انتخابی جائزہ این اے 131
الیکشن 2018کے بعد 14اکتوبر کو پہلی مرتبہ ضمنی الیکشن ہونے جا رہے ہیں۔ پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں ضمنی انتخاب کے سب سے بڑے معرکے ہوں گے جہاں پی ٹی آئی کے چیئرمین اور وزیراعظم عمران خان نے قومی اسمبلی کی نشست این اے 131خالی کی تھی ۔ عمران خان یہ نشست ہارتے بال بال بچے تھے سو ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی نے ان کی جگہ ہمایوں اختر خان کو میدان میں اتاراہے جو 1990سے سیاست میں ہیں ۔ جنرل اختر عبدالرحمن شہید کا فرزند ہونے کے باعث پاک فوج میں ان کے لئے ہمدردی کے جذبات پائے جاتے ہیں اس حلقہ انتخاب میں حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجیوں کی کثیرتعداد ووٹر ہے۔
ہمایوں اختر خان اپنی 28سالہ سیاست کے دور میں تین مرتبہ مختلف لاہور ی حلقوں سے رکن قومی اسمبلی رہ چکے ہیں 1990اور 1993کے الیکشن انہوں نے مسلم لیگ ن کی ٹکٹ پر جیتے تھے جبکہ 1997میں انہیں پارٹی نے ٹکٹ نہیں دی تاہم وزیراعظم نواز شریف نے کچھ عرصہ بعد انہیں اپنی ٹیم میں شامل کرکے چیئرمین سرمایہ کاری بورڈ بنا دیا۔ ان کا درجہ وفاقی وزیر کا تھا۔ جنرل پرویز مشرف کی بغاوت کے بعد مسلم لیگ ن کی کوکھ سے مسلم لیگ ق نے جنم لیا تو وہ اس میں شامل ہوگئے ۔
الیکشن 2002 انہوں نے مسلم لیگ ق کی ٹکٹ پر جیتا اور وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی اور وزیراعظم شوکت عزیز کی کابینہ میںوفاقی وزیر تجارت رہے۔ 2007میں نواز شریف کی وطن واپسی ہوئی تو ہمایوں اختر خان مسلم لیگ ق میں تھے ۔ الیکشن 2008سے پہلے مسلم لیگ ق ٹکڑوں میں بٹ گئی۔اور ایک نئی مسلم لیگ وجود میں آئی جو مسلم لیگ ہم خیال کہلائی۔ ہمایوں اختر خان اس پارٹی کے سیکرٹری جنرل تھے جبکہ صدر ارباب غلام رحیم تھے ۔ ارباب غلام رحیم نے الیکشن 2008میں مسلم لیگ ن کے اس وقت کے صدر محمد نواز شریف سے انتخابی معاہدہ کیا تاہم اس معاہدے کا المناک انجام ہوا۔ مسلم لیگ ہم خیال کے جن چوٹی کے لیڈروں کو مسلم لیگ ن نے اکاموڈیٹ نہیں کیا ان میں خود ارباب غلام رحیم نے سندھ میں جا کر مسلم لیگ ہم خیال کو دفن کر دیا اور پیپلزمسلم لیگ کے نام سے جماعت بنا کر الیکشن 2008میں حصہ لیا۔ہمایوں اختر خان پی ٹی آئی میں شامل ہونا چاہتے تھے ۔
عمران خان سے اسی دور میں ان کی چوری چھپے ایک دو میٹنگیں ہوئیں تاہم عمران خان نے اے پی ڈیم کے پلیٹ فارم سے الیکشن 2008کا بائیکاٹ کر دیا ۔ سو ہمایوں اختر خان بے چارے کٹی پتنگ بن گئے الیکشن 2013کے بعد ہمایوں اخترخان اپنے بھائی ہارون اختر خان سمیت مسلم لیگ ن میں دوبارہ شامل ہوگئے ۔ مسلم لیگ ن نے ہارون اختر خان کو سینیٹر بھی بناد یا۔ اور وزیراعظم نواز شریف کی معاشی ٹیم میں بھی شامل رہے لیکن ہمایوں اختر خان کو الیکشن 2018میں ٹکٹوں کی تقسیم کے موقع پر ایک مرتبہ پھر نواز شریف نے نظر انداز کر دیا۔ وہ ان کی بے وفائی معاف کرنے پر خود کو آمادہ نہ کر سکے ۔ہمایوں اختر خان نے بددل ہوکر گھر بیٹھنے کی بجائے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر لی اور این اے 131میں عمران خان کی انتخابی مہم چلانے میں پیش پیش رہے۔ اب ان کی اس خدمت کا صلہ ہے الیکشن 2002میں یہاں سے ایم این اے رہنے کی وجہ سے یا کسی اشارے پر بہرحال این اے 131کے ضمنی الیکشن میں انہیں پی ٹی آئی کاٹکٹ مل گیا ہے۔ ان کا مقابلہ مسلم لیگ ن کے ایک ایسے لیڈر خواجہ سعد رفیق کے ساتھ ہے جس نے اپنے والد خواجہ رفیق شہید کی ذوالفقار علی بھٹو حکومت کے کارپردازوں کے ہاتھوں شہادت کے بعد ایک طالب علم کی حیثیت سے سیاسی سفر شروع کیا۔ وہ نامو ر طالب علم لیڈر رہے۔ ایم ایس ایف کے جنرل سیکرٹری و صدر رہے ۔ یوتھ ونگ مسلم لیگ ن کے سیکرٹری جنرل بنائے گئے اور پھر مسلم لیگ ن کی پنجاب تنظیم میں جنرل سیکرٹری رہے ۔1999کی فوجی بغاوت ہوئی تو وہ مسلم لیگ ن پنجاب کے ایڈیشنل جنرل سیکرٹری جبکہ رانا نذیر احمد جنرل سیکرٹری اور سردار ذوالفقار علی کھوسہ صوبائی صدر تھے ۔رانا نذیر احمد کو مشرف کی نیب نے دھر لیا اور وہ طویل عرصہ جیل میں قید رہے ۔اسی دوران مشرف دورمیں مسلم لیگ ن کے دوبارہ انتخابات ہوئے تو خواجہ سعد رفیق جنرل سیکرٹری اور سردار ذوالفقار کھوسہ مسلسل دوسری مرتبہ صوبائی صدر منتخب ہوئے اس ٹیم نے مشرف آمریت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور الیکشن2002میں پارٹی کی صوبہ پنجاب میں قیادت کی ۔ خواجہ سعد رفیق لاہور میونسپل کارپوریشن کے کونسلر ، پنجاب اسمبلی اور قومی اسمبلی کے رکن رہے ۔2013کے الیکشن کے بعد وفاقی وزیر ریلوے بنائے گئے۔ ریلوے میں آزاد حلقے ان کی کارکردگی کو شاندار قرار دیتے ہیں ۔ مسلم لیگ ن نے انہیں ضمنی الیکشن میں بھی این اے 131سے میدان میں اتارا ہے اب ایک طرف ایک ممتاز صنعتکار، جرنیل زادہ پختہ سیاسی کارکن ہے اور دوسری طرف خواجہ سعد رفیق جیساکہنہ مشق سیاسی کارکن ہے ۔پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن کا ووٹ بنک مسلمہ حقیقت ہیں اب دیکھنایہ ہے کہ خواجہ سعد رفیق بازی جیت پاتے ہیں یا ہمایوں اختر خان میدان مار لیتے ہیں دونوں امیدوار ہی حلقہ این اے 131کے رہائشی ہیں ۔ دونوں کی سیاسی ٹیم موجود ہے تاہم خواجہ سعد رفیق کو ہمایوں اختر خان پر اس لحاظ سے نفسیاتی برتری حاصل ہے کہ وہ اس برس کے آغاز سے مسلسل حلقے کے ووٹروں سے رابطے میں ہیں ۔ اپنے ناراض ووٹروں کو منا چکے ہیں ۔ اینٹی اسٹیبلشمنٹ فضا بھی ان کے حق میں ہے نواز شریف کی عدالت سے رہائی کا بھی انہیں حقیقتاً فائدہ پہنچ سکتا ہے۔