شہید جمہوریت کی جہد مسلسل
شہید جمہوریت چودھری ظہورالٰہی کی 38 ویں برسی 25 ستمبر کو منائی جا رہی ہے۔ گجرات کے ایک چھوٹے سے گائوں ’’نت‘‘ میں 7 مارچ 1920ء کو آنکھ کھولنے والے چودھری ظہورالٰہی کی پوری زندگی کھلی کتاب کی مانند سب کے سامنے ہے۔ انہوں نے عمر بھر ڈرائنگ روم کی سیاست ‘ جھوٹ‘ منافقت اور استحصال کے خلاف بھرپور جدوجہد جاری رکھی اور حق سچ اور آزادی جمہوریت کے استحکام کی خاطر 25ستمبر 1981ء کو اپنی جان بھی قربان کر دی۔
چودھری ظہورالٰہی شہید نے اپنی عملی زندگی کو آبائی ذریعہ معیشت زراعت سے جوڑے رکھنے کے ساتھ ساتھ مسلسل بدلتی ہوئی معیشت پر بھی بھرپور نظر رکھی۔ ان کے والد چودھری سردار علی نے آغاز میں انہیں پولیس کے شعبہ میں بھی بھیجا مگر چودھری ظہورالٰہی کے اندر کی شخصیت مستقبل کیلئے کسی بڑے کردار کیلئے تیار ہو رہی تھی چنانچہ وہ فوراً اس پابند زندگی کے دائرے سے باہر آ گئے۔ انہی ایام میں کسی لمحے میں انہوں نے بڑا فیصلہ کیا اور عوام کو دکھوں اور مسائل سے نجات دلانے کیلئے اور استحصالی طبقے کے خلاف نبرد آزما ہونے کیلئے میدان عمل میں نکل آئے… قائداعظم سے محبت ان کو مسلم لیگ کے قریب لے آئی اور 1944ء کے بعد وہ مسلم لیگ گجرات کی سیاست میں عملاً داخل ہوئے اور مسلمانوں کی خدمت کو اپنا شعار بنا لیا۔ ایک بار سیاسی میدان میں آنے کے بعد چودھری ظہورالٰہی کا ہر قدم آگے کی جانب اٹھتا گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے علاقے کی سیاست ظہور ہائوس کے اردگرد گھومنے لگی۔ چودھری ظہور الٰہی کی شخصیت اور رویے میں ایسا سحر تھا کہ بہت جلد ان کے تعلقات اعلیٰ حلقوں تک استوار ہو گئے۔ چودھری ظہورالٰہی شہید نے علاقے میں پہلی بڑی سیاسی کامیابی اس وقت حاصل کی جب 1962ء کے انتخابات میں ان کے گروپ نے نوابزادہ اصغر علی خان کے مقابلے میں واضح کامیابی حاصل کی۔ چودھری ظہورالٰہی نے نوابزادہ اصغر علی خان کو شکست دی اور قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ چودھری ظہورالٰہی کی ذہانت‘ حب الوطنی اور پاکستان بھر کے اہم سیاسی زعما سے ذاتی گہرے تعلقات کی وجہ سے انہیں کنونشن مسلم لیگ کی پارلیمانی پارٹی کا سیکرٹری جنرل بنا دیا گیا۔
ان دنوں ایک اہم سیاسی موڑ بھی آیا۔ چودھری ظہورالٰہی اور گورنر مغربی پاکستان نواب آف کالا باغ کے درمیان اچھے تعلقات سے بعض سیاسی حریفوں کو بہت بے چینی ہو رہی تھی۔ پاکستان ٹائمز سمیت وطن عزیز کے اہم اخبارات چودھری ظہورالٰہی شہید کے پاس تھے چنانچہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت پہلے ملک بھر میں یہ افواہ اڑائی گئی کہ نواب آف کالا باغ امیر محمد خان کی جگہ چودھری ظہورالٰہی کو مغربی پاکستان کا گورنر بنایا جا رہا ہے اس کے ساتھ ہی پاکستان ٹائمز میں اسی نوعیت کی ایک خبر چھپوا دی گئی ۔ نواب کالا باغ نے اپنے صوبائی وزیر خزانہ شیخ مسعود صادق کو حکم دیا کہ راولپنڈی کے پاکستان ٹائمز کی کاپی ان کے پاس لے کر آئیں اور پھر خبر پڑھ کر سازش کا پس منظر جانے بغیر ایسے آگ بگولہ ہوئے کہ چودھری ظہورالٰہی اور ان کے خاندان کے خلاف انتقامی کارروائیوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ بعد میں ایوب خان اور محترمہ فاطمہ جناح کے مابین صدارتی محاذ آرائی میں چودھری ظہورالٰہی کھل کر سیاسی میدان میں آئے اور محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا۔
یہ وہ زمانہ تھا کہ جب ان کو حق و صداقت کی راہ سے ہٹانے کیلئے نواب آف کالا باغ کی طرف سے کبھی ایک مقدمہ بنتا تو کبھی دوسرا۔ کبھی وہ جیل میں ہوتے اور کبھی باہر۔ ان پر جب اور کوئی کیس نہ بن سکتا تو گاڑی کی تیز رفتاری کا ہی چالان کر دیا جاتا۔ یہ سلسلہ صرف ایک دور حکومت تک محدود نہیں رہا۔ 1965ء کے صدارتی انتخابات میں انہیں پارٹی ٹکٹ نہ ملا تو انہوں نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیا۔ 1969ء میں وہ کونسل مسلم لیگ میں شامل ہو گئے جب جنرل یحییٰ خان نے 1970ء کے انتخابات کرائے تو چودھری ظہورالٰہی نے علاقہ کی اہم شخصیت نوابزادہ اصغر علی خان کو شکست دی۔ چودھری ظہورالٰہی تو مرحوم بھٹو سمیت کسی سے ذاتی اختلافات کے قائل نہیں تھے۔ البتہ وہ اصولوں پر کسی بھی طرح مفاہمت کے قائل نہیں تھے اسے حالات کی ستم ظریفی کہا جا سکتا ہے کہ بھٹو کے دور حکومت میں گورنر پنجاب غلام مصطفی کھر جیسے افراد بھی تھے جو بوجوہ چودھری ظہورالٰہی کے سیاسی قدو قامت سے خوفزدہ تھے چنانچہ چودھری ظہورالٰہی کے خلاف انتقامی کارروائیوں میں اس خوف نے بھی اپنا کام دکھایا اور بھینسیں چوری جیسے مقدمات بھی درج ہوتے رہے جن سے چودھری ظہورالٰہی شہید اور ان کا خاندان تو پریشان ہوتا ہی رہا لیکن خود پیپلزپارٹی کی سیاسی ساکھ کو بھی زبردست نقصان پہنچا۔ چودھری ظہورالٰہی شہید کو حق گوئی کی راہ سے ہٹانے کیلئے ان کی 25ستمبر 1981ء کی شہادت سے پہلے بھی کئی منصوبے بنائے گئے۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں انہیں بلوچستان کے علاقے کوہلو میں لیجایا گیا تاکہ ان کے وجود کو ختم کر دیا جائے لیکن بلوچستان کے ممتاز سیاسی رہنما نواب اکبر بگتی مرحوم نے اپنے دوست کے خلاف اس سازش کو ناکام بنا دیا۔
چودھری ظہورالٰہی شہید بنیادی طور پر رحم دل‘ مخیر‘ دکھی انسانیت کیلئے دردمند دل رکھنے والے اور انسان دوست شخصیت کے مالک تھے۔ انہوں نے زندگی بھر کوشش کی کہ وہ دوسروں کے کام آتے رہیں۔ وطن عزیز کے تمام محب وطن حلقے اور خاص طور پرپنجاب ضلع گجرات کے عوام ان کیلئے دیدہ و دل فرش راہ کیے رکھتے تھے۔ انہوں نے عوام کی فلاح و بہبود کیلئے متعدد منصوبوں پر کام شروع کروائے اور ان گنت دکھی اور ضرورت مند خاندانوں کی مدد کیلئے کئی سلسلے جاری رکھے۔ لاہور میں اپنی شہادت کے دن تک ان کے معمولات عوامی فلاح کیلئے وقف رہے۔ تخریب کاری کے اس واقعہ میں بھی اصل نشانہ لاہور ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین تھے لیکن وہ بچ گئے اور چودھری ظہورالٰہی اپنے ڈرائیور سمیت شہید ہو گئے۔ چودھری ظہورالٰہی کی شہادت کے بعد ان کے سیاسی وارث خانوادے نے عظیم سربراہ کی اعلیٰ سیاسی اقدار کا پرچم بلند کیے رکھا۔ حقیقت یہ ہے کہ چودھری ظہورالٰہی نے اپنی زندگی میں چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویزالٰہی کی ایسی سیاسی تربیت کی کہ وہ عوامی فلاح‘ دیہی ترقی کے منصوبوں کیلئے مسلسل کام کرنے کے عادی رہے۔ انہوں نے ملک بھر اور خاص طور پر پنجاب میں سیاسی رابطوں کو کمزور نہیں ہونے دیا بلکہ پہلے سے بھی مضبوط بنایا ہے۔ پنجاب کی حکومت اور سیاسی قیادت براہِ راست پرویزالٰہی کے پاس رہی جنہوں نے ترقیاتی کاموں کا ایک نیا تصور دیا جس کے تحت صوبہ پنجاب ترقی کی راہ پرگامزن رہا۔