے کر دیں گے جبکہ بیگم کلثوم نواز کی زندگی میں صورتحال مختلف تھی۔ بیگم صاحبہ نے تمام مشکل ادوار میں اپنے شوہر کی نہ صرف مکمل سیاسی معاونت کی بلکہ تمام خاندانی امور کو بھی با احسن وخوبی چلایا۔ بیگم کلثوم نواز ملک بھر کے لیگی کارکنوں سے براہ راست رابطے میں تھیں۔ انہوں نے سینیٹر بیگم نجمہ حمید کی مدد سے ذاتی دلچسپی لے کر ملک بھر میں مسلم لیگ شعبہ خواتین کی تشکیل کی اور ہر ضلع وتحصیل میں خواتین کارکنوں کی ایسی فعال اور موثر کھیپ تیار کی جس نے آنے والے وقتوں میں مسلم لیگ کی سیاسی جدوجہد میں اہم کردار ادا کیا ۔ وہ ایک منکسر المزاج شخصیت تھیں ۔ میری جب بھی ان سے بطور خاتون اول اور بعد میں ان سے ملاقات ہوئی ہمیشہ بڑی شفقت اور انکسار سے ملیں۔ کلثوم نواز کی رحلت نے میاں نواز شریف کو ایک سیاسی رفیق سے بھی محروم کردیا ہے۔
پاک چین دوستی ہمالیہ سے بلند اور ایک اٹل حقیقت ہے ’’سی پیک‘‘ منصوبہ دوستی کے اسی اٹوٹ رشتے کا نتیجہ ہے جس سے پاکستان بھر میں خوشحالی کے نئے دروا ہوں گے پاکستانی فوج کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ کا دورہ چین نہایت اہمیت کا حامل ہے ۔ انہوں نے چین کی عسکری اور سیاسی قیادت سے ملاقاتوں میں اس عزم کا اظہار کیا کہ پاک چین دوستی کے گہرے رشتے کو برقرار رکھنے اور اقتصادی راہداری جیسے اہم منصوبے کی تکمیل میں پاکستان کی حکومت ، پاکستانی عوام اور ہماری مسلح افواج اپنا کردار ادا کرے گی۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھارت کی آبی دہشتگردی ، مظلوم کشمیریوں پر بھارتی فوج کے مظالم اور بھارت کی مکارانہ سیاست کے بارے میں چینی قیادت کو اعتماد میں لیا۔