نگینہ
ایوان اقتدار سے رخصتی ہو چکی تھی ،کارکنوں سے ساتھ ساتھ راہنمائوں میں غصہ عروج پر تھا،قافلہ لاہور کی جانب رواں دواں تھا ،راہ چلتے خطاب ہو رہے تھے ،اہم مقام پر ٹرک پر کھڑے ایک بڑے کی زبان پھسلی اور جوش جذبات میں کہنے لگے کہ میں کارکنوں سے کہتا ہوں کہ ’’وہ ‘‘ جہاں بھی نظر آئے اسے ’’ٹھوک‘‘ دو،یہ ٹھوک بھی عجیب لفظ ہے ،میخ گاڑھنی ہوں تو اس کو اظہار کا ذریعہ بنایا جاسکتا ہے،یا کسی چیز کی جانچ کرنا ہوں تو بول لیتے ہیں کہ اسے ٹھوک بجا کر دیکھا ہے،مگر سیاسی راہنماء کا مطلب کچھ اور تھا،غصہ دیکھا رہے تھے،جسے ٹھوکنے کوکہا تھا وہ آج منصب پر ہے اور’ ٹھوکا ٹھکائی‘ہو رہی ہے،ٹاسک فورسز بن رہی ہیں ،کمیٹیاں ہیں کہ تعداد یاد رکھنا ممکن نہیں ہے ،جناب اسحاق ڈار صاحب کو کمیٹیوں کا بوجھ ہی لے بیٹھا،پانچ سال ان سب کی صدارت کرتے گذر گئی، معیشت بیمار ہوئی ، ملکی قرضہ 28 ہزار ارب سے بھی تجاوز کر گیا ،زرمبادلہ کے ذخائر ہوا ہو گئے، ملک کاایف اے ٹی ایف میں نام آگیا، وہ خود اب لندن میں ہے اور ’’ٹھوکاٹھکائی‘‘سے بچنے کے لئے سرگرداں ہیں،اس کی ذد میں اور کس کس نے آنا ہے ،اس کا جواب یہی دیا جاسکتا ہے کہ جب زمین لرزتی ہے توسب کچھ ہلتا ہے ،فی الوقت تو 183ارب روپے کے نئے ٹیکس منی بجٹ کے ذریعے آ گئے،کہا گیا کہ سابق حکومت کا بجٹ غیر حقیقت پسندانہ تھا، اب حقیقت کا سامنا کرنے کے لئے ردوبدل کر دیا ہے ،مگر یہ کیا کہ منی بجٹ بھی اسی اکنامک ٹیم نے بنایاہے جس نے غیر حقیقت پسندانہ بجٹ بنایا تھا،اس میں تو کوئی ردوبدل نہیں ہوا ،جو جہاں بیٹھا تھا وہیں ہے ،اصل بات کچھ اور ہے ،جو یہ ہے کہ کسی کے پاس ’’حل‘‘ نہیں ہے ،بس ہیر پھیر کر دو اور کئی سو ارپ روپے ٹیکس لگا کر کہہ دو کہ ریونیو بڑھ گیا اور عوام متاثر نہیں ہوں گے، اس خاک نشیں کو تو اب بجٹ تقریریں یادہوگئی ہیں،چہرے بدل جاتے رہے مگر تقریر ایک ہی ہوتی ہے ، یہ کر دیں گے اور وہ کر دیں گے ، نوبت ریڈیو کی عمارت بیچنے پر آگئی ہے ،عوام اب مزید غریب ہونے کے لئے تیار رہیں،اس ملک کے لوگ تو بہت صابر وشاکر ہیں،انہوں نے کیا نہیں کیا ہے ،بار بار قسمت بدلنے کا نعرہ لگانے والون کو مسند تک پہنچایا،لیکن ہر دور کے بعد ان کو یہ بتایا گیا کہ حالت پہلے سے بھی خراب ہو چکی ہے ،یہ تو اللہ تعالی کی خاص مہربانی ہے کہ معاملہ چلتا رہتا ہے ورنہ قیادت نے تو کوئی کسر نہیں چھوڑی،اب کیا 183ارب سے مسلے حل ہونے والے ہیں ایسا تو ممکن نہیں ہے ،چند دن اور گزار لیں ،آئی ایم ایف کے پاس جانے والے ہیں ، اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے ،کسی سابقہ کالم میں لکھا تھا کہ دنیا میں ایسی کوئی چیک بک نہیں ہے جس سے کوئی ہر بار ایک چیک کاٹ کر دے ،دے،عوام ماضی کی طرح اس بار بھی تیار ہوں گے کہ وہ اپنے حصے کا فرض ادا کر دیں مگر حکومت کو بھی کچھ نیا کر کے دکھانا چاہئے،برامدات بڑھانا ہیں تو بجلی ،گیس کی قیمت میں اضافہ کیوں؟ٹیکس گزاروں میں اضافہ کرنا ہے تو ’’نان فائیلرز‘‘ کے لئے پراپرٹیز اور گاڑیوں کی خریداری پر پابندی کا خاتمہ کیوں،یہ ترجیحات سے سیدھی سیدھی پہلو تہی ہے ،’’ٹھوکھا ٹھکائی‘‘ سے کام نہیںچلنے والا، عقل اور دانش سے چلنا بہتر رہے گا،مسلے پہلے ہی بہت ہیں،قوم کو بتا دیا جائے کہ باہر پڑا پیسہ لانا طویل قانونی عمل اور صبر آزما جدوجہد کا متقاضی ہے،اس کے فوری نتایج نہیں ہیں ،مگر کوشش کی جاتی رہے گی،’ جس کے لئے’لاپتہ‘‘ افرد کی تلاش سے شہرت پانے والے والے معزز اب لاپتہ دولت کی تلاش کا فرض ادا کریں گے،جس کے لئے ٹاسک فورس پر ٹاسک فورسزبنائی جاتی رہے گی،بات یہاں تک پہنچی تھی کہ دھیان ، محمد ریحان البیرونی کی ‘‘کتاب الجواہر‘‘ (مترجم ڈاکٹر عطش درانی )کی جانب چلا گیا،اس میں ایک امیر اور بھکاری کو قصہ ملتا ہے ،امیر یمین الدولہ بلخ کے جنگل میں شکار کو گیا،راستے میں اسے بخارا کا ایک فقیر ملا،امیر ایسے لوگوںسے بہت چڑتا تھا،اس نے بھکاری کو دفع کرنے کے لئے کہا،جب وہ اپنے ہاتھ کے اشارے سے ایسا کرنے کا حکم دے رہا تھا تو اس کی انگوٹھی کا نگینہ نکل کر گر پڑا ،بھکاری یہ سب دیکھ رہا تھا ،جب امیر کا لشکر وہاں سے چلا گیا توبھکاری نے نے وہ نگینہ اٹھا لیا،واپسی پر امیر نے اپنی انگوٹھی کو نگینہ سے خالی پایا،اس نے تلاش کا حکم دیا،اگلے روز اس نے بخارا کے بھکاری کو اس جگہ پایا ،فقیر نے پھر صدا بلند کی تو امیر نے اس کے سر کو سوئیوں سے چھیدنے کا حکم دیا، اس پر بخارکا وہ شخص بولا’’اگر تم اپنی ملکیت میں سے مجھے کچھ دینا نہیں چاہتے تو نہ سہی،کم از کم مجھ سے وہ چیز تو لے لو جو تمہاری ہے ‘‘،اس کے بعد اس نے نگینہ امیر کو پیش کر دیا۔امیر نے حیرت سے کہا کہ اس کے پاس کیسے آیا؟بھکاری نے سارا واقعہ بیان کر دیا اس پر امیر بولا کہ’’خدا کی مرضی یہی تھی کہ میں یوں تیرے آگے نگوں ہو جاوں‘‘پھر اس نے بھکاری کو تین سو دینار ادا کرنے کا حکم دیا،امیر نے بھکاری سے کہا کہ یہ دولت لے لو اور میرا شکریہ ادا مت کرنا ،یہ اللہ کی طرف سے عطیہ ہے میری طرف سے نہیں،اگر یہ میرا عطیہ ہوتا تو یہ تم تک نہ پہنچتا‘‘ یہاں کے غریب ،غیرت والے ہیں،وہ اس ملک کے لئے اپنے منہ کا نوالہ بھی دینے کو آمادہ ہو جاتے ہیں،بار بارقربانی دیتے ہیں،ہر بار نگینہ واپس کر دیتے ہیں، عزت چاہتے ہیں ،ملک کا مقام بلند کرنے کے متمنی ہیں،اس ا میر نے تو آخر انعام دیاتھا لیکن یہاں ہر با رسر چھید دیا جاتا ہے ،یہ سلسہ کہاں جا کر تھمے گا ،اس کو وقت کوئی نہیں جانتا ہے،اس لئے ٹھوکا ٹھکائی ضرور کی جائے یہ نفسیاتی سہارے کے لئے ضروری ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ اس ،منزل کے جانب بڑھنا ہو گا جہاں غریبی اور امیری کے فاصلے مٹ جائیں،لوگ دال روٹی سے آگے سوچنے لگ جائیں۔