بس ایک جنگ امن کیلئے
پاکستان کی مسلح افواج کے خلاف پروپیگنڈہ اور دشنام طرازی فیشن کی صورت اختیار کر چکی ہے اس کے پیچھے جو عوامل بھی کافرما ہیں ان کی نشاندہی اور بیخ کنی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ زندہ قوموں اور ترقی یافتہ معاشرے کی یہ اولین ترجیح ہوتی ہے کہ ملک کے اندر لا اینڈ آرڈر اور ملکی سرحدوں کے کنٹرول کا اعلیٰ سطحی انتظام کیا جائے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے جن ملزمان کو عدلیہ کے سامنے پیش کریں وہاں انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے انصاف اور عدل کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ قارئین! وطن عزیز پاکستان کو ظہور پذیر ہوئے ستر سال سے زائد ہو چکے ہیں اور دو قومی نظریہ کا نعرہ لگا کر وجود میں آنے والی اس مملکت کے جو مقاصد تھے ہم ان سے نہ صرف کوسوں دور ہیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ہم الٹی سمت میں چلنے لگے ہیں۔ میں پرانی قبریں کھود کر نیا تماشا نہیں کھڑا کرنا چاہتا مگر مملکت کا ٹیکس گزار شہری ہونے کے ناطے مجھے حق حاصل ہے کہ مملکت عزیز کے متعلق اپنی تشویش کا حق رکھوں۔قارئین! آج سے چند سال پیشتر تک خصوصاً الیکٹرانک میڈیا بذریعہ کیبل نیٹ ورک آنے تک اور پھر جب سے سوشل میڈیا کی ابتدا ہوئی ہے ’’چیونٹیوں کے بھی پر نکل آئے ہیں‘‘ اس سے پہلے لوگ وردی کا احترام کرتے تھے مجھے آج بھی یاد ہے کہ ہمارے قصبہ میترانوالی میں پولیس تھانہ یا چوکی نہیں تھی اور یہ قصبہ سیالکوٹ کے قصبات میں سے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا قصبہ ہے اور وہاں بھی پاکستان کے دیگر علاقوںکی طرح کبھی کبھار چوری اور نقب زنی کی چھوٹی موٹی واردات یا لڑائی جھگڑے ہو جایا کرتے تھے۔ اگر کوئی ڈسکہ تھانہ میں شکایت کرنے پہنچ جاتا تو صرف ایک پولیس اہلکار سائیکل پر آتا اور نامزد ملزمان کو کمیٹی گھر اکٹھا کرتا اور ان کے ہاتھ کسی کھیس یا چادر سے باندھ دیئے جاتے اور ایک پولیس اہلکار آدھا درجن لوگوں کو تانگے پر بٹھا کر لے جاتا۔ مجھے بچپن کے وہ لمحات آج بھی یاد ہیں۔ جب ہماری قریبی سڑک سے فوجی گاڑیوں کا کارواں گزرتا تو ہم پاک فوج کے سپاہیوں کو سلیوٹ کرتے اور خوش ہوتے اور یہ تو آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ ٹرکوں اور بسوں کے پیچھے بس دو ہی فقرے لکھے ہوا کرتے تھے ایک ’’پاک فوج کو سلام‘‘ اور دوسرا ’’ماں کی دعا جنت کی ہوا‘‘ اور 65ء کی جنگ جیتنے کے بعد تو یہ صورتحال تھی کہ ہر قسم کی ٹرانسپورٹ کے پیچھے فیلڈ مارشل ایوب خان(مرحوم) کی تصویر چسپاں ہوتی تھی مگر حالات 1980ء کی دہائی کے شروع سے بدلنے لگے۔ میں آج بھی اس بات سے متفق ہوں کہ جنرل ضیا الحق (مرحوم) کا ساڑھے گیارہ سالہ مارشل لاء غیر آئینی اور غیر ضروری تھا اور اس کے نفرت زدہ اثرات آج بھی ہمارے معاشرے کے رویئے میں محسوس کیے جا سکتے ہیں اور پھر امریکہ میں برپا ہونے والے نائن الیون جس نے امریکہ ہی نہیں بلکہ پوری دنیا اور بالخصوص عالم اسلام اور مسلمانوں کی سوچوں اور رویوں کو پراگندہ کر دیا۔ اس وقت پاکستان کے باوردی سربراہ جنرل پرویز مشرف تھے جن کے لائن کی دوسری طرف کھڑے ہونے سے عالم اسلام اور خطے کے مسلمانوں کا ایک مخصوص طبقہ پاکستان اور پاک فوج دشمنی پر اتر آیا اور ہمارے پیارے وطن کی فضا بارود اور خون سے رنگ گئی۔ پھر ایک لاکھ سول و فوجی جوانوں کی قربانیاں دے کر دو سو ارب ڈالرز کی معیشت تباہ ہونے کے بعد ہمیں یہ احساس ہوا کہ نہ تو یہ جنگ ہماری تھی اور نہ ہی وہ ہمارے تھے جن کے لیے ہم یہ جنگ لڑ رہے تھے۔ پھر اسی پر اکتفا نہیں ہمارے ازلی دشمن بھارت کو اس دوران فری ہینڈ مل گیا۔ خاص طور پر ممبئی حملہ کے بعد پاک فوج اور پاکستان اپنی علاقائی صورتِ حال کی وجہ سے دفاعی پوزیشن پر آ گئے اور بھارت کو موقع مل گیا اور وہ دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتا رہا۔ آج وہ اس قابل ہو گیا ہے کہ وہ ایک سو دس ارب ڈالرز کے جدید ہتھیار اور فرانسیسی ماڈل رافیل لڑاکا طیارے خرید کر اپنے فضائی بیڑے میں شامل کر سکے اور اس کا چیف آف آرمی سٹاف بپن راوت جو کسی بارات پر بینڈ بجانے والی ٹیم کا ہیڈ ڈواچی لگتا ہے وہ دنیا کے آبادی کے لحاظ سے چھٹے بڑے ملک اور خود بھارت سے کئی گنا زیادہ معیاری نیوکلیئر طاقت پاکستان اور اس کی افواج کو اس تڑیاں لگا رہا ہے جیسے کہ ہم اس کے گائوں کے چائے کی دوکان والے ہیں۔
قارئین! سابقہ مشرقی پاکستان میں غیر قانونی مداخلت کرکے اور 1948ء میں جب دونوں ممالک ارتقائی پوزیشن پر تھے۔ بھارت نے کشمیر میں فوجیں اتاریں اور قبضہ کر لیا پھر جوناگڑھ اور حیدرآباد میں بھی رات کی سیاہی میں فوجیں اتار کر قبضہ کرنے والے بھارتی اور پھر گجرات میں لاکھوں مسلمانوں کو شہید کرنیوالے نریندر مودی جسے امریکہ اور یورپی یونین اپنے ویزے دینے سے انکاری تھے۔ وہ ہزاروں انسانوں کا قاتل ڈونلڈ ٹرمپ کا پسندیدہ شکاری ہے۔ اس وقت نریندر مودی اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو اور ٹرمپ پر مشتمل تکون عالمی امن کے لیے خطرہ ہے۔
قارئین! ان حالات میں بھی وطن عزیز کے اندر دشمن کے آلہ کار، سہولت کار موجود ہیں جنہیں ہر جگہ ، ہروقت پاک فوج کو ملعون کرنا اچھا لگتا ہے۔ مثلاً جنہیں بلوچستان میں بھارتی دراندازی اور مداخلت نظر نہیں آتی مگر گھروں سے بھاگے ہوئے یا لوکل قبائلی سرداروں کے خوف سے چھپے ہوئے گمشدہ افراد بہت نظر آتے ہیں ۔ اللہ کا شکر ہے آج وزیرستان سے لے کر خیبر تک اور خیبر سے چمن تک اور چمن سے گوادر اور تفتان تک اور تفتان سے کراچی تک امن بحال ہو چکا ہے۔ قوم اس وقت پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے، اپنے اندرونی اختلافات کو پس پشت ڈال کر اپنے سے بڑے دشمن کی گیدڑ بھبکیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے بس یہی پیغام دینا ہے کہ اگر نیوکلیئر جنگ میں سارے پاکستانی شہید ہو گئے تو بھی ڈیڑھ ارب مسلمان کرۂ ارض پر موجود ہوں گے مگر تمہارا کیا بنے گا دشمنو!اگر نہیں تو آئو ایک جنگ امن کے لیے لڑ لیں تاکہ تمہارا نشہ اُتر جائے۔!