راولپنڈی کا فیض آباد
راولپنڈی کا فیض آباد ملکی تاریخ میں امر ہو چکا ہے۔عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ کے فیصلوں میں فیض آباد کی گونج ہے ،سابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی ہوں یا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ انکی پیشہ ورانہ کیریئر کی کہانی میں فیض آباد کے دھرنوں کا تزکرہ ضرور ملے گا۔سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والے احباب اچھی طرح جانتے ہیں کہ فیض آباد میں دھرنے کے مذہبی اور سیاسی محرکات کیا تھے۔ راجہ ظفرالحق کی ایک رپورٹ تاریخ کا حصہ بن چکی ہے ، کس طرح سے ناموس رسالت پر حملہ کی سازش بنی اور ہمارے کچھ سیاستدان بالواسطہ یا بلا واسطہ اس سازش کا آلہ کار بنے تھے۔اور یہ فیض آباد کا دھرنا ہی تھا جس کے باعث یہ گھناونی سازش بے نقاب ہوئی اور اس سازش میں آلہ کار بننے والے کردار بے نقاب ہوئے۔جو ترمیم و تحریف ختم نبوت کے حلف نامے میں سازش کے تحت کی جا رہی تھی وہ تو رک گئی لیکن اس کے بعد گستاخانہ خاکوں کے معاملے پر فیض آباد میں دوبارہ دھرنا ہوا۔گستاخانہ خاکوں کو فروغ دینے والے ملک فرانس کا سفارتی ، تجارتی اور سیاسی بائیکاٹ کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔فرانسیسی صدر کی تصاویر پاکستان میں فٹ پاتھ اور پائیدانوں پر لگا کر جوتوں تلے روندی گئیں ۔ معاملہ ہی ایسا تھا کہ ہر اہل ایمان کے جذبات مجروح ہوئے تھے۔ فیض آباد مظاہرین کے مطالبات کے لیئے حکومت نے ان سے وعدوں وعید پر مبنی ایک تحریری معاہدہ کرکے فیض آباد خالی کرا لیا۔لیکن جب معاہدے کی ڈیڈ لائن گزر گئی اور اس پر کجا عمل نہ ہوا تو اب پھر سہ بارہ مظاہرین نے فیض آباد کا رخ کر لیا ہے ۔ لاہور سے چلنے والا یہ مارچ فیض آباد کے طرف گامزن ہے ، صوبائی حکومت نے پہلے تو ایک مذاکراتی کمیٹی بنا کر مظاہرین کو لالی پاپ دینے کی کوشش کی جو کہ ناکام ہو گئی۔ پھر صوبائی پولیس نے طاقت کا استعمال کیا، مظاہرین پر بد ترین شیلنگ شروع کر دی۔پولیس حکام کا کہنا تھا کہ کسی صورت اس قافلے کو اسلام آباد یا راولپنڈی کی جانب جانے نہیں دیا جائے گا۔بدترین شیلنگ کے نتیجے میں مظاہرین اور پولیس دونوں جانب سے شہادتوں کی اطلاعات ہیں، سینکڑوں مظاہرین زخمی ہیں ۔لاہور کے تمام داخلی اور خارجی راستے بند ہیں پولیس کو صرف ایک ہی ٹاسک دیا گیا ہے کہ یہ قافلہ اسلام آباد نہ پہنچنے پائے ۔مطالبہ صرف ایک ہے کہ جو معاہدہ حکومت اور مظاہرین کے مابین ہوا تھا اس پر عمل کیا جائے۔ چند ماہ قبل بھی اس معاہدے پر عمل نہ ہونے کے باعث مظاہرین تحفظ ناموس رسالت کے نام پر سڑکوں پر آئے تو ان کے خلاف کریک ڈاون کیا گیا ، مطالبات ماننا تو کجا ان مظاہرین کے قائدین کے نام فورتھ شیڈول میں ڈال دئے گئے ، انکے جواں سال امیر کو حراست میں لے لیا گیا ، ایک عدالت ان کی رہائی کا حکم دیتی ہے تو حکومت کسی نئے تکنیکی بہانے سے دوسری عدالت سے نظر بندی کا احکامات حاصل کر لیتی ہے ۔لیکن امیر کی اسیری کے باوجود اس تحریک کے کارکنان اور پیروکار جس جذبے کے تحت سڑکوں پر ہیں وہ جزبہ دیدنی ہے۔بظاہر پولیس اور انتظامیہ اس جاری مارچ پر قابو پانے میں ناکام نظر آتی ہے ۔ اس قافلے کا خوف اتنا ہے کہ راولپنڈی اسلام آباد کی انتظامیہ اور پولیس نے بھی شہر کے داخلی راستوں کو دو دن سے سیل کر رکھا ہے اور اپنے آپ کو محفوظ سمجھ رہے ہیں ۔ جڑواں شہروں کے مقیم لوگوں کو سخت دشواری کا سامنا ہے ۔ مظاہرین اگر صرف ایک مقام پر دھرنا دیتے ہیں تو انتظامیہ پورے شہر کی سڑکوں کو سیل کر دیتی ہے ۔ بنیادی انسانی حقوق کی سخت پامالی ہو رہی ہے ، حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ اگر معاہدہ کیا تھا تو اس کی پاسداری کیوں نہ کی۔ اور اگر پاسداری نہیں کرنا تھی تو پھر معاہدہ کیوں کیا۔ اسی تناظر میں وہ حکومتی شخصیات جو کہ حکومت کی جانب سے اس معاہدے میں دستخط کنندہ تھیں ، وہ اس وقت منظر نامے سے غائب ہیں ، وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری جن کی یقین دہانیوں پر یقین کرکے گزشتہ بار مظاہرین نے اپنا احتجاج ختم کیا تھا ، وہ وزیر بالکل خاموش ہیں ، بولیں بھی تو کیا بولیں گے، ان قائدین سے کیسے ٓانکھیں ملائیں گے جن سے جھوٹے وعدے کیئے ہوئے ہیں ۔ دوسری جانب وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد جو نہ صرف حکومت کی جانب سے معاہدہ کے دستخطی ہیں بلکہ اپنے آپ کوناموس رسالت اور ختم نبوت کے سب سے بڑے مجاہد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ، جنہوں نے فیض آباد میں پہلے دھرنے کے دوران (جب انکی مخالف نون لیگ کی حکومت تھی) ان مظاہرین کی بھر پور حمایت کی تھی، اور اس وقت کی حکومت کو وارننگ دی تھی کہ حکومت ہوش کے ناخن لے اگر دھرنے والوں کے مطابات نہ مانے تو سخت نتائج کا سامنا کرنا ہو گا ۔اب شیخ صاحب وزیر داخلہ بنے ہیں تو اس جذبہ ایمانی کا اظہار نہیں ہو رہا جو وہ اپوزیشن میں رہ کر کر چکے ہیں ۔ وہی ناموس رسالت کا معاملہ ہے ،وہی مظاہرین ہیں، وہی مطالبات ہیں ، لیکن شیخ صاحب اپوزیشن والے شیخ رشید نہیں، بلکہ حکومت والے وزیر داخلہ ہیں ،سیاسی مصلحتوں سے خوب واقف ہیں ،پوری زندگی سیاست میں گزاری ہے ، اپنے آبائی شہرراولپنڈی سے اسلام آباد کے ایوان اقتدار میںکس گیٹ سے اندر داخل ہونا ہے اس گیٹ کا نمبر انہیں بخوبی یاد ہے۔جذبہ حب الوطنی کے تحفظ میں ہی ملک میں ایٹمی دھماکوں کے وقت دوبئی چلے گئے تھے تاکہ خود بھی سلامت رہیں اور جذبہ حب الوطنی بھی سلامت رہے، اب اپنے جزبہ تحفظ ناموس رسالت کے لیئے بھی انہوں نے عین موقع پر ملک سے باہر جانا مناسب سمجھا ۔ ایسے وقت میں جب ملک میں امن و امان کا شدید خطرہ ہے، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور مظاہرین آمنے سامنے ہیں ، کہیں ہلاکتیں ہو رہی ہیں اور کہیں شہادتیں ، سڑکیں میدان جنگ بن رہی ہیں اور بنیادی انسانی حقوق پابندیوں کی نظر ہو رہے ہیں ، مظاہرین شیخ رشید سمیت ان حکمرانوں کو ڈھونڈھ رہے ہوں جنہوں نے یقین دہانیوں کے ساتھ ساتھ تحریری معاہدے پر بھی دستخط کیئے تھے ، تو ایسے میں شیخ رشید کا پاکستان انڈیا کا میچ دیکھنے کے لیئے ملک سے باہر جانا ہی بنتا تھا ۔ کیونکہ نہ تو وہ ناموس رسالت کے لیئے مظاہرہ کرنے والوں سے بگاڑنا چاہتے ہیں کیونکہ انکی جذبہ ایمانی آڑے آتا ہے ، اور نہ ہی وہ ایوان اقتدار کو چھوڑنا چاہتے ہیں کیونکہ یہاں انکا جزبہ حب الوطنی آڑے آتا ہے ۔ ایسے میں شیخ رشید نے اپنی سیاسی بصیرت کا ستعمال کرتے ہوئے بہترین فیصلہ کیا تھا، یوں انہوں نے اپنے جزبہ ایمانی اور جذبہ حب الوطنی دونوں کو ہی بچا لیا۔لیکن شنید ہے کہ انہیںاپنا تفریحی دورہ فوری طور پر ختم کر کے ملک میں واپس آنے کی کال دی گئی ہے ۔وزیر اعظم خود سعودی عرب کے تین روزہ دورے پر روانہ ہو چکے ہیں اس لیئے ارباب اختیار نے ملکی امن و امان کی نازک صورتحال کے پیش نظر وزیر داخلہ کو واپس بلانا ہی مناسب سمجھا ۔اب یقینی طور پر شیخ صاحب اپنی واپسی کو اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی اور احساس ذمہ داری سے تعبیر کریں گے ۔ لیکن یہاں یہ بات قابل فکر ہے کہ جب مظاہرین سڑکوں پر آچکے تھے اور اسلام آباد مارچ کا اعلان کر چکے تھے ایسے وقت میں بیرون ملک میچ دیکھنے کو ترجیح دینا ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات کو واضح کرتا ہے۔ باقی مظاہرین اور مخالفین تو اعتراض کرتے ہی رہتے ہیں ، مظاہرین اور پولیس کا میچ توپاکستان میں ہوتا ہی رہتا ہے۔ سڑکوں پر لاشیں گرتی رہتی ہیں ، بنیادی حقوق سلب ہوتے رہتے ہیں ۔ وعدے معاہدے ہوتے رہتے ہیں ،عوام بھی اسکی عادی ہے اور حکومت بھی۔