پارلیمنٹ چاہے تو صدر کا استثنی واپس لے سکتی ہے : گیلانی ‘ فیصلہ سپریم کورٹ نے کرنا ہے : نوازشریف‘ وزیراعظم سمجھدار ہیں‘ انہیں عدالتی فیصلے پر عمل نہ کرنیکے نتائج کا علم ہونا چاہئے : چیف جسٹس
اسلام آباد (وقائع نگار + نمائندہ خصوصی + آن لائن + ریڈیو نیوز + وقت نیوز + نیٹ نیوز) وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ صدر آصف علی زرداری کو آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت تحفظ حاصل ہے اور وہ پارلیمنٹ کا حصہ ہیں اگر پارلیمنٹ ان سے یہ استثنیٰ واپس لینا چاہتی ہے تو آئین میں ترمیم کرکے واپس لے سکتی ہے ۔ ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا ۔ مخالفت کرنے والے دس سال کیلئے آنے والوں کو تو برداشت کرسکتے ہیں لیکن منتخب نمائندوں کو برداشت نہیں کرسکتے اب انہیں منتخب نمائندوں کو بھی برداشت کرنا سیکھنا ہوگا۔ این آر او سے فائدہ اٹھانے والے بیوروکریٹس اور سرکاری عہدے رکھنے و الے رضاکارانہ طور پر مستعفی ہو جائیں ورنہ ہم ایکشن لینگے ، آمریت نے ہمیشہ ملک کو مسائل کی طرف دھکیلا ہے ، ملک کو ایٹمی قوت، آئین اور ملک کو بنانے والے سیاستدان ہی ہیں، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے حکومت نے ہر فورم استعمال کیا ہے وہ قوم کی بیٹی ہے ، امریکی عدالت کی جانب سے عافیہ صدیقی کو سنائی جانی والی سزا پر امریکہ کیخلاف پاکستان سمیت دنیا بھر میں نفرت ابھرے گی ، حکومت عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے سفارتی ذرائع کے ساتھ سیاسی ذرائع بھی استعمال کریگی ، حکومت نے گریڈ 22 میں افسروں کی تقرری کیلئے نئے قواعد وضوابط تشکیل دے دیئے ہیں، گریڈ22 میں ترقی پانے والے افسر کیلئے پچیس سال سروس اور گریڈ 21 میں دو سال سروس اور اچھی کارکردگی کی رپورٹ ضروری ہے۔ سینٹ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عافیہ صدیقی کی رہائی کا معاملہ ہم نے ہر سطح پر اٹھایا حکومت نے بیس لاکھ ڈالر فیس ادا کر کے ان کیلئے وکیل مقرر کئے قوم کی بیٹی کو رہا کرنے کیلئے ہم ہر فورم استعمال کرینگے ہم نے امریکہ کو باور کرایا ہے کہ اگر عافیہ کو رہا کر دیں تو پاکستان میں آپ کی پذیرائی ہوگی میں نے وزیر داخلہ کو ہدایت کی ہے کہ امریکہ کے ساتھ اگر قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ ہے تو اس کے تحت بھی وہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے اقدامات کریں‘ ہم اس معاہدے کو قومی مفاد پر حاوی نہیں ہونے دینگے‘ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے سفارتی ذرائع کے ساتھ ساتھ اب سیاسی ذرائع بھی استعمال کرینگے ، سعودی عرب سے چند ماہ قبل منشیات کیس میں پکڑے جانے والے پاکستانیوں کو سفارتی ذرائع کے ساتھ ساتھ سیاسی ذرائع استعمال کرتے ہوئے رہا کرایا تھا ہم چاہتے ہیں کہ عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے بھی وہ ذرائع استعمال کئے جائیں۔ میں نے گذشتہ دنوں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے این آر او سے فائدہ اٹھانے والے تمام بیورو کریٹس کی فہرست طلب کی تھی‘ بیوروکریسی کا تحفظ بھی ہم نے ہی کرنا ہے بیورو کریسی کی ترقی کیلئے سینٹرل سلیکشن بورڈ موجود ہے اور ان کی سفارش پر ہی بیورو کریٹس کو اگلے گریڈ میں ترقی دی جاتی ہے۔ میں نے بیورو کریٹس گریڈ اکیس بائیس میں ترقی کیلئے قواعد و ضوابط میں ترمیم کی ہے جس کے تحت گریڈ اکیس سے بائیس کیلئے ترقی کیلئے سروس کا معیار پچیس سال اور اس میں بطور افسر گریڈ اکیس میں دو سال کام کیا ہو اور اس کی کارکردگی کی اچھی رپورٹ پر اسے گریڈ اکیس سے بائیس میں ترقی دی جائیگی۔ ہمارے بنائے ہوئے رولز کو بعد میں آنے والوں کو بھی تسلیم کرنا ہو گا۔ ہم عدالتوں کے فیصلوں کو تسلیم کرینگے ہم نے پہلے بھی عدالتوں کے فیصلوں کو تسلیم کیا ہے اور آ ئندہ بھی کرینگے اگر کسی کو کوئی شکایت ہے تو وہ عدالت میں جا سکتا ہے۔ صدر مملکت مسلح افواج کے سپریم کمانڈر ہیں پارلیمنٹ کے 442 ارکان نے انہیں صدر منتخب کیا وہ پارلیمنٹ کاحصہ ہیں ، پارلیمنٹرین کی ذمہ داری ہے کہ وہ پارلیمنٹ کی عزت کرائیں۔ وہ جب تک صدر کے منصب پر فائز ہیں ان کیخلاف بیرون ملک اور اندرون ملک مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔ میڈیا ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا کردار ادا کرے‘ تبدیلی کی افواہیں بند ہو چکی ہیں حکومت کو پانچ سال کیلئے منتخب کیا گیا ہے اور پانچ سال بعد ہی ہم سے حساب مانگا جائے۔ انہوں نے کہا کہ منتخب نمائندوں کے خلاف یہ تاثر پیدا کیا جا رہا ہے کہ وہ چور ہیں ملک میں ماحول بنا دیا گیا ہے کہ منتخب ہو کر آنے والے حکومت چلانے کے قابل نہیں۔ حکومت عدالت عظمیٰ کے فیصلوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور ان پر عملدرآمد کرا رہی ہے۔ حکومت نے ڈائریکٹر جج کو فوری طور پر واپس بلا لیا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے حکم پر وفاقی سیکرٹریز کی ترقیوں کے لئے قوانین بنا دئیے گئے ہیں‘ کامران لاشاری کو چیف سیکرٹری سندھ کے عہدے سے ہٹا کر او ایس ڈی بنا دیا گیا ہے۔ ان کے مقدمے کا فیصلہ ہونے تک انہیں مزید کوئی ذمہ داری نہیں دی جائے گی۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا کیس 2003ءکا ہے‘ یہ ہمیں بھی نہیں معلوم کہ انہیں کراچی یا افغانستان کس جگہ سے گرفتار کیا گیا‘ ان کی والدہ اور ہمشیرہ سے میری کئی ملاقاتیں ہوئی ہیں‘ پاکستانی سفیر حسین حقانی‘ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی‘ وزیر داخلہ رحمن ملک‘ پاکستان آنے والے امریکی وفود سے بھی اس معاملے پر بات کرتا رہا ہوں‘ یہ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔ ہم نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا مقدمہ لڑنے کے لئے بھاری رقم فراہم کی اور ان کی رہائی کے لئے ہرممکن کوششیں کیں۔ ہم نے امریکہ سے کہا کہ اگر آپ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو رہا کر دیں تو آپ کی پذیرائی بڑھ جائے گی۔ کل کے فیصلے کے بعد میں نے وزیر داخلہ سے بات کی ہے۔ قومی مفاد کو مدنظر رکھ کر اس طرح کا معاہدہ کیا جائے گا۔ ہم نے اپنی طرف سے ڈاکٹر عافیہ کے کیس میں کوئی کمی نہیں چھوڑی ہم چاہتے ہیں کہ قوم کی بیٹی واپس آ جائے۔ جنرل مشرف نے چار عہدے اپنے پاس رکھے تھے قواعد کے تحت ایسی کوئی قدغن نہیں کہ چیف ایگزیکٹو مرضی کے سیکرٹریز نہیں لگا سکتا۔ میرے دور میں سنٹرل سلیکشن بورڈ کے دو اجلاس ہوئے اور کوئی دبا¶ برداشت نہیں کیا اور جو بھی سفارشات آئیں ان کی منظوری دے دی گئی۔ ایک ”درآمدی“ وزیراعظم نے اپنے بھائی کو ایڈجسٹ کرنے کے لئے رولز تبدیل کر دئیے تھے جب بعد میں میاں نوازشریف وزیراعظم بنے تو انہوں نے یہ رولز تبدیل کئے۔ اس ملک کو ایٹمی قوت بنایا تو سیاستانوں نے بنایا‘ دہشت گردی کے خلاف جنگ بھی سیاستدانوں نے کی‘ کس آمر نے یہ کام کیا ہے‘ ہم تمام اداروں کا احترام کرتے ہیں۔دریں اثناءوزیراعظم گیلانی نے نیشنل اوور سائٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ کونسل کو مکمل حمایت کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا ہے کہ کونسل پر قوم کی طرف سے جو ذمہ داری تفویض کی گئی ہے اس کی ادائیگی میں مکمل تعاون کیا جائیگا کونسل کا پہلا اجلاس گذشتہ روز ہوا جس سے وزیراعظم نے بھی خطاب کیا بعد میں کونسل کے ارکان نے وزیراعظم سے ملاقات بھی کی۔ وزیراعظم نے کونسل کے ارکان سے کہا کہ ادارے کے کام کے لئے واضح طریقہ ہائے کار وضع کئے جائیں وزیراعظم نے کہا کہ سکولوں میں موجود متاثرین کیلئے ریلیف کیمپ بنائے جائیں۔ انہوں نے وزیر خوراک و زراعت اور سیکرٹری خزانہ کو ہدایت کی کہ کونسل کو متاثرین کی امداد کے حوالے سے بریفنگ دی جائے۔ کونسل کے سربراہ یو اے جی عیسانی نے کہا کہ کونسل کے تمام ارکان نے اعزازی بنیاد پر کام کرنے کا فیصلہ کیا ہے وزیر خزانہ نے اجلاس میں بتایا کہ سی سی آئی کے فیصلہ کی روشنی میں بیس ہزار روپے فی خاندان ادائیگی کے لئے بارہ بلین روپے جاری کر دیئے گئے ہیں۔ وزیر قانون و انصاف نے کہا کہ کونسل کے سامنے کام بڑا ہے تاہم توقع ہے کہ کونسل توقعات کو پورا کرے گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کو بدترین قدرتی آفت کا سامنا ہوا۔ وفاق اور صوبائی حکومتیں سول سوسائٹی اور عوام متاثرین کی مدد کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اکتوبر کے وسط تک نقصانات کا تخمینہ لگ جائے گا۔
اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک+ایجنسیاں) وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ماضی میں عدالتی قتل سے نقصان اٹھانے کی وجہ سے پیپلز پارٹی عدلیہ کے بارے میں محتاط ہے، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے کیس میں عدالتی جنگ ہار چکے ہیں، اب سفارتی اور سیاسی و قانونی سطوحات پر کوششیں کی جائیں گی۔ نجی ٹی وی سے انٹرویو میں وزیراعظم گیلانی نے کہا کہ اٹارنی جنرل کو ہدایت کی ہے کہ این آر او کیسز پر کام کی رفتار کو تیز کیا جائے، ججوں کے دوران سماعت مشاہدے کو اخبارات میں نہیں آنا چاہئے بلکہ فیصلے شائع ہونے چاہئیں۔ کچھ لوگ ججوں کے مشاہدات سے دکانداری چلا رہے ہیں۔ اس وقت ہم جنگ کے وسط میں ہیں، فوج کو مستحکم کرنا ضروری ہوگا۔ دفاعی بجٹ اسوقت ملکی سالمیت کیلئے ضروری ہے، ممبئی حملوں کے بعد مسئلہ کشمیر پس پشت چلا گیا، مائنس ون اورمائنس ٹو کی باتیں کرنیوالے ناکام ہو چکے ہیں، اب مائنس آل کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ ملک میں آنیوالا سیلاب بدترین تھا اور اسکے نتیجہ میں انتہائی بڑے پیمانے پر تباہی اور معاشی نقصان ہوا، حکومت اس پر قابو پانے کیلئے کوششیں کر رہی ہے۔میری گزشتہ روز صدر زرداری سے ملاقات ہوئی، ملاقات کے دوران وفاقی وزراءکی تعداد میں کمی پر غور کیا گیا۔ وزراءکی تعداد کم کرنے پر غور کر رہے ہیں، سیاسی وجوہات کی بنیاد پر فوری طور پر کابینہ کا حجم کم نہیں کیا جاسکتا۔ 18 ویں ترمیم کی روشنی میں مناسب وقت آنے پر وفاقی کابینہ کا حجم کم کیا جائے گا۔ وزیراعظم گیلانی نے کہا کہ ڈرون حملوں کا فائدہ ہو رہا ہے، اگر امریکی افواج ہمارے خفیہ ادارہ سے ملکر کام کریں تو کامیابی بڑھ سکتی ہے۔ پاکستان مالی بحران کی وجہ سے متاثر ہوا ہے، مجبوراً ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جا کر مشکل شرائط ماننی پڑیں جن میں پیپکو، سرکلر ڈیٹ، وزارت پانی و بجلی کے مسائل شامل ہیں، اس وجہ سے ہمیں بجلی، گیس پر قیمتیں بڑھانی پڑتی ہیں میں تسلیم کرتا ہوں کہ ملک میں غربت، مہنگائی اور بیروزگاری ہے، حکومت بجلی کی صورتحال بہتر کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ لوگوں کو روزگار فراہم کیا جاسکے۔ 18 ویں ترمیم میں صدر اور وزیراعظم کی طاقتوں کو بیلنس کیا گیا ہے۔ اس طرح طاقتیں پارٹی سی ای او کو دی گئیں ہیں لیکن بہر حال پارلیمنٹ اپوزیشن کو بھی طاقت دی گئی ہے۔
لاہور (خبر نگار خصوصی) مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نوازشریف نے کہا ہے کہ این آر او زدہ افسر ہوں یا حکومتی عہدیدار انہیں مستعفی ہونا چاہئے ورنہ انہیں نکال دینا چاہئے‘ صدر کے استثنیٰ کا فیصلہ سپریم کورٹ کو کرنا ہے، حکومت سپریم کورٹ کو آنکھیں دکھانے کی بجائے فیصلہ پر عملدرآمد کرے، آزاد عدلیہ کیلئے جدوجہد کی اور فیصلوں پر عملدرآمد کیلئے آزاد عدلیہ کے ساتھ ہیں۔ وہ گذشتہ روز ایوان وزیراعلیٰ میں منعقدہ متاثرین سیلاب کی بحالی کے ضمن میں اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ اس موقع پر سردار ذوالفقار خان کھوسہ، اقبال ظفر جھگڑا، پارٹی کے دیگر قائدین و پارلیمنٹیرینز بھی موجود تھے۔ نوازشریف نے کہا کہ ہم آئین اور قانون کے ساتھ ہیں، جمہوریت کی آڑ میں کرپشن کو برداشت نہیں کر سکتے، تبدیلی کے عمل کو روکے نہیں روکا جا سکتا یہ آکر رہتی ہے۔ جنرل مشرف بھی آخری وقت میں خود کو مضبوط سمجھتے تھے پھر بھاگ گئے، تبدیلی کا مطلب یہ نہیں کہ ہم کسی نئے ڈکٹیٹر کا استقبال کریں یہ مذاق بہت ہو چکا اب یہ بند ہونا چاہئے۔ ملک بار بار مارشل لا کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ سوئس کیسز ختم کرنے پر مشرف سے جواب دہی کرنی چاہئے ان کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی ہونی چاہئے یہ کام وفاقی حکومت ہی کر سکتی ہے یہ عمل صرف مشرف نہیں بلکہ ان کے خلاف بھی ہونا چاہئے جنہوں نے اسکے غیرآئینی عمل میں ان کا ساتھ دیا۔ انہوں نے کہا کہ اکبر بگٹی کے قاتلوں کو سزا ملنے تک بلوچستان میں امن نہیں ہو گا، نوازشریف نے کہاکہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے خلاف سزا افسوسناک ہے، ڈاکٹر عافیہ کے کیس پر رچرڈ ہالبروک سے کئی بار بات ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر ہمارے لئے کور ایشو ہے، حکومت کا حکومت سے پوچھیں، کشمیر میں ظلم و تشدد افسوسناک قابل مذمت ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ بہت سے سیلاب متاثرین اپنے گھروں کو واپس چلے گئے ہیں۔ وفاقی حکومت متاثرہ خاندانوں کو ایک ایک لاکھ روپے دے۔ وزیراعلیٰ فنڈز میں امداد دینے والوں کا شکر گزار ہوں۔ متاثرین کی بحالی پر جنگی بنیادوں پر کام ہونا چاہئے۔ 20 ہزار کی فراہمی کیلئے نادرا بہت سے علاقوں میں اپنے دفاتر قائم نہیں کر سکا۔ این آر او کے تحت ایسے گناہ معاف کئے گئے جو ناقابل معافی تھے۔ ہم نے این آر او کو پارلیمنٹ میں لانے کی مخالفت کی۔ این آر او کے معاملے پر سپریم کورٹ، آئین اور قانون کا ساتھ دینگے۔ ایک سوال کے جواب میں نوازشریف نے کہا کہ آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ وفاقی حکومت ہی درج کرا سکتی ہے۔ اس سلسلے میں صرف مشرف ہی نہیں انکے دیگر ساتھی بھی اتنے ہی قصوروار ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ کو سزا ہونا افسوسناک ہے۔ ہالبروک سے بار بار اقدامات کا مطالبہ کیا۔ نواز شریف نے کہا کہ تبدیلی کو روکنے کےلئے سپریم کورٹ کے احکامات کو ماننا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ تبدیلی جب آتی ہے تو پھر آ کر رہتی ہے‘ مشرف آخری وقت تک خود کو مضبوط سمجھتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب کے بہت سے اضلاع میں بحالی کا کام شروع نہیں ہوا‘ وفاقی حکومت سیلاب متاثرین کو کم از کم ایک لاکھ روپے دے۔ نوازشریف نے کہا کہ ڈاکٹر عافیہ کو سزا ہونا افسوسناک ہے‘ ہالبروک سے کئی بار بات کی‘ مقبوضہ کشمیر میں ظلم افسوسناک ہیں‘ مسئلہ کشمیر کا واحد حل رائے شماری ہے۔ ہم جمہوری حکومت کی کرپشن کو بچانے کے لئے اپنے اصولی م¶قف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اگر آزاد عدلیہ قائم ہو گئی ہے تو کیا اس کا یہ حشر کیا جائے گا کہ اس کا حکم نہ مانا جائے اور اسے آنکھیں دکھائی جائیں‘ سیاست ہو نہ ہو ہم اپنے اصولی م¶قف سے خود پیچھے ہٹیں گے اور نہ کسی کو ہٹنے دیں گے۔ نوازشریف نے وفاقی حکومت سے عمر چیمہ پر تشدد کے ذمہ داروں کو بے نقاب کرنے اور سزا دینے کے لئے کہا۔ اس حوالہ سے انہوں نے وزیر داخلہ رحمن ملک سے بھی بات کی۔ اس کا قصور یہ تھا کہ اس نے سچ بات لکھی تھی اسے الٹکا لٹکانے کا کیا جواز تھا۔ نوازشریف نے جذباتی انداز میں اخبار نویسوں سے پوچھا کہ مجھے بتائیں کہ آپ نے عمر چیمہ پر ہونے والے تشدد کے خلاف کیا کیا۔
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + ایجنسیاں + مانیٹرنگ ڈیسک) اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ وزیر اعظم نے صدر زرداری کےخلاف سوئس مقدمات کھولنے سے متعلق وزارت قانون کی بھیجی گئی سمری منظور کر لی ہے جس پر چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ وزیر اعظم سمجھدار آدمی ہیں انہیں عدالتی فیصلے پر عمل درآمد نہ کرنے کے نتائج سے آگاہ ہونا چاہیے این آر او سے متعلق عدالت عظمیٰ کا فیصلہ برقرار ہے اس پر عمل نہ ہوا تو پھر عدالت کوئی فیصلہ کرے گی اگر کوئی عدالتی فیصلوں سے انحراف شروع کردے تو وہ اپنے لئے کچھ نہیں کر رہا بلکہ کسی اور کو کچھ کہہ رہا ہے۔ تین رکنی بینچ نے این آر او عمل درآمد کیس کی سماعت کی تو اٹارنی جنرل مولوی انوار الحق نے بتایا کہ وزارت قانون کی سمری کے کچھ مندرجات جو میڈیا میں آئے وہ درست نہیں۔ چیف جسٹس نے پوچھا کیا یہ سمری پبلک کی جا رہی ہے تو انہوں نے کہاکہ نہیں جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ آپ ہمیں تو دے سکتے ہیں ہم پڑھ لیں گے پبلک نہیں کریں گے۔ سمری کی اب اہمیت ہے کیونکہ وزیر اعظم نے منظوری دیدی ہے دیکھنا ہو گا کہ عدالت کے فیصلے پر اس کی روح کے مطابق عمل ہوا یا فیصلے سے انحراف کیا گیا ہے۔ عدالتی فیصلے پر ہر صورت عمل ہونا چاہیے قانون کی حکمرانی ہے تو فیصلے پر عمل کرنا ہو گا اگر کوئی سمجھتا ہے کہ فیصلہ صحیح نہیں تو اس کو تبدیل کرانے کے طریقے موجود ہیں‘ اگر اپنی مرضی سے فیصلے کرنے ہیں تو دوسرے لوگوں پر بھی اس کے اثرات ہوں گے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا آپ وزیر اعظم کو بتائیں عمل نہ کرنے کے نتائج کیا ہوں گے۔ عدالتی فیصلوں پر عمل کرنا آئین کا تقاضا ہے۔ اس طرح تو کل کو کوئی مجرم بھی عدالت کے فیصلے کو نہیں مانے گا پھر تو ایس پی یا آئی جی بھی کہے گا عدالت کے فیصلے کے فلاں حصے کو نہیں مانتا اس طرح تو سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ بھی کہے گا میں نے عدنان خواجہ کی تقرری درست کی تھی۔ یہ نظام بڑی مشکل سے بحال ہوا ہے ہم عدالت میں ہمیشہ غیر جانبدارانہ ذہن کے ساتھ بیٹھتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مجھے وزیر اعظم کی منظور کردہ سمری ابھی نہیں ملی جیسے ہی ملی عدالت میں جمع کرا دوں گا ۔عدالت عظمیٰ نے اپنے حکم میں لکھا کہ اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا ہے کہ عدالتی فیصلے کے مطابق وزیر اعظم کو سیکریٹری قانون مسعود چشتی کی جانب سے سمری ارسال کی گئی ہے جس کی منظوری وزیر قانون نے دی ہے اٹارنی جنرل نے عدالت سے درخواست کی کہ سمری عدالت میں پیش کرنے کیلئے مقدمے کی سماعت ملتوی کی جائے جس پر عدالت نے سماعت 27ستمبر تک ملتوی کر دی۔ ریڈیو نیوز‘ وقت نیوز کے مطابق اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وہ پیر کو سمری کی کاپی عدالت میں پیش کرینگے۔ عدالت نے ہدایت کی کہ تمام سرکاری ملازمین جو نیب زدہ ہیں یا ماضی میں سزا یافتہ ہیں ان سب کی فہرست عدالت میں آئندہ سماعت کو پیش کی جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر عدالتی فیصلوں سے انحراف کیا گیا تو اٹارنی جنرل اپنے لئے نہیں بلکہ کسی اور کیلئے کچھ کررہے ہیں ہم عدالت میں کھلے اور غیر جانبدارذہن کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں۔ 3 رکنی بنچ کے روبرو این آر او فیصلہ عملدرآمد کیس کی سماعت شروع ہونے پر اٹارنی جنرل مولوی انوارالحق ، سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ اسماعیل قریشی اور نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل راجہ عامر عباس عدالت میں پیش ہوئے چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ سوئس مقدمات کی بحالی کے حوالے سے اب تک کیا گیا ہے سید ناصر علی شاہ نام کے آدمی نے ہمیں خط لکھا یہ کون ہے؟ جسٹس طارق پرویز نے کہا کہ جو سمری وزیراعظم کے پاس جاتی ہے وہ عام دستاویز بن جاتی ہے چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے ہم دیکھیں گے کہ وزیر اعظم اس سمری کومنظور کرتے ہیں یا نہیں۔ وہ فیصلے پر عملدرآمد کرتے ہیں یا نہیں۔ قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی کیلئے عملدرآمد ضروری ہے عدالت میں کبھی نظرثانی اور کبھی اپیلیں دائر کردی جاتی ہیں لیکن فیصلوں پرعملدرآمد نہیں کیاجاتا۔ اسماعیل قریشی سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کو مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بھی کہے گا کہ یہ فیصلہ مجھے منظور نہیں۔ جسٹس طارق پرویز نے کہاکہ چیف جسٹس کے بیٹے کے چالان کے حوالے سے خبر آئی تھی کہ یہ قانون کی حکمرانی کی مثال ہے ہم کہتے ہیں کہ قانون کا احترام کیاجاتا ہے۔ نیب سے سزایافتہ سابق ایم ڈی او جی ڈی سی ایل عدنان خواجہ کی غیر قانونی تقرری کے حوالے سے مقدمے کی سماعت کے موقع پر ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب راجہ عامر عباس عدالت میں پیش ہوئے عدالت نے ان سے آئندہ تاریخ سماعت پر این آر زدہ اورنیب سے سزایافتہ موجودہ سرکاری افسروں کی فہرست طلب کرلی چیف جسٹس نے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ اسماعیل قریشی سے استفسار کیا کہ عدنان خواجہ کی طرح کوئی اور نیب زدہ افسر بھی موجود ہے جس پر انہوں نے کہا کہ جتنے بھی نیب زدہ ہوں گے سب کیخلاف کارروائی کی جائے گی عدالتی فیصلے پرعملدرآمد ہوگا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اب تک تو آپ نے فیصلوں کیخلاف ورزی کی ہے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ نے عدالت کو یقین دلایا کہ عدالتی فیصلے پر مکمل عملدرآمد کیاجائیگا عدالت نے مزید سماعت27ستمبرتک ملتوی کردی۔ اطلاعات کے مطابق وزیراعظم گیلانی نے این آر او کے حوالے سے وزارت قانون کی سمری پر دستخط کر دئیے ہیں۔ اس کے مطابق عدالتوں کو مقدمات کھولنے کیلئے خط نہیں لکھا جائے گا۔ حکومت نے موقف اختیار کیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت صدر کو استثنیٰ حاصل ہے ان پر کوئی عہدہ صدارت کے دوران کوئی فوجداری مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔ مقدمات کھلوانے کی بات آئین کے خلاف ہو گی۔ جمہوری صدر ہونے کے ناطے وہ 18 کروڑ افراد کے نمائندہ ہیں۔ انہیں کسی دوسرے ملک کے حوالے کرنا یا ان کے خلاف دوسرے ملک میں مقدمات کی کارروائی چلانا سمجھ سے بالاتر اور خلاف قانون ہے۔
سپریم کورٹ
اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک+ایجنسیاں) وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ماضی میں عدالتی قتل سے نقصان اٹھانے کی وجہ سے پیپلز پارٹی عدلیہ کے بارے میں محتاط ہے، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے کیس میں عدالتی جنگ ہار چکے ہیں، اب سفارتی اور سیاسی و قانونی سطوحات پر کوششیں کی جائیں گی۔ نجی ٹی وی سے انٹرویو میں وزیراعظم گیلانی نے کہا کہ اٹارنی جنرل کو ہدایت کی ہے کہ این آر او کیسز پر کام کی رفتار کو تیز کیا جائے، ججوں کے دوران سماعت مشاہدے کو اخبارات میں نہیں آنا چاہئے بلکہ فیصلے شائع ہونے چاہئیں۔ کچھ لوگ ججوں کے مشاہدات سے دکانداری چلا رہے ہیں۔ اس وقت ہم جنگ کے وسط میں ہیں، فوج کو مستحکم کرنا ضروری ہوگا۔ دفاعی بجٹ اسوقت ملکی سالمیت کیلئے ضروری ہے، ممبئی حملوں کے بعد مسئلہ کشمیر پس پشت چلا گیا، مائنس ون اورمائنس ٹو کی باتیں کرنیوالے ناکام ہو چکے ہیں، اب مائنس آل کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ ملک میں آنیوالا سیلاب بدترین تھا اور اسکے نتیجہ میں انتہائی بڑے پیمانے پر تباہی اور معاشی نقصان ہوا، حکومت اس پر قابو پانے کیلئے کوششیں کر رہی ہے۔میری گزشتہ روز صدر زرداری سے ملاقات ہوئی، ملاقات کے دوران وفاقی وزراءکی تعداد میں کمی پر غور کیا گیا۔ وزراءکی تعداد کم کرنے پر غور کر رہے ہیں، سیاسی وجوہات کی بنیاد پر فوری طور پر کابینہ کا حجم کم نہیں کیا جاسکتا۔ 18 ویں ترمیم کی روشنی میں مناسب وقت آنے پر وفاقی کابینہ کا حجم کم کیا جائے گا۔ وزیراعظم گیلانی نے کہا کہ ڈرون حملوں کا فائدہ ہو رہا ہے، اگر امریکی افواج ہمارے خفیہ ادارہ سے ملکر کام کریں تو کامیابی بڑھ سکتی ہے۔ پاکستان مالی بحران کی وجہ سے متاثر ہوا ہے، مجبوراً ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جا کر مشکل شرائط ماننی پڑیں جن میں پیپکو، سرکلر ڈیٹ، وزارت پانی و بجلی کے مسائل شامل ہیں، اس وجہ سے ہمیں بجلی، گیس پر قیمتیں بڑھانی پڑتی ہیں میں تسلیم کرتا ہوں کہ ملک میں غربت، مہنگائی اور بیروزگاری ہے، حکومت بجلی کی صورتحال بہتر کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ لوگوں کو روزگار فراہم کیا جاسکے۔ 18 ویں ترمیم میں صدر اور وزیراعظم کی طاقتوں کو بیلنس کیا گیا ہے۔ اس طرح طاقتیں پارٹی سی ای او کو دی گئیں ہیں لیکن بہر حال پارلیمنٹ اپوزیشن کو بھی طاقت دی گئی ہے۔
لاہور (خبر نگار خصوصی) مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نوازشریف نے کہا ہے کہ این آر او زدہ افسر ہوں یا حکومتی عہدیدار انہیں مستعفی ہونا چاہئے ورنہ انہیں نکال دینا چاہئے‘ صدر کے استثنیٰ کا فیصلہ سپریم کورٹ کو کرنا ہے، حکومت سپریم کورٹ کو آنکھیں دکھانے کی بجائے فیصلہ پر عملدرآمد کرے، آزاد عدلیہ کیلئے جدوجہد کی اور فیصلوں پر عملدرآمد کیلئے آزاد عدلیہ کے ساتھ ہیں۔ وہ گذشتہ روز ایوان وزیراعلیٰ میں منعقدہ متاثرین سیلاب کی بحالی کے ضمن میں اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ اس موقع پر سردار ذوالفقار خان کھوسہ، اقبال ظفر جھگڑا، پارٹی کے دیگر قائدین و پارلیمنٹیرینز بھی موجود تھے۔ نوازشریف نے کہا کہ ہم آئین اور قانون کے ساتھ ہیں، جمہوریت کی آڑ میں کرپشن کو برداشت نہیں کر سکتے، تبدیلی کے عمل کو روکے نہیں روکا جا سکتا یہ آکر رہتی ہے۔ جنرل مشرف بھی آخری وقت میں خود کو مضبوط سمجھتے تھے پھر بھاگ گئے، تبدیلی کا مطلب یہ نہیں کہ ہم کسی نئے ڈکٹیٹر کا استقبال کریں یہ مذاق بہت ہو چکا اب یہ بند ہونا چاہئے۔ ملک بار بار مارشل لا کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ سوئس کیسز ختم کرنے پر مشرف سے جواب دہی کرنی چاہئے ان کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی ہونی چاہئے یہ کام وفاقی حکومت ہی کر سکتی ہے یہ عمل صرف مشرف نہیں بلکہ ان کے خلاف بھی ہونا چاہئے جنہوں نے اسکے غیرآئینی عمل میں ان کا ساتھ دیا۔ انہوں نے کہا کہ اکبر بگٹی کے قاتلوں کو سزا ملنے تک بلوچستان میں امن نہیں ہو گا، نوازشریف نے کہاکہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے خلاف سزا افسوسناک ہے، ڈاکٹر عافیہ کے کیس پر رچرڈ ہالبروک سے کئی بار بات ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر ہمارے لئے کور ایشو ہے، حکومت کا حکومت سے پوچھیں، کشمیر میں ظلم و تشدد افسوسناک قابل مذمت ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ بہت سے سیلاب متاثرین اپنے گھروں کو واپس چلے گئے ہیں۔ وفاقی حکومت متاثرہ خاندانوں کو ایک ایک لاکھ روپے دے۔ وزیراعلیٰ فنڈز میں امداد دینے والوں کا شکر گزار ہوں۔ متاثرین کی بحالی پر جنگی بنیادوں پر کام ہونا چاہئے۔ 20 ہزار کی فراہمی کیلئے نادرا بہت سے علاقوں میں اپنے دفاتر قائم نہیں کر سکا۔ این آر او کے تحت ایسے گناہ معاف کئے گئے جو ناقابل معافی تھے۔ ہم نے این آر او کو پارلیمنٹ میں لانے کی مخالفت کی۔ این آر او کے معاملے پر سپریم کورٹ، آئین اور قانون کا ساتھ دینگے۔ ایک سوال کے جواب میں نوازشریف نے کہا کہ آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ وفاقی حکومت ہی درج کرا سکتی ہے۔ اس سلسلے میں صرف مشرف ہی نہیں انکے دیگر ساتھی بھی اتنے ہی قصوروار ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ کو سزا ہونا افسوسناک ہے۔ ہالبروک سے بار بار اقدامات کا مطالبہ کیا۔ نواز شریف نے کہا کہ تبدیلی کو روکنے کےلئے سپریم کورٹ کے احکامات کو ماننا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ تبدیلی جب آتی ہے تو پھر آ کر رہتی ہے‘ مشرف آخری وقت تک خود کو مضبوط سمجھتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب کے بہت سے اضلاع میں بحالی کا کام شروع نہیں ہوا‘ وفاقی حکومت سیلاب متاثرین کو کم از کم ایک لاکھ روپے دے۔ نوازشریف نے کہا کہ ڈاکٹر عافیہ کو سزا ہونا افسوسناک ہے‘ ہالبروک سے کئی بار بات کی‘ مقبوضہ کشمیر میں ظلم افسوسناک ہیں‘ مسئلہ کشمیر کا واحد حل رائے شماری ہے۔ ہم جمہوری حکومت کی کرپشن کو بچانے کے لئے اپنے اصولی م¶قف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اگر آزاد عدلیہ قائم ہو گئی ہے تو کیا اس کا یہ حشر کیا جائے گا کہ اس کا حکم نہ مانا جائے اور اسے آنکھیں دکھائی جائیں‘ سیاست ہو نہ ہو ہم اپنے اصولی م¶قف سے خود پیچھے ہٹیں گے اور نہ کسی کو ہٹنے دیں گے۔ نوازشریف نے وفاقی حکومت سے عمر چیمہ پر تشدد کے ذمہ داروں کو بے نقاب کرنے اور سزا دینے کے لئے کہا۔ اس حوالہ سے انہوں نے وزیر داخلہ رحمن ملک سے بھی بات کی۔ اس کا قصور یہ تھا کہ اس نے سچ بات لکھی تھی اسے الٹکا لٹکانے کا کیا جواز تھا۔ نوازشریف نے جذباتی انداز میں اخبار نویسوں سے پوچھا کہ مجھے بتائیں کہ آپ نے عمر چیمہ پر ہونے والے تشدد کے خلاف کیا کیا۔
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + ایجنسیاں + مانیٹرنگ ڈیسک) اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ وزیر اعظم نے صدر زرداری کےخلاف سوئس مقدمات کھولنے سے متعلق وزارت قانون کی بھیجی گئی سمری منظور کر لی ہے جس پر چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ وزیر اعظم سمجھدار آدمی ہیں انہیں عدالتی فیصلے پر عمل درآمد نہ کرنے کے نتائج سے آگاہ ہونا چاہیے این آر او سے متعلق عدالت عظمیٰ کا فیصلہ برقرار ہے اس پر عمل نہ ہوا تو پھر عدالت کوئی فیصلہ کرے گی اگر کوئی عدالتی فیصلوں سے انحراف شروع کردے تو وہ اپنے لئے کچھ نہیں کر رہا بلکہ کسی اور کو کچھ کہہ رہا ہے۔ تین رکنی بینچ نے این آر او عمل درآمد کیس کی سماعت کی تو اٹارنی جنرل مولوی انوار الحق نے بتایا کہ وزارت قانون کی سمری کے کچھ مندرجات جو میڈیا میں آئے وہ درست نہیں۔ چیف جسٹس نے پوچھا کیا یہ سمری پبلک کی جا رہی ہے تو انہوں نے کہاکہ نہیں جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ آپ ہمیں تو دے سکتے ہیں ہم پڑھ لیں گے پبلک نہیں کریں گے۔ سمری کی اب اہمیت ہے کیونکہ وزیر اعظم نے منظوری دیدی ہے دیکھنا ہو گا کہ عدالت کے فیصلے پر اس کی روح کے مطابق عمل ہوا یا فیصلے سے انحراف کیا گیا ہے۔ عدالتی فیصلے پر ہر صورت عمل ہونا چاہیے قانون کی حکمرانی ہے تو فیصلے پر عمل کرنا ہو گا اگر کوئی سمجھتا ہے کہ فیصلہ صحیح نہیں تو اس کو تبدیل کرانے کے طریقے موجود ہیں‘ اگر اپنی مرضی سے فیصلے کرنے ہیں تو دوسرے لوگوں پر بھی اس کے اثرات ہوں گے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا آپ وزیر اعظم کو بتائیں عمل نہ کرنے کے نتائج کیا ہوں گے۔ عدالتی فیصلوں پر عمل کرنا آئین کا تقاضا ہے۔ اس طرح تو کل کو کوئی مجرم بھی عدالت کے فیصلے کو نہیں مانے گا پھر تو ایس پی یا آئی جی بھی کہے گا عدالت کے فیصلے کے فلاں حصے کو نہیں مانتا اس طرح تو سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ بھی کہے گا میں نے عدنان خواجہ کی تقرری درست کی تھی۔ یہ نظام بڑی مشکل سے بحال ہوا ہے ہم عدالت میں ہمیشہ غیر جانبدارانہ ذہن کے ساتھ بیٹھتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مجھے وزیر اعظم کی منظور کردہ سمری ابھی نہیں ملی جیسے ہی ملی عدالت میں جمع کرا دوں گا ۔عدالت عظمیٰ نے اپنے حکم میں لکھا کہ اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا ہے کہ عدالتی فیصلے کے مطابق وزیر اعظم کو سیکریٹری قانون مسعود چشتی کی جانب سے سمری ارسال کی گئی ہے جس کی منظوری وزیر قانون نے دی ہے اٹارنی جنرل نے عدالت سے درخواست کی کہ سمری عدالت میں پیش کرنے کیلئے مقدمے کی سماعت ملتوی کی جائے جس پر عدالت نے سماعت 27ستمبر تک ملتوی کر دی۔ ریڈیو نیوز‘ وقت نیوز کے مطابق اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وہ پیر کو سمری کی کاپی عدالت میں پیش کرینگے۔ عدالت نے ہدایت کی کہ تمام سرکاری ملازمین جو نیب زدہ ہیں یا ماضی میں سزا یافتہ ہیں ان سب کی فہرست عدالت میں آئندہ سماعت کو پیش کی جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر عدالتی فیصلوں سے انحراف کیا گیا تو اٹارنی جنرل اپنے لئے نہیں بلکہ کسی اور کیلئے کچھ کررہے ہیں ہم عدالت میں کھلے اور غیر جانبدارذہن کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں۔ 3 رکنی بنچ کے روبرو این آر او فیصلہ عملدرآمد کیس کی سماعت شروع ہونے پر اٹارنی جنرل مولوی انوارالحق ، سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ اسماعیل قریشی اور نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل راجہ عامر عباس عدالت میں پیش ہوئے چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ سوئس مقدمات کی بحالی کے حوالے سے اب تک کیا گیا ہے سید ناصر علی شاہ نام کے آدمی نے ہمیں خط لکھا یہ کون ہے؟ جسٹس طارق پرویز نے کہا کہ جو سمری وزیراعظم کے پاس جاتی ہے وہ عام دستاویز بن جاتی ہے چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے ہم دیکھیں گے کہ وزیر اعظم اس سمری کومنظور کرتے ہیں یا نہیں۔ وہ فیصلے پر عملدرآمد کرتے ہیں یا نہیں۔ قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی کیلئے عملدرآمد ضروری ہے عدالت میں کبھی نظرثانی اور کبھی اپیلیں دائر کردی جاتی ہیں لیکن فیصلوں پرعملدرآمد نہیں کیاجاتا۔ اسماعیل قریشی سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کو مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بھی کہے گا کہ یہ فیصلہ مجھے منظور نہیں۔ جسٹس طارق پرویز نے کہاکہ چیف جسٹس کے بیٹے کے چالان کے حوالے سے خبر آئی تھی کہ یہ قانون کی حکمرانی کی مثال ہے ہم کہتے ہیں کہ قانون کا احترام کیاجاتا ہے۔ نیب سے سزایافتہ سابق ایم ڈی او جی ڈی سی ایل عدنان خواجہ کی غیر قانونی تقرری کے حوالے سے مقدمے کی سماعت کے موقع پر ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب راجہ عامر عباس عدالت میں پیش ہوئے عدالت نے ان سے آئندہ تاریخ سماعت پر این آر زدہ اورنیب سے سزایافتہ موجودہ سرکاری افسروں کی فہرست طلب کرلی چیف جسٹس نے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ اسماعیل قریشی سے استفسار کیا کہ عدنان خواجہ کی طرح کوئی اور نیب زدہ افسر بھی موجود ہے جس پر انہوں نے کہا کہ جتنے بھی نیب زدہ ہوں گے سب کیخلاف کارروائی کی جائے گی عدالتی فیصلے پرعملدرآمد ہوگا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اب تک تو آپ نے فیصلوں کیخلاف ورزی کی ہے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ نے عدالت کو یقین دلایا کہ عدالتی فیصلے پر مکمل عملدرآمد کیاجائیگا عدالت نے مزید سماعت27ستمبرتک ملتوی کردی۔ اطلاعات کے مطابق وزیراعظم گیلانی نے این آر او کے حوالے سے وزارت قانون کی سمری پر دستخط کر دئیے ہیں۔ اس کے مطابق عدالتوں کو مقدمات کھولنے کیلئے خط نہیں لکھا جائے گا۔ حکومت نے موقف اختیار کیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت صدر کو استثنیٰ حاصل ہے ان پر کوئی عہدہ صدارت کے دوران کوئی فوجداری مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔ مقدمات کھلوانے کی بات آئین کے خلاف ہو گی۔ جمہوری صدر ہونے کے ناطے وہ 18 کروڑ افراد کے نمائندہ ہیں۔ انہیں کسی دوسرے ملک کے حوالے کرنا یا ان کے خلاف دوسرے ملک میں مقدمات کی کارروائی چلانا سمجھ سے بالاتر اور خلاف قانون ہے۔
سپریم کورٹ