کیا خلیجی مالدار عرب حکمران صدام حسین، بشار الاسد اور ان کے والد حافظ الاسد کی فاش ترین غلطیوں سے آج سبق سیکھیں گے؟ عبرت حاصل کریں گے یا انہی جیسی فاش ترین غلطیاں کریں گے؟ صدام حسین کی فاش غلطی کیا تھی؟ بھلا حافظ الاسد کی فاش غلطی کیا تھی؟ اور اب بشار الاسد کی فاش غلطی کیا ہے؟ اصول، ضابطہ اور قرینہ یہ ہے کہ ریاست میں حکمرانی کا حق اکثریتی عوامی رائے عامہ کو ہمرکاب کرنے کا نام ہے۔ بفرض محال اگر حکمران کو حالات نے مسند اقتدار پر تو فروکش کر دیا مگر عملاً وہ مذہبی سوچوں، سیاسی سوچوں، تہذیبی و قبائلی اور لسانی سوچوں کے جم غفیر کا نمائندہ نہیں تو اسے لازماً اپنے اقتدار میں ان سوچوں ، مطالبوں، تقاضوں اور فطری میلانات کو شامل کرنا ہوتا ہے کہ ریاست اور عوام کے مابین موجود حکمران متنازعہ نہ ہو۔ عوام اپنے حکمران سے مطمئن اور خوش ہوں اور خود کو حکومت کا حصہ سمجھیں۔ حافظ الاسد کو اقتدار محض فرانسیسی فیصلہ سازوں اورعلویوں کی دوستی کی بنا پر ملا تھا وہ اقلیت کا نمائندہ تھے جبکہ ان کے مخالفین اور اسے ناپسند کرنے والے اکثریت میں تھے۔ محض بندوق کے زور پر اور اپوزیشن کے جم غفیر (بیس ہزار افراد) کو کیمیائی ہتھیاروں سے مار دینے کے بعد وہ مطمئن ہو گئے۔ یہی غلطی بشار الاسد نے کی ہے انہیں چاہئے تھا کہ باپ کی غلطی سے رجوع کر کے مخالف مذہبی اعتقادات ، سیاسی نظریات، تہذبی مطالبات رکھنے والوں کو اپنے اقتدار کا حصہ بناتے۔ افسوس انہوں نے ایسا نہیں کیا ہے۔ اسی لئے آج وہ خود اور اپنے عوام کو شام نامی سرزمین کے جہنم میں جلا رہے ہیں۔ آج تو روس و چین کے دباﺅ پر ان پر امریکی حملہ رک گیا ہے مگر ان کے اقتدار کا مستقبل تو اب ڈانواں ڈول ہی رہے گا۔ یہ بات تو دیواروں پر لکھی ہوئی ہے۔ آج بھی اگر وہ اپوزیشن سے مفاہمت کر لیں اور علویوں اور سنیوں کی ”اجتماعی حکومت“ بنوا کر منظر سے ہٹ جائیں تو شام نئی زندگی پا سکتا ہے مگر شاید بشار الاسد یہ عقلمندی کبھی نہیں کر سکے گا کہ اسے روس کی مدد پر بہت ناز ہے اور وہ مشرق وسطیٰ میں شیعہ کریسنٹ طلوع کرنے کے خواہش مندوں کی مدد سے فیضیاب ہے۔
جو ہتھیار اس نے اسرائیل کےلئے بنائے تھے وہ سب اپنی عوام کے خلاف استعمال کرتا رہا ہے.... پاکستان میں جو حلقے یہ سوچ کر خوش ہو رہے ہیں کہ مشرقی وسطیٰ میں شیعہ کریسنٹ طلوع ہو رہی ہے (یہ بات نجی ٹی وی کے مباحثوں میں ہم نے کئی بار سنی ہے) انہیں معلوم نہیں کہ شاید شیعہ کریسنٹ تو کبھی بھی طلوع نہ ہو سکے گی البتہ گریٹر اسرائیل کے راستے ہموار ہو رہے ہیں اور مشرق وسطیٰ کے مذہبی و سیاسی ماحول کی ابتری سے سچ مچ گریٹر اسرائیل بن بھی سکتا ہے۔
صدام حسین کی فاش ترین غلطی یہ تھی کہ اس نے عراق کی شیعہ آبادی میں سے معتدل اور اتحاد بین المسلمین کا کردار ادا کر سکنے والوں کو بھی اقتدار میں جگہ نہ دی تھی ۔جونہی امریکہ و برطانیہ نے نیوکونز فلسفے کی روشنی میں اسرائیل کی حفاظت اور عراقی تیل پر قبضے کےلئے جنگ مسلط کی تو فوراً شیعہ علماء(آیت اللہ سیستانی ان کے رہنما تھا) نے امریکی حملے کو خوش آمدید کہا اور اس کے دست و بازو بن گئے ۔یوں صدام حسین کی خاندان سمیت موت اور اقتدار کی قبر کھودی گئی۔ اب یہی غلطی نور المالکی موجودہ عراق میں کر رہے ہیں۔ سنی سیاسی مخالفین کا انہوں نے ناطقہ بند کر دیا ہے۔ اسی وجہ سے شیعہ و سنی جنگ عراق کی سرزمین کو جلا رہی ہے۔ اگر صدام حسین اپنے وسیع اقتدار میں سے تھوڑا سا حصہ مخالفین کو دے دیتے جو کہ شیعہ تھے تو ان کی ایران سے مخاصمت کا بھی خاتمہ ہو سکتا تھا۔ طالبان نے افغانستان میں شیعہ آبادی کے ساتھ دوری اور نفرت اپنائی تھی لہٰذا جب امریکہ حملہ آور ہوا تو ایران نے بھارت کے ساتھ مل کر طالبان اقتدار کے خاتمے اور امریکی فتوحات کےلئے خاموش مگر بھرپور کردار ادا کیا تھا۔ کیا آج عقل مندی اور دور اندیشی کا راستہ ہمارے مالدار خلیجی عرب حکمران اپنا سکیں گے؟ اور اپنی اپنی ریاستوں میں وہ اتحاد بین المسلمین کےلئے اعتدال پسند شیعہ علماءکرام یا سیاستدانوں کو اقتدار کا حصہ بنا سکیں گے؟ آج بھی ایران میں سابق صدر ہاشمی رفسنجانی سعودی عرب سے دشمنی پر چلتے موجودہ ایرانی راستے کے سخت نقاد ہیں اور وہ بار بار کہہ چکے ہیں کہ ایران کی تنہائی اور معیشت کی بحالی کا راستہ صرف سعودی عرب سے نئی ایران دوستی میں مضمر ہے۔ وہ تو بشارالاسد کے مظالم کو بھی تسلیم کرتے ہیں۔ یہی بات ہم ایرانی ولایت فقیہہ کے فیصلے ساز جناب علی خامنہ ای کی خدمت میں پیش کریں گے کہ وہ عربستان کے معتوب بنائے گئے یمنی عربوں اور دیگر سنی اقلیت کو سیاسی عمل کا حصہ بنائیں اور اس تاثر کی نفی کریں کہ ایران صرف شیعہ کا ہے اور صرف شیعہ حکمران ہی ایران کےلئے ضروری ہے۔ ایرانی جو بھی ہیں وہ سب محب وطن ہی ہونگے یہی بات ہم خلیجی عرب ممالک اور ریاستوں سے بھی کہتے ہیں کہ وہ شیعہ و سنی جنگ و جدل کا راستہ چھوڑ دیں ۔ان کی یہ جنگ ان کے اقتدار کو غیر مقبول اور بہت کمزور بھی تو کر دے گی اور گریٹر اسرائیل کا جواز اور امکان پیدا ہو جائے گا۔ ہم عربوں کے بہت بڑے حامی ہیں اس لئے ہم انہیں مشورہ دے رہے ہیں۔ ایران کی مسلمہ حقیقت کے بھی معترف ہیں لہٰذا سب دور اندیش بن جائیں اور خود کو اور دوسروں کو تباہ ہونے سے بچا لیں اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت دے (آمین)
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024