ہرکہ آمد عمارت نو ساخت
ہر آنے والا حکمران نئی تعمیر شروع کردیتا ہے، ساتھ ہی ایک جملہ وردزبان ہوتا ہے سابقہ حکومت اتنی خرابیاں پیدا کرگئی ہے کہ اس ’’گند‘‘ کو صاف کرنے کیلئے پانچ سال کا عرصہ بہت قلیل ہے۔ گویا وہ دس سال تک حکومت کرنے کا خواہشمند ہوتا ہے پہلا حصہ بگاڑ ختم کرنے کیلئے اور دوسرا Tenure اپنے ایجنڈے کی تکمیل کیلئے۔ آمر اور جمہوری حکومتیں برسراقتدار آتے ہی یہ رٹا رٹایا جملہ بولنا شروع کردیتی ہیں۔ اب زیادہ دور کیا جانا ہے۔ پرویز مشرف کو شکایت تھی کہ’’ میاں نوازشریف معیشت کو کھوکھلا کرگیا ہے اور خزانہ خالی پڑا ہے۔‘‘ پیپلزپارٹی نے حکومت سنبھالتے ہی اسے موردالزام ٹھہرایا۔ نوازشریف حکومت نے گیلانی کو لتاڑا اور اب تحریک انصاف ایک قرطاس ابیض شائع کرنا چاہتی ہے جس میں سابقہ حکومت کی ’’بداعمالیوں ، اقرباپروری، لوٹ کھسوٹ اور شہ خرچیوں کو بے نقاب کیا جائے گا۔‘‘
اس محاورے سے جڑا ایک اور محاورہ بھی ہے۔ ’’خشت اول چوں نہد معمار کج تا ثریامی رود دیوار کج‘‘اگر پہلی اینٹ ٹیڑھی رکھی جائے تو آسمان کو چھوتی ہوئی عمارت بھی ٹیڑھی ہی رہے گی۔ذوالفقار علی بھٹو روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آئے۔ گویہ شبد ہم بابا بلھے شاہ کی زبانی سن چکے تھے۔ ’’بلی، جلی، گلی لیکن اس میں ایک بنیادی فرق تھا۔ بابا جی نے خدائے بزرگ و برتر سے لو لگائی ہوئی تھی۔ بھٹو کا ہاتھ اس کی مخلوق کی نبض پر تھا۔ یہ نعرہ اس وقت اس قدر مقبول ہوا کہ الیکشن میں بڑے بڑے برج الٹ گئے، کھمبے کو ٹکٹ ملا تو اس کے فیوز شدہ بلب جل اٹھے۔ ان دنوں پیپلزپارٹی کے وزیروں سے بڑے لطیفے سرزد ہوئے۔ ڈاکٹر حلیم رضا لائل پور کے کچہری بازار میں چورن بیچتے تھے ممبر صوبائی اسمبلی ہوگئے۔ کسی نے پوچھا ’آپ ایم بی بی ایس نہیں ہیں نام کے ساتھ ڈاکٹر کیوں لکھتے ہیں؟‘‘ اس پر وہ ترت بولے ’’علامہ اقبال کیوں لکھتا تھا، کیا وہ ایم بی بی ایس تھا؟‘‘ سیالکوٹ کے ایک وزیر کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ فائل پر کیا لکھے۔ پی اے نے کہا SEEN لکھ دیں اس نے خوش ہوکر ’’س‘‘ کا خوشنما لفظ لکھا دیا۔ وزیر جیل خانہ جات ملک حاکمین نے جوش خطابت میں اپنی کارکردگی کو خود ہی سراہتے ہوئے کہا ہم سارے ملک میں جیلوں کا جال بچھا دیں گے … بھٹو صاحب نے حکم دیا کہ کھلی کچہریاں لگائی جائیں۔ ڈپٹی کمشنر اور ایس پی باہر دھوپ میں کھڑے ہوکر عوامی شکایات کا ازالہ کریں۔ مکان تو نہ بن سکے ٹھنڈی باسی روٹی کے چند کارخانے بھی بند ہوگئے۔ چند شہروں میں نمائشی فلیٹ بنے جو ممبران اسمبلی نے اپنے گماشتوں کو الاٹ کردیئے۔ ستم ظریفی دیکھیں کہ وہ ڈپٹی کمشنر جس کی سروس کا NOMENCLATURE بدل دیا گیا تھا، اس کی سفارش پر اسمبلی کے ٹکٹ دیئے گئے بھٹو حکومت بالآخر ختم ہوگئی لیکن نوکرشاہی دندناتی رہی۔
کھلی کچہریوں کی رسم بھی اس دور میں شروع ہوئی۔ ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر مہینے میں دو بار دیگر افسران کے ساتھ ضلع کے مختلف مقامات پر اجلاس کرتے، مقصد یہ تھا کہ انصاف کو عوام کی دہلیز تک پہنچایا جائے۔ زیادہ تر شکایات محکمہ پولیس و مال کے خلاف ہوتیں۔ تھانیدار اور تحصیلدار کو پتہ ہوتا تھا کہ کون کون ان سے شاکی ہے یہ اس کے مخالفین کا پورا ٹولہ کچہری میں بٹھا دیتے۔ ادھر شکایت کنندہ صرف مدعا لب پر لاتا تو اس کے مخالفین اٹھ کر بیک زبان اس کا’’شجرہ نسب‘‘ بیان شروع کردیتے۔ اس غل غپاڑے میں فریاد کی لے دب جاتی۔ گویا اس تعمیر میں مضمر تھی’’ایک صورت خرابی کی‘‘… بھٹو صاحب نے واپڈا ہائوس لاہور کے آڈیٹوریم میں ایک یادگار کھلی کچہری منعقد کی۔ مقصد سننے سے زیادہ کچھ بتانا تھا۔ انہوں نے ٹرانسپورٹ کو قومیانے کا اعلان کیا، اس پر ٹرانسپورٹر حضرات کی طرف سے صدائے احتجاج بلند ہوئی۔ حاجی حیات، سیکرٹری ٹرانسپورٹ فیڈریشن نے اس کیخلاف کافی دلائل دیئے وہ ہر جملے کے بعد خوشامدانہ لہجے میں کہتا۔ قائدعوام تو جانتے ہی ہیں۔ قائد عوام کو اس امر کا بخوبی اندازہ ہے ’’جام جہاں نما ہے شہنشاہ کا ضمیر‘‘ بھٹو صاحب زیر لب مسکراتے ہوئے بولے ’’دیکھو! حاجی حیات! اگر تم مجھے فخر ایشیا کہو تب بھی میں نے اس کو قومیانے کا عزم صمیم کر رکھا ہے اور یہ آج کی بات نہیں ہے جب طالب علم تھا اور میں نے لاہور سے امرتسر تک نِندا بس سروس میں سفر کیا تھا، تب ہی میں نے ارادہ کر لیا تھا۔ محفل کشت زعفران بن گئی پھر بھی بوجہ ٹرانسپورٹ نیشنلائز نہ ہو سکی۔ احتجاج کی لہر’’ کو بہ کو، قریہ بہ قریہ‘‘ پھیل گئی۔ حکومت کو راج سنگھاسن ڈولتا ہوا نظر آیا تو مولانا کوثر نیازی نے انہیں وہ مشورہ دیا جو فلورنس کے پرنس کو عوامی احتجاج پر اس کے مشیر نے دیا تھا(Execute the Governer)چنانچہ وزیر ٹرانسپورٹ وٹو کو بہ یک بینی و دوگوش نکال باہر کردیا گیا۔ وہ چیختا رہا ’’ حضور میرا قصور؟ ‘‘مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے۔ چار سو حکومت کے حق میں داد و تحسین کے ڈونگرے برسنے لگے۔
ضیاء الحق نے ’’تکفیر کے چُھپے ہوئے کانٹوں‘‘ کے بالمقابل ’’تسبیح کے سجے ہوئے گلزار‘‘ لگانے کی کوشش کی۔ نظام مصطفی ؐ کی جو تحریک بھٹو کیخلاف شروع ہوئی تھی اس کو اپنا لیا۔ اس سلسلے میں ’’انگور و گلاب‘‘ پر پابندی عائد کردی گئی۔ حدود آرڈیننس نافذ کیا اور دینی مدارس کی نہ صرف حوصلہ افزائی بلکہ پرورش بھی کی۔ ایک خطیر رقم ہر سال انکو ملنے لگی۔ انکے ناقدین کہتے ہیں کہ چونکہ مقصد اپنے اقتدار کو طول دینا تھا، اس لئے اس پالیسی کی کوکھ سے دہشت گردی نے جنم لیا اور لسانیت کے کئی بت کھڑے ہو گئے۔ الطاف حسین بھی اسی دور کی پیداوار ہے۔
یحییٰ خان نے عمارت نو تو کیا ساخت کرنی تھی، پہلے سے کھڑی عمارت کو ہی گرا دیا۔ عادات و خصائل اور مفلوج سوچ کے اعتبار سے اسے محمد شاہ رنگیلا ثانی کہا جا سکتا ہے:
ایں دفتر بے معنی غرق مئے ناب اولیٰ
………………… (باقی آئندہ)