جمعۃ المبارک ‘10؍ ذی الحج‘ 1436ھ ‘ 25 ؍ ستمبر2015ء
عمرکوٹ کی آسوبائی ملالہ کی زندگی پر بننے والے فلم کے پریمیر میں شرکت کیلئے امریکہ روانہ
سچ کہتے ہیں زمین کبھی بانجھ نہیں ہوتی، اسکے اندر کے سوتے کبھی خشک نہیں ہوتے۔ عمرکوٹ تھر کی روایتی داستان میں ’’عمر ماروی‘‘ میں ماروی کی وطن دوستی اسکے کردار کو امر کر گئی، آج ایک بار پھر اس سرزمین پر ایک معذور مگر باہمت نوجوان لڑکی نے ٹیچر بن کر علم کا وہ دیپ جلایا کہ لوگ اسے ’’تھر کی ملالہ‘‘ کہنے لگے۔ معذوری اسکے آڑے نہیں آئی، حالات کی تنگی نے اسے پریشان نہیں کیا۔
فنڈ، بجلی، کتابیں اور سکول کا نہ ہونا اسکے راہ کی رکاوٹ نہ بن سکے، اس نے صحرا میں علم کی برسات کر کے درجنوں بچوں اور بچیوں کو علم کی راہ پر لگا دیا۔
کھلے آسمان تلے موسموں کی شدت سے بے نیاز آسو بائی نے جب علم کی شمع جلائی تو اسکی روشنی ہزاروں میل دور دیار غیر میں چمکتی دیکھی گئی جہاں ملالہ کی زندگی پر بننے والی فلم کی تقریب رونمائی ہے۔ وہاں سے ملالہ نے آسوبائی کو تقریب میں شرکت کی دعوت دی، یوں ایک اور پاکستانی ستارہ شہرت کے آسمان پر چمکنے لگا۔ امریکہ میں آسوبائی امریکی صدر سے بھی ملاقات کرینگی۔
خدا کرے ہمارے ملک میں ایسے ان ہزاروں ستاروں کو بھی چمکنے کا موقع ملے جو ملالہ اور آسو کی طرح تعلیم، کھیل اور دیگر میدانوں میں اپنے جوہر دکھا رہے ہیں۔ کیا یہ بات ہماری ان این جی اوز اور محکمہ تعلیم والوں کیلئے شرم کا باعث نہیں جو کروڑوں اربوں روپوں کے فنڈز کھا کر بھی دور دراز علاقوں میں کچھ نہیں کر سکے جہاں ملالہ اور آسو جیسی کمزور بچیوں نے وہ کام کیا کہ آج دنیا دیکھ رہی ہے۔
٭…٭…٭…٭
80 لاکھ کی ادائیگی کے بعد قاسم ضیاء کی ضمانت منظور، رہائی مل گئی۔
این آر او کے بدنام زمانہ قانون کے بعد اب نیب نے ’’رضامندی‘‘ کے نام سے یہ نیا لین دین کا قانون متعارف کرایا ہے جس کا پہلا نمونہ قاسم ضیاء کی رہائی کے پروانے کی صورت میں سامنے آیا ہے۔
نیب جس کا کام لوٹی ہوئی دولت واپس خزانے میں جمع کرانا اور مجرموں کو سزا دلوانا تھا، وہ ابھی تک مشرف دور کے کچھ لو اور کچھ دو کے اصول کے تحت اربوں کھا لو اور لاکھوں ادا کر کے جان چھڑا لو کے فلسفے پر ہی عمل پیرا نظر آتا ہے۔ اول تو خود نیب کی اپنی ذات پر بے شمار سوالات اٹھتے ہیں، اسکی اپنی دیانت و صداقت پر کسی کو اعتماد نہیں۔ پھر بھی امید تھی کہ محکمہ لوٹ مار کرنے والوں کو پکڑ کر ان سے یہ لوٹی ہوئی دولت واپس نکلوائے گا مگر افسوس ایسا نہ ہوا بلکہ یہ ادارہ بارگیننگ کرنے والے ادارے کے طور پر شہرت اختیار کر گیا… وہ بھی نقصان پر۔
اب موجودہ حکمرانوں نے بڑے کروفر سے اسکا نیا چیئرمین جسے بنایا وہ اگرچہ غالب کی طرح شاہ کے مصاحب ہیں مگر انہوں نے بھی وہی پرانا کرپٹ طریقہ ہی رائج رکھا۔ البتہ ان کے چند اقدامات سے تو حکمران بھی…
ہم جسے اپنا چاند کہتے تھے
اس نے تارے دکھا دیئے ہم کو
کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اب قاسم ضیاء پر 8 کروڑ کی کرپش کا الزام ہے مگر نیب نے ’’رضامندی‘‘ فارمولے کے تحت 2 کروڑ 20 لاکھ روپے کی ریکوری کے عوض ان سے مک مکا کر لیا اور وہ پہلی قسط 80 لاکھ ادا کر کے ضمانت پر جیل سے باہر آ گئے۔
کیا نیب اسی کام کیلئے بنا تھا۔ یہ کام تو گلی محلے کا کوئی بھی کن ٹٹا چند ہزار روپے کے عوض کر سکتا تھا اور شاید 2 کروڑ کی بجائے قاسم ضیاء سے 6 کروڑ تک نکلوا لیتا! تو پھر یہ کروڑوں روپے کی تنخواہوں پر نیب کے بے بس اور لاچار ملازم کس کام کے۔ اس سے تو بہتر ہے کہ گوالمنڈی اور اندرون شہر سے چند نیک نام کن ٹٹے کرایہ پر حاصل کر کے انکے ذریعے بقایا جات کی ریکوری کرائی جائے جس طرح اب قسطوں پر اشیاء بیچنے والے کرتے ہیں اور سو فیصد ریکوری ہوتی ہے۔
٭…٭…٭…٭
لیسکو عید پر لوڈشیڈنگ نہیں کرے گی۔
اس اعلان سے لاہوریوں اور ان لوگوں نے سکون کا سانس لیا ہو گا جنہوں نے اپنے اپنے فریج اور ڈیپ فریزرز کو قربانی کے گوشت کا قبرستان بنانا ہے۔
قربانی کا فلسفہ تو یہ ہے کہ ان ایام میں غریب سے غریب مسلمان کے گھر بھی گوشت پکے اور وہ اسے کھائے… مگر ہمارے ہاں کہ ہر قسم کے لوگوں نے قربانی کے گوشت کو صرف ریفریجریٹرز اور ڈیپ فریزرز میں جمع کر کے اس صرف خود کھانے اور ماہ محرم تک اسے چلانے کے فلسفے کو جزو ایمان بنا لیا ہے اور سختی سے اس پر عمل پیرا ہیں۔
یوں اب غریب لوگ شاید ہی پیٹ بھر کر قربانی کا گوشت کھا پاتے ہیں البتہ امیر اور صاحب حیثیت لوگوں کے گھر قربانی کی رانیں، چانپیں، تکے اور کباب مہینوں چلتے ہیں۔ اب موسم بھی بہتر ہو رہا ہے تو یہ اعلان حکومتی مہربانی سے زیادہ قدرت کی مہربانی معلوم ہوتا ہے کیونکہ بجلی کی طلب عید کی چھٹیوں کے دوران صنعتی اور تجارتی مراکز بند ہونے کی وجہ سے بھی کم ہو جاتی ہے۔ اگر ہمارا پیارا واپڈا اور بجلی پیدا کرنے والے ادارے ایمانداری اور خلوص نیت سے کوشش کریں تو لگتا ہے وہ بجلی کی ترسیل کا نظام بہتر بنا سکتے ہیں مگر روایتی تساہل کی وجہ سے… جو ہماری قومی پہچان بن چکی ہے، وہ ایسا نہیں کرتے تاکہ عوام ہڈحرام، سست الوجود اور کاہل نہ ہو جائیں۔ لوڈشیڈنگ میں لاکھ برائیاں سہی مگر ایک بات تو یہ کہ اسکے ہاتھوں ہرانسان جاگتا، پنکھا جھلتا ہوا چست اور ہوشیار رہتا ہے… یہی زندہ قوموں کی علامت ہے… اور ہماری قوم کو دوسروں کی نسبت زندہ قوم بننے کی ضرورت زیادہ ہے!