ہمیں بھارت کی ہر سازش کے مؤثر توڑ کیلئے ہمہ وقت تیار رہنا ہے
پاکستان کی سلامتی کیخلاف بھارتی گیدڑ بھبکیوں کے بعد اسکی آبی دہشت گردی کا آغاز
بھارت کی طرف سے پاکستان کے ساتھ وزراء خارجہ کی سطح پر دوطرفہ مذاکرات کے دروازے بند کئے جانے کے بعد اب آبی دہشت گردی کے ذریعے اسے سیلاب میں ڈبونے کی منصوبہ بندی پر عملدرآمد کا آغاز کردیا گیا ہے۔ گزشتہ روز بھارت کی جانب سے دریائے چناب اور دریائے جموں‘ توی میں پانی چھوڑنے کے باعث سیدپور کے مقام پر اونچے درجے کا اور دریائے چناب میں درمیانے درجے کا سیلاب ریکارڈ کیا گیا جس سے نواحی دیہات‘ نشیبی علاقوں اور زیرکاشت فصلوں کو سخت نقصان پہنچنے کا اندیشہ لاحق ہوگیا ہے۔ اسی طرح نالہ ڈیک میں بھی اونچے درجے کا سیلاب ہے جبکہ دوسرے تمام ملحقہ ندی نالوں میں بھی پانی کی سطح مسلسل بلند ہورہی ہے۔ گزشتہ روز بھارت کی جانب سے دریائے جموں میں ایک لاکھ 44 ہزار کیوسک پانی بغیر پیشگی اطلاع کے چھوڑا گیا جس کے باعث سیلاب کی کیفیت پیدا ہوئی۔ گزشتہ روز متعلقہ انتظامیہ کی جانب سے دریائوں اور ندی نالوں کے اطراف میں چھ سو دیہات کو الرٹ جاری کیا گیا جبکہ جموں‘ توی کے کنارے پر آباد 9 دیہات خالی کرالئے گئے۔ سیلاب کی آمد کے باعث بجوات کے 85 دیہات کا سیالکوٹ سے رابطہ منقطع ہونے اور ظفروال میں ہزاروں ایکڑ پر کھڑی دھان کی فصل برباد ہونے کا خدشہ لاحق ہوگیا ہے۔ حالیہ موسلادھار بارشوں کے باعث نارووال اور گردونواح میں بھی سیلاب کی کیفیت ہے اور شہر بھر کی سڑکیں اور گلیاں ندی نالوں کا منظر پیش کررہی ہیں۔ اسی طرح چناب نگر میں دریائے چناب بپھرا ہوا نظر آرہا ہے جہاں اونچے درجے کے سیلاب کی وارننگ جاری کی جاچکی ہے جبکہ ریسکیو 1122 کی جانب سے ضلع بھر میں مختلف مقامات پر فلڈ ریلیف سنٹر قائم کر دیئے گئے ہیں۔
سیلاب کی پیشگوئی کرنیوالے ادارے ایف ایف ڈی نے خبردار کیا ہے کہ بھارت کی جانب سے دریائے راوی اور ستلج میں پانی چھوڑے جانے کے باعث نارووال‘ لاہور اور سیالکوٹ کے اضلاع شدید متاثر ہو سکتے ہیں۔ وزیرآباد سے ہمارے نامہ نگار کے مطابق بھارت کی طرف سے دریائے چناب میں ساڑھے چار لاکھ کیوسک پانی چھوڑا گیا ہے جو بڑے سیلابی ریلے میں تبدیل ہوکر تباہ کاریوں کی نوبت لا سکتا ہے۔ واپڈا کی جانب سے گزشتہ روز دریائوں اور آبی ذخائر میں پانی کی صورتحال کے جو اعدادو شمار جاری کئے گئے اسکے مطابق دریائے سندھ میں تربیلا کے مقام پر پانی کا اخراج ایک لاکھ 30 ہزار کیوسک جبکہ دریائے جہلم میں منگلا کے مقام پر 30 ہزار کیوسک اور دریائے چناب میں مرالہ کے مقام پر 78600 کیوسک تھا۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق تربیلا اور چشمہ کے مقام پر دریائے سندھ‘ نوشہرہ کے مقام پر دریائے کابل اور منگلا کے مقام پر دریائے جہلم میں پانی کا بہائو بڑھ رہا ہے جو سیلاب میں تبدیل ہو کر ملحقہ علاقوں میں تباہ کاریوں کی نوبت لا سکتا ہے۔
یہ امر واقع ہے کہ بھارت ہمیں کسی بھی حوالے سے نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتا۔ اس نے قیام پاکستان کے بعد اسکی سالمیت کمزور کرنے کی نیت سے ہی کشمیر کو متنازعہ بنا کر اس کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہونے دیا اور اسکے بڑے اس حصے پر اپنا فوجی تسلط جمالیا جس کا مقصد کشمیر کے راستے پاکستان آنیوالے دریائوں کا پانی اپنے ہاتھ میں لے کر اسے پاکستان کو قحط سالی کا شکار کرنے اور مون سون کے دوران فالتو پانی پاکستان کی جانب چھوڑ کر اسے سیلاب میں ڈبونے کا تھا۔ وہ اپنی اس سازش میں قیام پاکستان سے اب تک کاربند ہے اور سالہا سال سے ہمیں سیلاب میں ڈبوتا چلاآرہا ہے جبکہ وہ پاکستان پر تین جنگیں مسلط کرکے بھی اسکی سالمیت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرچکا ہے اور پاکستان کو سانحہ سقوط ڈھاکہ سے دوچار بھی کرچکا ہے۔ اسے درحقیقت ایک آزاد اور خودمختار مملکت کی حیثیت سے پاکستان کا وجود گوارا نہیں کیونکہ پاکستان کی تشکیل سے ہندو لیڈران کے اکھنڈ بھارت کے خواب چکناچور ہوئے تھے جس کا انتقام وہ پاکستان کا خدانخواستہ وجود ہی مٹانے کی صورت میں لینا چاہتے ہیں۔ اس تناظر میں بھارت ہمارے لئے وہ سانپ بن چکا ہے جس نے ہمیں ڈنک مارنا ہی مارنا ہے۔ چنانچہ مذاکرات کی میز پر وہ نہ مسئلہ کشمیر حل کرنے پر آمادہ ہوگا اور نہ ہی پاکستان کے ساتھ آبی تنازعہ طے کی سیدھے سبھائو راہ پر آئیگا۔ اسکے برعکس بھارت کی موجودہ بی جے پی سرکار ہندو انتہاء پسندی پر مبنی اپنی سوچ کے تحت پاکستان پر یلغار کی ٹھانے بیٹھی ہے جس کیلئے بھارت نے اپنی ایٹمی ٹیکنالوجی میں اضافہ کرکے اور جدید ایٹمی و روایتی ہتھیاروں کے انبار لگا کر پاکستان پر ماضی کی طرح شب خون مارنے کی منصوبہ بندی کی ہوئی ہے جس کا بھارت کی سول اور عسکری قیادتوں کی جانب سے گاہے بگاہے اظہار بھی ہوتا رہتا ہے۔ چنانچہ مودی سرکار اپنی جنونیت میں کچھ بھی کر گزرنے کی نیت باندھے بیٹھی ہے چاہے اسکے نتیجہ میں پاکستان بھارت ایٹمی جنگ شروع ہونے سے پوری دنیا کی تباہی کی ہی کیوں نہ نوبت آجائے۔ اسی وجہ سے بھارت عقل و خرد سے عاری ہوچکا ہے جو پاکستان کے ساتھ امن و آشتی سے رہنے کی سوچ کا ساتھ دینے کے بجائے اپنی تخریب کاری کی سوچ پروان چڑھا رہا ہے اور حیلے بہانے سے پاکستان پر بے سروپا الزامات عائد کرکے اسکی جانب سے باہمی تنازعات کے حل کیلئے دوطرفہ مذاکرات کی ہر کوشش اور خواہش کو سبوتاژ کردیتا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے تو اقتدار سنبھالنے کے بعد دونوں ممالک اور اس خطے کی بہتری کے جذبے کے تحت ہی اپنے ہم منصب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے تہنیتی پیغام کا مثبت جواب دیا اور باہمی تنازعات بشمول مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے دوطرفہ مذاکرات کی خواہش کا اظہار کیا جبکہ انہوں نے یواین جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر نیویارک میں پاکستان بھارت وزرائے خارجہ کی باضابطہ ملاقات کی تجویز پیش کی تاکہ نتیجہ خیز مذاکرات کی راہ ہموار ہوسکے۔ امریکہ نے بھی وزیراعظم کے اس جذبے کی ستائش کی اور پاکستان بھارت مذاکرات کے بہتر نتائج برآمد ہونے کی توقع ظاہر کی۔ بھارت یقیناً امریکہ کو مطمئن کرنے کیلئے ہی نیویارک میں پاکستان کے ساتھ وزرائے خارجہ کی سطح پر مذاکرات پر آمادہ ہوا جس کے بعد مذاکرات کا شیڈول بھی طے ہوگیا مگر پھر یکایک مودی سرکار کی باسی کڑھی میں ابال آیا اور اس نے چند ہی گھنٹے بعد پاکستان پر بے سروپا الزام تراشی کرتے ہوئے متوقع مذاکرات کی حسب سابق بساط الٹادی۔ بھارت کا یہ طرزعمل یقیناً عالمی قیادتوں کے نوٹس میں آچکا ہوگا جو اس وقت یواین جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں شرکت کیلئے نیویارک میں موجود ہیں جبکہ اب بھارت نے مون سون کی بارشوں سے دریائوں کا پانی چڑھتے ہی پاکستان کی سالمیت کیخلاف اپنے سازشی ذہن کو بروئے کار لا کر فالتو پانی پاکستان کی جانب چھوڑنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے تاکہ اسے سیلاب کی تباہ کاریوں سے دوچار کیا جاسکے۔ وہ 1988ء اور 2012ء میں بھی ایسی ہی گھنائونی سازش کے تحت پاکستان کو سیلاب میں ڈبونے کی کوشش کرچکا ہے اور اب بھی اسکی نیت پاکستان کو سیلاب کی زیادہ سے زیادہ تباہ کاریوں کا شکار کرنے کی ہے۔
ہماری یہ بدقسمتی ہے کہ ہمارے حکمرانوں اور آبی ماہرین کی جانب سے بھارت کی آبی دہشت گردی کا توڑ کرنے کی آج تک ٹھوس منصوبہ بندی کی ہی نہیں گئی۔ اول تو پاکستان کی ڈیمز کی ضروریات ہی پوری نہیں کی گئیں نتیجتاً ہمیں توانائی کے بحران کا بھی شکار ہونا پڑا اور بھارت کو ہمیں سیلاب کی تباہ کاریوں سے دوچار کرنے کا بھی نادر موقع ملنے لگا جبکہ خود بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں ہمارے حصے کے دریائوں پر بھی چھوٹے بڑے ڈیمز کے انبار لگالئے اور ہمارے ایک کالاباغ ڈیم کے منصوبہ کو بھی یہاں موجود اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ متنازعہ بنوا دیا۔ اگر کالاباغ ڈیم بن چکا ہوتا تو وہ نہ صرف ہماری توانائی کی ضرورتیں پوری کررہا ہوتا بلکہ ہمیں سیلاب میں ڈبونے کی بھارتی سازشی منصوبہ بندی ناکام بنانے میں بھی معاون ہوتا جس کا کالاباغ ڈیم کے مخالفین کو بھی 2012ء میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے باعث احساس ہوگیاتھا۔ اسکے باوجود انہوں نے کالاباغ ڈیم کی مخالفت ترک نہیں کی جبکہ ہمارے سابق حکمرانوں کو دوسرے ڈیمز بنانے کی بھی نہ سوجھی چنانچہ آج نہ صرف توانائی کا سنگین بحران ہمارے درپے ہے بلکہ بھارتی آبی دہشت گردی کی بنیاد پر ہمیں سیلاب کی تباہ کاریوں کا بھی سامنا رہتا ہے۔ یہ صورتحال چیف جسٹس پاکستان کی تحریک پر بھاشا اور مہمند ڈیم کے شروع ہونیوالے منصوبہ کی تکمیل تک برقرار رہے گی اس لئے حکومت کو بھارتی عزائم اور نیت کو بھانپتے ہوئے ملک کی سلامتی کیخلاف اسکی ہر سازش کے مؤثر توڑ کی حکمت عملی طے کرنی چاہیے اور بالخصوص جنرل اسمبلی کے اجلاس میں عالمی قیادتوں کے روبرو بھارتی عزائم بے نقاب کرنے چاہئیں۔ ہمیں بہرصورت اپنی سلامتی کے تحفظ کے تمام ممکنہ اقدامات بروئے کار لانے ہیں اور اپنے مکار دشمن سے ہمہ وقت چوکنا رہنا ہے۔ اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھارتی گیدڑ بھبکیوں کا پہلے ہی مسکت جواب دے چکے ہیں تاہم یہ سانپ ڈنک مارنے کی عادت سے اس وقت تک باز نہیں آئیگا جب تک اسے اسی کے لہجے میں جواب نہیں دیا جاتا۔ پاکستان پر آبی دہشت گردی کی حالیہ بھارتی سازش اسے فوری اور ٹھوس جواب دینے کی ہی متقاضی ہے۔