بنیادی انسانی حقوق کی جدوجہد درحقیقت پیغمبرانہ کردارہے۔ شرط یہ ہے کہ لیڈر شپ میں صداقت اور امانت کی صفات ضرور موجود ہوں‘ اگر لیڈر شپ ان صفات سے محروم ہو تو سیاست عیاری بن جاتی ہے جس کے نتیجے میں ملک و قوم سیاسی دلدل میں اس بُری طرح پھنس جاتے ہیں کہ اس سے نکلنا مشکل ہو جاتا ہے۔
جتنی بھی الہامی کتابیں اور صحیفے رب العزت کی طرف سے مختلف زبانوں میں انبیا کرام پر نازل فرمائے گئے ان میں جو فکر غالب ہے وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار ، انیباءکرام کی نبوت پر ایمان اور انسانوں کے بنیادی حقوق کی بحالی کا ہے۔ اگر ان الہامی کتابوں اور صحیفوں کی زبانوں کی کوئی اہمیت ہوتی تو یہ زبانیں ہزاروں سال پہلے متروک نہ ہوتیں۔ سریانی اور عبرانی کسی خطہ میں تو بولی جا رہی ہوتیں۔ یہودیوں کو اپنی زبان عبرانی زندہ کرنے کی سرتوڑ کوششیں نہ کرنی پڑتیں۔
جہاں تک عربی زبان کا تعلق ہے یہ اعجاز عربی کا نہیںکہ وہ زندہ ہے یہ معجزہ بھی قرآن حکیم کا ہے بلکہ جس نے عربی زبان کو دوسری زبانوں کی طرح متروک نہیں ہونے دیا۔ قرآن حکیم کو محفوظ کر دیا گیا ہے اس میں تخفیف یا اضافے کی قدرت کسی کو حاصل نہیں ۔ یہ کروڑوں حفاظ کے سینوں میں محفوظ ہے۔ اگر عربی زبان کی کوئی اہمیت ہوتی تو اسلام صرف عرب تک محدود ہوتا۔ یہ فکر قرآن ہے جس نے صاف الفاظ میں یہ فرما دیا ہے کہ عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر ، گورے کو کالے پر اور کالے کو گورے پر کوئی فوقیت حاصل نہیں۔ تم میں سے افضل وہ ہے جو متقی اور پرہیز گار ہو چاہے وہ بدوی عورت سے کیوں نہ ہو۔ یہ ہے وہ فکر جس نے علاقائی ، نسلی اور لسانی تعصبات کو ختم کر کے فضیلت صرف کردار کو دےکر اسلام کو غیر متعصب عالمی مذہب بنا دیا۔ اتنی بڑی بحث و تمحیص کا مقصد یہ تھا کہ ثابت یہ کیا جائے کہ زبانیں صرف ذریعہ اظہار ہیں جن کا وجود ہی ناپائیدار ہو انکی سیاست کیونکر کی جا سکتی ہے۔
حضور اکرم سے بڑھ کر سیاست کون کر سکتا ہے۔ جب حضرور سرور کائنات کو کفار مکہ کے سرداروں نے آپکی رسالت کا اقرار اس شرط پر کرنے کو کہا کہ آپ نے جس طبقے کے لوگوں کو اپنے ساتھ رکھا ہوا ہے انہیں چھوڑ دیں۔ آپ کا ان کی شرط نہ ماننا سیاسی بصیرت کا اعلیٰ ترین ثبوت تھا کیونکہ آپ کی رسالت کا ایک مقصد غریبوں کے چھینے ہوئے بنیادی حقوق کی بحالی تھی۔
صلح حدیبیہ جو بظاہر مسلمانوں کےخلاف نظر آ رہی تھی مشرکین مکہ کے اصرار پر معاہدہ سے ”رسول اللہ“ کے الفاظ حذف کرائے گئے تھے اس پر کئی اصحابہ کرامؓ کو شدید رنج ہوا لیکن آپ نے موقع محل کی مناسبت کو مدنظر رکھتے ہوئے ”رسول اللہ“ کے الفاظ حذف کرا دئیے۔ یہ صلح حدیبیہ کا اعجاز ہے جس نے مسلمانوں کےلئے فتح مکہ کو یقینی بنا دیا۔ اسی طرح فتح مکہ کے موقع پر جو کافر معافی مانگیں انہیں معاف کرنے کا اعلان کیا جو انکی سیاسی بصیرت کا بہت بڑا ثبوت تھا۔ اس عمل سے مکہ مکرمہ میں ابدی امن قائم ہو گیا۔
حکیم الامت مصور پاکستان ڈاکٹر علامہ اقبال نے نہ صرف برصغیر کے مسلمانوں کےلئے علیحدہ وطن کا خواب دیکھا بلکہ مسلم اُمہ کی امامت کا فکر بھی عطا کیا۔ قائداعظم محمد علی جناح نے انکے خواب کو حقیقت میں بدلنے کےلئے دن رات ایک کر دیئے۔ اسکے برعکس صحت کا یہ عالم کہ انکے پارسی معالج نے 1942ءمیں انہیں بتا دیا کہ وہ ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہیں۔ قائد نے اپنے معالج کو اپنی بیماری کو صیغہ راز میں رکھنے کی تلقین کی۔ کتنے بڑے انسان اور کتنے بڑے لیڈر تھے وہ، بجائے آرام کرنے کے تحریک پاکستان کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کےلئے بیماری کو آڑے نہیں آنے دیا۔ شب و روز کی محنت سے وہ 14 اگست 1947ءکو پاکستان کو معرض وجود میں لانے میں کامیاب ہو گئے۔
کروڑوں مسلمان مہاجرین کی لرزہ خیز ہجرت جس میں لاکھوں مسلمان بزرگوں، خواتین اور بچوں کی شہادتیں، زخموں سے چور لاکھوں مہاجرین، لاکھوں مسلمان خواتین کی آبروریزی اور55 ہزار مسلم خواتین کے اغوا کے دکھوں کے باوجود آپ نے دن رات کی محنت کے معمول میں فرق نہ آنے دیا۔ اپنے معالج کے بے حد اصرار پر چند دنوں کےلئے صحت افزا مقام زیارت تشریف لے گئے۔ 11 ستمبر1948ءکو زیارت سے کراچی سفر کے دوران اس دارفانی سے رخصت ہو گئے۔ ٹکڑیوں میں تقسیم مسلمانوں کو قوم میں بدل کر پاکستان حاصل کر گئے۔ المیہ یہ ہے اسے کامیابی سے چلانے کےلئے قوم ایک لیڈر پیدا نہ کر سکی۔
ایک طرف قائداعظم جیسی عظیم قیادت جو پاکستان کو معرض وجود میںلائی۔ انکے بعد برسرا قتدار آنے والی قیادتوں کے کارہائے نمایاں کیا ہیں؟ نظریہ ضرورت کے تحت اسمبلیاں توڑتے اور غیر آئینی حکومتیںقائم کرتے رہے جس سے ملک دولخت ہو گیا۔ قائداعظم اس جہان فانی سے رخصت ہونے سے پہلے اپنے اثاثے اور جائیدادیں ملک و قوم کے نام کر گئے۔ انکے بعد آنےوالی قیادتوں کی اکثریت بینک بیلنس، زرمبادلہ ، کاروبار اور صنعتیں دیارِ غیر میں منتقل کرتے رہے۔ صرف حکمرانی کی غرض سے پاکستان آتے رہتے ہیں۔ بیوی بچوں کی شہریت بدل دی ہوئی ہے۔ قائداعظم انگلستان چھوڑ کر دو قومی نظریہ کے تحت حصول پاکستان کی سیاست کرنے برصغیر آ گئے انکے برعکس ایسے لیڈر بھی ہیں جنہوں نے شہریت انگلستان کی حاصل کر رکھی ہے سیاست پاکستان میں کرتے ہیں۔ انکے پاکستان چھوڑنے سے حالات میںکوئی فرق نہیں پڑا۔ بوری بند لاشیں، ٹارگٹ کلنگ، بم بلاسٹ ، بھتہ وصولی، اغوا برائے تاوان کی کارروائیاں بدستور جاری ہیں۔ البتہ ہتھوڑا گروپ کی فرسودہ کارروائیوں کی ضرورت نہیں رہی۔ قائداعظم تو طاقتور انگریز اور عیار ہندو کی قیادت کے غلبہ سے پاکستان کو آزاد کرا گئے انکے برعکس انکے جان نشینوں نے محض چند ٹکوں کے عوض ملک و قوم کو امریکہ کی غلامی میں دےدیا جس نے پہلے روس افغان جنگ میں پاکستان کو جھونک کر تحفے میں کلاشنکوف کلچر، ڈرگ مافیا، قبضہ گروپ اور اغوا برائے تاوان دیئے۔ نام نہاد دہشت گردی کےخلاف جنگ جو در اصل مسلمانوں کےخلاف لڑی جا رہی ہے پاکستان کو اس کا ایندھن بنا دیا ہے۔ پاکستانی فوج کو اپنی ہی سرزمین پر جنگ لڑنے پر مجبور کر دیا ہے ۔ ڈرون اور خودکش حملوں سے ہلاکتوں کا حساب نہیں۔ معیشت تباہ و برباد کر دی ہے۔ پاکستانی قوم کی بے حسی پر رب العزت کی ناراضگی کا اظہار زلزلوں، سیلابوں ہلاکت خیز بارشوں اور ڈینگی وائرس کی وبائی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ پاکستانی قوم اپنی بے حسی کی معافی اجتماعی طور پر مانگے۔ پاکستان جیسی نعمت جس میں دنیا بھر سے اونچی برف پوش چوٹیاں، آبشاریں بناتے ہوئے ندی ، نالے دریا اور حسین ترین جھیلیں، سبز سیاہی مائل گھنیرے جنگل، لاکھوں مربع میل پر سرسبز و شاداب میدان جن کی اجناس، پھل اور سبزیاں خوش ذائقہ اور خوشبو دار ، چار موسم، خوبصورت سنہری ریت سے مزین پھیلے ہوئے صحرا، سونے ، تانبے، یورینیم، نایاب پتھر، گیس اور کوئلے جیسی انرجی کے ذخائر کو سینوں میں چھپائے ہوئے پہاڑ، قدرتی بندرگاہیں کون کون سی نعمتیں ہیں جنہیں جھٹلایا جا سکتا ہے؟ دنیا کا ایک منفرد خطہ ارض جس میں رب العزت کی کمال فیاضیوں کے مظاہرے پھیلے ہوئے ہیں۔ اے ہم وطنو اگر بے حسی چھوڑ کر اس کی حفاظت کے فرائض ہم ادا نہیں کریں گے تو مزید عذاب الٰہی سے ہم بچ نہیں سکیں گے۔ یہ عذاب قوم کو جگانے آئے ہیں۔ قادر مطلق سے اجتماعی معافی مانگتے ہوئے قوم حق اور سچ کا ساتھ دے۔ جبر، ظلم، زیادتی اور ناانصافیوں کےخلاف سیسہ پلائی دیوار کی مانند کھڑی ہو جائے۔ رب العزت ہمیں معاف کر سکتے ہیں۔ ورنہ نعمتوںکو ٹھکرانے والوںکی ذلت و خواری اور بربادی سے بھری داستانیں تاریخ عالم کے اوراق میں آج بھی پڑھی جا سکتی ہیں۔
ہم سب کا فرض ہے کہ سب سے پہلے حالیہ بارشوں سے تباہ حال بہنوں، بھائیوں، بزرگوں اور معصوم بچوں کی دل کھول کر مدد کریں۔ اس مصیبت کی گھڑی میں اپنے ہم وطن بھائیوں کی دل کھول کر مدد کی جائے۔ آگے بڑھیں اور مدد کرنے میں دیر نہ کریں۔ یہ ملک مسلم اُمہ کی امامت کےلئے معرض وجود میں آیا تھا۔ امریکہ کی غلامی کےلئے نہیں۔ ہمارے نہتے بزرگوں نے پاکستان کو معرض وجود میں لا کر دکھا دیا۔ آپکے ہاتھوں میں تو ایٹم بم ہیں۔ آپ پاکستان کو ٹیڑھی نگاہوں سے دیکھنے والوں کی آنکھیں پھوڑ سکتے ہیں۔ پاکستان زندہ باد پاکستان پائندہ باد!
جتنی بھی الہامی کتابیں اور صحیفے رب العزت کی طرف سے مختلف زبانوں میں انبیا کرام پر نازل فرمائے گئے ان میں جو فکر غالب ہے وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار ، انیباءکرام کی نبوت پر ایمان اور انسانوں کے بنیادی حقوق کی بحالی کا ہے۔ اگر ان الہامی کتابوں اور صحیفوں کی زبانوں کی کوئی اہمیت ہوتی تو یہ زبانیں ہزاروں سال پہلے متروک نہ ہوتیں۔ سریانی اور عبرانی کسی خطہ میں تو بولی جا رہی ہوتیں۔ یہودیوں کو اپنی زبان عبرانی زندہ کرنے کی سرتوڑ کوششیں نہ کرنی پڑتیں۔
جہاں تک عربی زبان کا تعلق ہے یہ اعجاز عربی کا نہیںکہ وہ زندہ ہے یہ معجزہ بھی قرآن حکیم کا ہے بلکہ جس نے عربی زبان کو دوسری زبانوں کی طرح متروک نہیں ہونے دیا۔ قرآن حکیم کو محفوظ کر دیا گیا ہے اس میں تخفیف یا اضافے کی قدرت کسی کو حاصل نہیں ۔ یہ کروڑوں حفاظ کے سینوں میں محفوظ ہے۔ اگر عربی زبان کی کوئی اہمیت ہوتی تو اسلام صرف عرب تک محدود ہوتا۔ یہ فکر قرآن ہے جس نے صاف الفاظ میں یہ فرما دیا ہے کہ عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر ، گورے کو کالے پر اور کالے کو گورے پر کوئی فوقیت حاصل نہیں۔ تم میں سے افضل وہ ہے جو متقی اور پرہیز گار ہو چاہے وہ بدوی عورت سے کیوں نہ ہو۔ یہ ہے وہ فکر جس نے علاقائی ، نسلی اور لسانی تعصبات کو ختم کر کے فضیلت صرف کردار کو دےکر اسلام کو غیر متعصب عالمی مذہب بنا دیا۔ اتنی بڑی بحث و تمحیص کا مقصد یہ تھا کہ ثابت یہ کیا جائے کہ زبانیں صرف ذریعہ اظہار ہیں جن کا وجود ہی ناپائیدار ہو انکی سیاست کیونکر کی جا سکتی ہے۔
حضور اکرم سے بڑھ کر سیاست کون کر سکتا ہے۔ جب حضرور سرور کائنات کو کفار مکہ کے سرداروں نے آپکی رسالت کا اقرار اس شرط پر کرنے کو کہا کہ آپ نے جس طبقے کے لوگوں کو اپنے ساتھ رکھا ہوا ہے انہیں چھوڑ دیں۔ آپ کا ان کی شرط نہ ماننا سیاسی بصیرت کا اعلیٰ ترین ثبوت تھا کیونکہ آپ کی رسالت کا ایک مقصد غریبوں کے چھینے ہوئے بنیادی حقوق کی بحالی تھی۔
صلح حدیبیہ جو بظاہر مسلمانوں کےخلاف نظر آ رہی تھی مشرکین مکہ کے اصرار پر معاہدہ سے ”رسول اللہ“ کے الفاظ حذف کرائے گئے تھے اس پر کئی اصحابہ کرامؓ کو شدید رنج ہوا لیکن آپ نے موقع محل کی مناسبت کو مدنظر رکھتے ہوئے ”رسول اللہ“ کے الفاظ حذف کرا دئیے۔ یہ صلح حدیبیہ کا اعجاز ہے جس نے مسلمانوں کےلئے فتح مکہ کو یقینی بنا دیا۔ اسی طرح فتح مکہ کے موقع پر جو کافر معافی مانگیں انہیں معاف کرنے کا اعلان کیا جو انکی سیاسی بصیرت کا بہت بڑا ثبوت تھا۔ اس عمل سے مکہ مکرمہ میں ابدی امن قائم ہو گیا۔
حکیم الامت مصور پاکستان ڈاکٹر علامہ اقبال نے نہ صرف برصغیر کے مسلمانوں کےلئے علیحدہ وطن کا خواب دیکھا بلکہ مسلم اُمہ کی امامت کا فکر بھی عطا کیا۔ قائداعظم محمد علی جناح نے انکے خواب کو حقیقت میں بدلنے کےلئے دن رات ایک کر دیئے۔ اسکے برعکس صحت کا یہ عالم کہ انکے پارسی معالج نے 1942ءمیں انہیں بتا دیا کہ وہ ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہیں۔ قائد نے اپنے معالج کو اپنی بیماری کو صیغہ راز میں رکھنے کی تلقین کی۔ کتنے بڑے انسان اور کتنے بڑے لیڈر تھے وہ، بجائے آرام کرنے کے تحریک پاکستان کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کےلئے بیماری کو آڑے نہیں آنے دیا۔ شب و روز کی محنت سے وہ 14 اگست 1947ءکو پاکستان کو معرض وجود میں لانے میں کامیاب ہو گئے۔
کروڑوں مسلمان مہاجرین کی لرزہ خیز ہجرت جس میں لاکھوں مسلمان بزرگوں، خواتین اور بچوں کی شہادتیں، زخموں سے چور لاکھوں مہاجرین، لاکھوں مسلمان خواتین کی آبروریزی اور55 ہزار مسلم خواتین کے اغوا کے دکھوں کے باوجود آپ نے دن رات کی محنت کے معمول میں فرق نہ آنے دیا۔ اپنے معالج کے بے حد اصرار پر چند دنوں کےلئے صحت افزا مقام زیارت تشریف لے گئے۔ 11 ستمبر1948ءکو زیارت سے کراچی سفر کے دوران اس دارفانی سے رخصت ہو گئے۔ ٹکڑیوں میں تقسیم مسلمانوں کو قوم میں بدل کر پاکستان حاصل کر گئے۔ المیہ یہ ہے اسے کامیابی سے چلانے کےلئے قوم ایک لیڈر پیدا نہ کر سکی۔
ایک طرف قائداعظم جیسی عظیم قیادت جو پاکستان کو معرض وجود میںلائی۔ انکے بعد برسرا قتدار آنے والی قیادتوں کے کارہائے نمایاں کیا ہیں؟ نظریہ ضرورت کے تحت اسمبلیاں توڑتے اور غیر آئینی حکومتیںقائم کرتے رہے جس سے ملک دولخت ہو گیا۔ قائداعظم اس جہان فانی سے رخصت ہونے سے پہلے اپنے اثاثے اور جائیدادیں ملک و قوم کے نام کر گئے۔ انکے بعد آنےوالی قیادتوں کی اکثریت بینک بیلنس، زرمبادلہ ، کاروبار اور صنعتیں دیارِ غیر میں منتقل کرتے رہے۔ صرف حکمرانی کی غرض سے پاکستان آتے رہتے ہیں۔ بیوی بچوں کی شہریت بدل دی ہوئی ہے۔ قائداعظم انگلستان چھوڑ کر دو قومی نظریہ کے تحت حصول پاکستان کی سیاست کرنے برصغیر آ گئے انکے برعکس ایسے لیڈر بھی ہیں جنہوں نے شہریت انگلستان کی حاصل کر رکھی ہے سیاست پاکستان میں کرتے ہیں۔ انکے پاکستان چھوڑنے سے حالات میںکوئی فرق نہیں پڑا۔ بوری بند لاشیں، ٹارگٹ کلنگ، بم بلاسٹ ، بھتہ وصولی، اغوا برائے تاوان کی کارروائیاں بدستور جاری ہیں۔ البتہ ہتھوڑا گروپ کی فرسودہ کارروائیوں کی ضرورت نہیں رہی۔ قائداعظم تو طاقتور انگریز اور عیار ہندو کی قیادت کے غلبہ سے پاکستان کو آزاد کرا گئے انکے برعکس انکے جان نشینوں نے محض چند ٹکوں کے عوض ملک و قوم کو امریکہ کی غلامی میں دےدیا جس نے پہلے روس افغان جنگ میں پاکستان کو جھونک کر تحفے میں کلاشنکوف کلچر، ڈرگ مافیا، قبضہ گروپ اور اغوا برائے تاوان دیئے۔ نام نہاد دہشت گردی کےخلاف جنگ جو در اصل مسلمانوں کےخلاف لڑی جا رہی ہے پاکستان کو اس کا ایندھن بنا دیا ہے۔ پاکستانی فوج کو اپنی ہی سرزمین پر جنگ لڑنے پر مجبور کر دیا ہے ۔ ڈرون اور خودکش حملوں سے ہلاکتوں کا حساب نہیں۔ معیشت تباہ و برباد کر دی ہے۔ پاکستانی قوم کی بے حسی پر رب العزت کی ناراضگی کا اظہار زلزلوں، سیلابوں ہلاکت خیز بارشوں اور ڈینگی وائرس کی وبائی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ پاکستانی قوم اپنی بے حسی کی معافی اجتماعی طور پر مانگے۔ پاکستان جیسی نعمت جس میں دنیا بھر سے اونچی برف پوش چوٹیاں، آبشاریں بناتے ہوئے ندی ، نالے دریا اور حسین ترین جھیلیں، سبز سیاہی مائل گھنیرے جنگل، لاکھوں مربع میل پر سرسبز و شاداب میدان جن کی اجناس، پھل اور سبزیاں خوش ذائقہ اور خوشبو دار ، چار موسم، خوبصورت سنہری ریت سے مزین پھیلے ہوئے صحرا، سونے ، تانبے، یورینیم، نایاب پتھر، گیس اور کوئلے جیسی انرجی کے ذخائر کو سینوں میں چھپائے ہوئے پہاڑ، قدرتی بندرگاہیں کون کون سی نعمتیں ہیں جنہیں جھٹلایا جا سکتا ہے؟ دنیا کا ایک منفرد خطہ ارض جس میں رب العزت کی کمال فیاضیوں کے مظاہرے پھیلے ہوئے ہیں۔ اے ہم وطنو اگر بے حسی چھوڑ کر اس کی حفاظت کے فرائض ہم ادا نہیں کریں گے تو مزید عذاب الٰہی سے ہم بچ نہیں سکیں گے۔ یہ عذاب قوم کو جگانے آئے ہیں۔ قادر مطلق سے اجتماعی معافی مانگتے ہوئے قوم حق اور سچ کا ساتھ دے۔ جبر، ظلم، زیادتی اور ناانصافیوں کےخلاف سیسہ پلائی دیوار کی مانند کھڑی ہو جائے۔ رب العزت ہمیں معاف کر سکتے ہیں۔ ورنہ نعمتوںکو ٹھکرانے والوںکی ذلت و خواری اور بربادی سے بھری داستانیں تاریخ عالم کے اوراق میں آج بھی پڑھی جا سکتی ہیں۔
ہم سب کا فرض ہے کہ سب سے پہلے حالیہ بارشوں سے تباہ حال بہنوں، بھائیوں، بزرگوں اور معصوم بچوں کی دل کھول کر مدد کریں۔ اس مصیبت کی گھڑی میں اپنے ہم وطن بھائیوں کی دل کھول کر مدد کی جائے۔ آگے بڑھیں اور مدد کرنے میں دیر نہ کریں۔ یہ ملک مسلم اُمہ کی امامت کےلئے معرض وجود میں آیا تھا۔ امریکہ کی غلامی کےلئے نہیں۔ ہمارے نہتے بزرگوں نے پاکستان کو معرض وجود میں لا کر دکھا دیا۔ آپکے ہاتھوں میں تو ایٹم بم ہیں۔ آپ پاکستان کو ٹیڑھی نگاہوں سے دیکھنے والوں کی آنکھیں پھوڑ سکتے ہیں۔ پاکستان زندہ باد پاکستان پائندہ باد!