یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
قارئین میں نے اپنے کالم کا نام صبح نو رکھا ہے ویسے تو ایک نیا دن لے کر آنے والی ہر صبح،ایک طرح سے صبح نو ہی ہوتی ہے جو اپنے دامن میں نئی امیدیں اور نئے امکانات لے کر طلوع ہوتی ہے۔کسی دانش ور نے کہا ہے کہ نئی صبح یہ پیغام لاتی ہے کہ اللہ تعالٰی ابھی اپنی پیدا کردہ کائنات سے مایوس نہیں ہوا۔اللہ تعالٰی کی تخلیق کردہ یہ کائنات جس میں انسان کو اشرف المخلوقات کا مقام و مرتبہ حاصل ہے بے حد و حساب امکانات کی حامل ہے۔اسی لئے علامہ اقبال ؒ نے فرمایا تھا۔
؎یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دمادم صدائے کن فیکون
علامہ اقبال نے اپنے اس شعر میں ایک قرآنی آیت کے مطالب و معانی شعر کی زبان میں بیان کئے ہیں جس میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالٰی کائنات کو مسلسل وسعت دے رہا ہے۔اقبال نے اپنے اس شعر میں بھی یہی بات کی ہے۔
سلسلہ روز شب ،نقش گر حادثات
سلسلہ روز و شب اصل حیات و ممات
زمان و مکان کے مسئلے کے تناظر میں دیکھا جائے تو آسان ترین لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ مکان کی ساری تبدیلیاں اور وسعتیں زمان کی محتاج ہیں جسے اقبال کی زبان میں سلسلہ روز و شب کہا گیا ہے اس سلسلہ روز و شب کی اہم ترین کڑی صبح ہے۔جب ایک نیا سورج طلوع ہوتا ہے آپ جانتے ہیں کہ ہندو ضمیات میں سورج کو ایک دیوتا کا درجہ حاصل ہے۔سورج زندگی حرارت اور حرکت کی علامت ہے۔پھر اقبال کا شعر یاد آرہا ہے۔
؎اٹھ کہ خورشید کا سامان سفر تازہ کریں
نفس سوختہ شام و سحر تازہ کریں
اقبال نے 1930 میں جب مسلمانوں کے لئے ایک نئے وطن کی نوید سنائی تھی تو وہ بھی خورشید کا سامان سفر تازہ کرنے کا پیغام تھا۔خورشید جو حضرت قائداعظم ؒ محمد علی جناح کی صورت میں ظہور پذیر ہوا تھا،اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ برصغیر کے شفق رنگ افق پر 14 اگست 1947 کو جلوہ گر ہوا تھا اس کے بطن سے جو صبح طلوع ہوئی تھی وہ ہماری صبح آزادی تھی۔
مسلمانوں کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک ایسا حیران کن واقعہ رونما ہوا تھا جس کی کوئی مثال تاریخ عالم میں نہیں ملتی۔تاریخ انسانی میں پہلی دفعہ ووٹ کی پرچی نے دنیا میں ایک نئے ملک کو جنم دیا تھا۔عوام کی رائے کے آزادانہ اظہار سے ایک نیا ملک وجود میں آیا تھا۔اس سے پہلے تاریخ انسانی میں جو ملک وجود میں آئے وہ تلوار کے زور پر بنائے گئے تھے۔امریکہ بھی جنگ آزادی کے نتیجے میں وجود میں آرہا تھا۔پاکستان دنیا کی تاریخ میں اکلوتا ملک ہے جو جنگ آزادی نہیں بلکہ تحریک آزادی کا ثمر ہے۔چاہیئے تو یہ تھا کہ جو ملک برصغیر کے مسلمانوں کی تحریک آزادی کے نتیجے میں عوامی رائے کی قوت سے بنا تھا جسے غریبوں یعنی انگیریزوں اور ہندو کانگرس نے بلکہ ساری دنیا نے تسلیم کیا تھا اسے پاکستان کے طاقت ور حلقے بھی تسلیم کرتے اور عوام کو ہی طاقت کا سرچشمہ سمجھتے ۔جیسا کہ ہمارے قومی ترانے میں کہا گیا ہے۔
؎پاک سرزمین کا نظام
قوت اخوت عوام
اور ملک کی باگ دوڑ عوام کے نمائندوں کے ہاتھوں میں ہی رہنے دیتے جیسا کہ آزادی کے بعد بھارت میں ہوا ہے تو آج پاکستان بھارت سے کہیں آگے ہوتا۔14 اگست 1947 کو پاکستان کے قیام کے وقت کی صورت حال کا صحیح ادراک کیا جائے جیسے دفتری کاغذوں کو نتھی کرنے کے لئے پنوں کی بجائے کیکر کے کانٹے استعمال ہورہے ہیں اور کراچی میں مرکزی حکومت کے بیشتر اہلکار کھلے آسمان تلے درختوں کے سائے میں بیٹھے دفتری کام نپٹارہے تھے تو بلاحرف تردید یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان نے جو ترقی 1947 سے لے کر 1958 تک کے گیارہ
سالوں میں کی تھی اس کی مثال ہماری پوری ملکی تاریخ میں نہیں ملتی۔یہ سب ان سیاست دانوں اور عوامی نمائندوں کی ہمت اور محنت کی وجہ سے ممکن ہوا جنہیں 1958 میں مارشل لاء لگاکر ایوب خان نے نالائق اور کرپٹ قرار دیا۔اور ان میں سے بعض قابل احترام سیاسی راہنماؤں کو ،جن میں پاکستان بنانے والے بھی شامل ہے جیسے حسین شہید سہروردی،خان عبدالقیوم خان اور کئی دوسرے ان کو ایوب خان نے بلاوجہ اور بغیر کسی جرم کے جیلوں میں ڈال دیا۔1947 سے لے کر 1958 تک جو سیاست دان حکمران تھے ان میں سے بعض نالائق اور اپنے اقتدار کے لئے جوڑ توڑ کرنے والے تو ہوسکتے ہیں مگر وہ لوگ کرپٹ ہرگز نہیں تھے۔نہ انہوں نے قومی خرانہ لوٹا،نہ جائیدادیں بنائیں بلکہ ایسی مثالیں بھی ہیں کہ انہـوں نے اپنی ذاتی جائیدادیں بھی قوم کے حوالے کردیں۔خواجہ ناظم الدین نے ڈھاکہ میں اپنا حویلی نمابنگلہ پاکستان مسلم لیگ کے حوالے کردیا جہاں مسلم لیگ نے مشرقی پاکستان میں اپنا مرکزی دفتر قائم کیا تھا لاہور چھاؤنی میں کورکمانڈر کا جوبنگلہ ہے وہ بانی پاکستان حضرت قائداعظم ؒ کی ملکیت تھا جو انہوں نے پاکستان کی فوج کو عطا کردیا۔اس طرح کی اور کئی مثالیں موجود ہیں۔نوابزادہ لیاقت علی خان نے دہلی میں اپنا شاندار بنگلہ حکومت پاکستان کی نذر کردیا۔اس مکان میں شروع سے ہی پاکستان کا سفارت خانہ قائم ہے کیا کسی چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نے بھی کبھی پاکستان کو کچھ دیا ہے ہاں البتہ ایوب خان نے قوم کو جنرل یحیٰ خان جیسا شرابی تحفے میں دیا۔جس نے اپنی فوجی قوت سے پاکستان کو دوٹکڑے کردیا۔ہماری جاں باز اور محب وطن فوج کو اپنے ہی ہم وطنوں پر حملہ کرنے کا حکم دے دیا جس کے نتیجے کے طور پر پاکستان دولخت ہوگیا۔پاکستان کے عوام نے شیخ مجیب الرحمٰن کو اپنا حکمران منتخب کیا تھا مگر یحیٰی خان نے عوام کے فیصلے کو اپنے آئینی فوجی بوٹوں تلے روند ڈالا اور پارٹی 1970 کے عام انتخابات میں ہار گئی تھی یعنی پی پی پی،یا اس کے اقتدار میں آنے کی راہ ہموار کردی۔چونکہ ذکر مارشل لاء کا ہورہا تھا اس لئے بات سانحہ مشرقی پاکستان کی طرف نکل گئی۔حقیقت یہ ہے کہ مارشل لاء حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ یہی ہے کہ جو ملک حضرت قائداعظم نیت بغیر کسی فوجی سپاہی کو استعمال کئے اور بغیر کوئی گولی چلائے صرف اور صرف برصغیر کے مسلم عوام کے ووٹ کی طاقت سے بنایا تھا اس کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نے اپنی فوجی طاقت سے توڑ دیا۔بے شمار پاکستانیوں کو قتل کیا گیا اور ہماری جاں باز اور محب وطن فوج کے نوے ہزار جوانوں کو ہمارے ازلی دشمن بھارت کا قیدی بنادیا گیا۔یہ ہے فوجی حکومتوں کا سب سے بڑا کارنامہ اس کی ذمہ داری پاک فوج پر عائد نہیں ہوتی۔اس کے ذمہ دار صرف چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھے جنہوں نے فوج کو بھی مروایا اور عوام کو بھی اور اس کشت و خون کا حاصل یہ تھا کہ پاکستان ٹوٹ گیا۔مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔مگر افسوس صد افسوس کہ ہماری فوج کے سپہ سالاروں نے کوئی سبق نہ سیکھا اور جنرل ضیاء الحق کے بعد جنرل مشرف نے پھر مارشل لاء لگادیا۔اب اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ عوام کے ووٹوں سے صحیح معنوں میں ایگ جمہوری حکومت بن گئی ہے یہ حکومت مارشل لاء کی باقیات میں سے نہیں۔پاکستان میں پہلی دفعہ ایسی حکومت آئی ہے جس کا لیڈر کسی فوجی جرنل سے نہیں بلکہ عوام نے چنا ہے۔ذوالفقار علی بھٹو کو ایوب خان لایا تھا اور میاں نواز شریف کو جنرل ضیاء الحق جبکہ عمران خان کو ’’قوت اخوت عوام‘‘اقتدار میں لائی ہے۔عمران خان 22 سال کی طویل اور مسلسل سیاسی جدوجہد سے پاکستان کا وزیر اعظم بنا ہے۔پاکستان میں یہ واقعہ اپنی مثال آپ ہے اور اسی سے پاکستان میں صبح نو کا آغاز ہوتا ہے۔