جنرل باجوہ’ بابا گورو نانک اور کرکٹر سِدّھو
میل ملاقات کرکٹ، اور سفارت کاری کی روایت ہے اس میں کوئی نئی بات نہیں لیکن اس بار کیا ’وکھری’ کہانی ہو گئی کہ ایک جپھی نے بھارت کے طول عرض میں ایسی آگ لگا دی کہ بجھائے نہیں بجھ رہی، مسلسل سلگ رہی ہے اور کبھی کبھار بھڑک اٹھتی ہے۔ بھارت ملاقات سے انکاری، مذاکرات سے خوفزدہ ہے آخر یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ عمران خان کی وزارت عظمی کی حلف برداری پر خوبصورت پگڑی سجائے بھارت سے آئے قہقہہ بازی میں مشہور نوجوت سنگھ سدھو کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے جپھی کیا ڈالی’ گلے کیا لگایا، پورا بھارت سدھو جی اور پاکستان کے گلے ہی پڑگیا ہے یہ جپھی سیاست سے زیادہ جاٹوں کے پنجابی خون کی کشادہ دلی کا مظہر تھی۔تنگ دل باجپائی ذہنیت نے اسے ‘‘جٹ جپھا’’ بنادیا ہے جس سے جان چھڑانا ہندو لالے کیلئے مستقبل قریب میں ناممکن ہو گا۔
یہ دربار صاحب کرتار پور کیا ہے اس کی سکھ مذہب میں کیا اہمیت ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ دربار صاحب کرتار پور سے ڈیرہ بابا نانک کا درمیانی 5,6 کلومیٹر فاصلہ کیوں مقدس راہداری (religious corridor )کیوں بنانا چاہتے ہیں یہ سب سمجھنے اور جاننے کیلئے تاریخ کے جھروکوں میں جھانکنا پڑ ے گا۔ سکھ دھرم کے بانی باباجی گورو نانک دیو مہاراج نے اپنی زندگی کے آخری 20 برس تحصیل شکر گڑھ کے اس علاقے میں گزارے جس میں ان کا دربار’ مزار دربار صاحب کرتار پور پاکستان میں جبکہ اس کے عین سامنے 4 کلومیٹر دور دریائے راوی کے اس پار بھارت میں ڈیرہ بابا نانک میں انکی رہائش رہی تھی ان دونوں مقدس ترین مقامات کے درمیان دریائے راوی قدرتی حد فاصل ہے جس کو بین الااقوامی سرحد نے دو ملکوں میں تقسیم کردیا ہے۔ ڈیرہ بابا نانک اور دربار صاحب کرتار پور کے علاقے کو سکھوں کیلئے ‘‘کھلا علاقہ’’ قرار دینے کی تجویز کئی دہائیوں پہلے اس علاقے سے منتخب عوامی نمائندے اور پہلے وفاقی وزیرانور عزیز چودھری نے 60 کی دہائی میں پیش کی تھی لیکن پاک بھارت تعلقات میں اتار چڑھاؤ نے اس کو آگے نہ بڑھنے دیا جبکہ بابا جی گورو نانک مہاراج کے اس سچے اور پکے مسلمان عاشق زار سیاستدان انور عزیز چودھری نے بدترین حالات میں بھی پیار و محبت کے روشن چراغ ’ دیوے کو بجھنے نہ دیا یہ کالم نگار اپنے چند دیگر ساتھیوں کے ہمراہ اس مقدس راہداری (religious corridor) کے قیام کیلئے گذشتہ 30 برس سے بروئے کار رہا ہے جوکہ تنگ دل و تنگ نظر بھارتی نیتاؤںکو کبھی بھی قابل قبول نہیں ہو سکتا کیونکہ مکار بھارتی نیتاؤں نے دکھاوے کیلئے 60 سال کے بزرگوں اور 12 برس سے کم عمر بچوں کیلئے (visa on arrival) کی یک طرفہ سہولت دی ہو ئی ہے جو کہ پاکستان کی رضامندی کے بغیر قابل عمل نہیں جب یہ بچے یا بزرگ ویزا کے لئے ہائی کمشن سے رابطہ کرتے ہیں تو انہیں فوری ویزے کے اجرا کی بجائے ان کی آتما رول دی جاتی ہے جو تمام اخلاقی اور قانونی روایات کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ اس ماحول میں بھارت جنرل باجوہ کی تجویز کیسے منظور کرسکتا تھا ۔
یہ المناک حقیقت ہے کہ سکھ فکری اعتبار سے مسلمانوں سے قریب تر تھے لیکن سماجی طور پر ہندوؤں کا حصہ تھے کیونکہ جب بابا گورو نانک دیو مہاراج نے پنجاب کے جاٹ کسانوں کی اصلاح کیلئے تحریک شروع کی تو جاٹوں سے سب بڑا بیٹا دان کرنے کو کہا جس پر ہزاروں جاٹوں نے اپنے بڑے بیٹے گورو جی مہاراج کو دان کردئیے اور یوں یہ سماج سدھار کی تحریک سکھ مذہب کی بنیاد بنی۔ اب پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے سرحد کھولنے اور سکھوں کو پاسپورٹ اور دیگر سفری دستاویزات کے بغیر دربار صاحب کرتار پور تک آزادانہ رسائی دینے کا یک طرفہ اعلان کرکے بھارت میں صف ماتم بچھا دی کہ وزیر خارجہ ششما سوراج سِدّھو پر برس پڑیں کہ اس نے جنرل باجوہ کی وردی کو کیوں چھوا؟ جنرل قمر جاوید باجوہ نے سادگی سے کرتار پور بارڈر سکھوں کیلئے کھولنے کی معصومانہ تجویز پیش کی تھی جس پر بھارتی نیتاؤں کے ساتھ ساتھ ہمارے لوکل لبرلز کو بھی بڑی شدید تکلیف پہنچی ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کون ہوتا ہے سول حکومت کے کاموں میں مداخلت کرنیوالا‘ افسوس ناک حقیقت یہ ہے آبرو باختہ یہ ٹولہ ISPR میں گہرا نفوذ رکھتا ہے‘ بھارت میں مچی ہاہاکار نے جنرل باجوہ کی بے ضرر تجویز اور نوجوت سِدّھو سے پیار بھری جپھی کو ہّوا بنادیا۔ یہ کہانی اگلے سال ہونے والے الیکشن کا مرکزی محور بنی رہے گی۔
اس سارے معاملے کا تاریخی پس منظر بڑا دلچسپ اور پراسرار ہے‘ کہا جاتا ہے کہ باباجی گورو نانک مسلمان تھے ان کی تعلیمات توحید پر مبنی ہیں جس کا مرکز و محور ایک خدا ہے اور یہ کہ انہیں اپنے مسلمان ساتھی بابا مردانہ کے ساتھ حج کی سعادت بھی نصیب ہوئی تھی سکھ مذہب میں مورتی پوجا کی سخت ممانعت ہے اس لئے جب بابا جی گورو نانک نے اس دنیا سے پردہ فرمایا ’ ان کا انتقال ہوا تو علاقے کے مسلمان انہیں دفنانے کیلئے آگئے جبکہ ہندوؤں نے انہیں جلانے پر اصرار کیا معاملہ لڑائی جھگڑے تک جا پہنچا’ چند سیانوں نے بیچ بچاؤ کروایا اور بابا جی میت کو دیکھنے کیلئے کہا جب چادر اٹھائی گئی تو بابا جی گورونانک کے جسد خاکی کی جگہ تازہ سرخ گلاب مہک رہے تھے جس پر ان گلابوں کو آدھا آدھا تقسیم کیا گیا ہندوؤں نے انہیں جلایا جبکہ مسلمانوں نے اپنے حصے کے گلاب دفنائے۔ دربار صاحب کرتار پور صاحب میں بابا جی کا مزار اور مڑھی آمنے سامنے موجود ہیں۔ یہ یادگاریں گورو نانک جی مہاراج کے سفر آخرت کے واقعے کی یاد دلاتی ہیں ویسے بھی نانک جی مہاراج کے بعد سکھ مذہب نے موجودہ شکل اختیار کی جس کیلئے دس گوروؤں نے بے مثل قربانیوں کی لازوال داستان رقم کی خاص طور دسویں گوروگو بند سنگھ نے سکھ مذہب کو موجودہ شکل میں ڈھالنے میں بنیادی کردار ادا کیا جس کے بعد گوروؤں کے تقرر کا سلسلہ ختم کردیا گیا اور مقدس کتاب’گرنتھ صاحب’ کو ہمیشہ کیلئے‘ زندہ گورو’ کا درجہ دے دیا گیا یہ وہی گورو گو بند جی ہیں جن کے بچوں کو مغل جرنیل نے زندہ دیوار میں چنؤا دیا تھا جس پر ریاست ملیر کوٹلہ کے نواب شیر محمد خان نے احتجاج کرتے ہوئے‘‘ آہ دا نعرہ’’ مارا تھا کہ ان معصوم بچوں کو ناحق قتل نہ کیا جائے انکے حوالے کردیا جائے۔ ملیر کوٹلے کا نواب ان معصوم بچوں کو تو نہ بچا سکا لیکن4 سو سال بعدسکھ قیادت نے اس احسان کا بدلہ اس طرح چکایاکہ 1947ء میں تقسیم پر ہونے والے انسانیت کش فسادات میں ریاست ملیر کوٹلہ کو جائے امان قرار دے دیا تھا جس پر ریاست کی حدود میں مکمل امن و امان رہا جبکہ ملیر کوٹلہ کے چاروں طرف قتل و غارت گری کا بازار گرم تھا اور جہنم کی آگ دھک رہی تھی۔ بھارتی پنجاب کا مسلم اکثریتی شہر ملیر کوٹلہ گورو گو بند جی کے خاندان سے منسلک اس داستان کا زندہ ثبوت موجود ہے۔ اسی طرح رائے کوٹ کے مسلمان راجپوتوں کے سردار نے گورو گو بند جی کو پناہ دی تو اس خاندان کو گورو گو بند جی نے چند تحائف سے سرفراز فرمایا جو نسل در نسل ہوتے ہوئے اب تحریک انصاف کے رہنما رائے عزیز اللہ خان کے پاس محفوظ ہیں۔ ان تبرکات کو لندن میں محفوظ رکھا گیا ہے جو درشن دیدار کیلئے کبھی کبھار نکالے جاتے ہیں۔