کوتوال شہر کے نام
برداشت کرنا اور معاف کر دینا کیا ہوتا ہے؟ اس سے شاید ہمارا معاشرہ واقف ہی نہیں ہے۔ ہمیں اب عدم برداشت سے متاثرہ اور جان لیوا کئی واقعات کے بعد یہ تسلیم کر لینا چاہئے کہ ہم ایک بیمار ذہنیت کا معاشرہ ہیں جو نہ صرف ماضی میں کی گئی غلطیوں کو بھلا دیتا ہے بلکہ ایک نئے سرے سے جرم اور بے حسی کے عزم سے پوری تیاری کے ساتھ ایک بار پھر پچھلی غلطیوں کو دہرانے کیلئے تیار ہو جاتا ہے۔ کچھ روز قبل شاہدرہ میں 3 بھائیوں کا قتل کے افسوس ناک واقعہ ہوا۔معاملہ صرف یہ تھا کہ معمولی بات پر محلے داروں کے درمیان جھگڑا ہو گیا،جھگڑے کی وجہ گاڑی کھڑی کرناتھی۔تاہم یہ کوئی سنگین غلطی تو نہ تھی کہ گولیاں چل جاتیںاور ایک ہی گھر کے تین چراغ گل کردئے جاتے۔ عدم برداشت کسی بھی جرم کی سب سے بنیادی وجہ ہے، اگر صرف برداشت کی صلاحیت کو مضبوط کر لیا جائے تو کسی بھی معاشرے سے 90 فیصد جرائم کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ یہ بات حقیقت کے بالکل قریب ہے کیونکہ ہر جرم کی داستان کے پیچھے عدم برداشت کا عنصر نمایاں نظر آتا ہے لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ ماضی میں کوتوالیوں کا کام ہی یہ ہوتا تھا کہ وہ اگر کسی جگہ جھگڑا ہوتا دیکھتے یا لوگوں کا ہجوم دیکھتے تو فوراسیٹی بجاتے اور ہجوم کومنتشر کرتے۔آج کے دور میں پولیس کے ذمے یہ کام ہے لیکن غور طلب سوال یہ ہے کہ کیا پولیس اپنی ذمہ داریاں پوری کررہی ہے؟ اگرشہر میں کوئی شخص لٹ جاتا ہے تو اس میںقصور شہر کے کوتوال کا ہے یا ریاست کا جولوٹنے والوں کے گرد گھیرا تنگ نہیں کررہی۔دوستو مدعا شہر
میںلا اینڈ آرڈر کی صورتحال اور لوگوں میں عدم برداشت کا کلچرہے۔ گاڑی کھڑے کرنے پر قتل وغارت گری اورا سکے بعدپولیس کی گاڑیوں کاگشت ذی شعور کی سمجھ سے بالا ہے۔۔۔
منظر بھوپالی کاکیا خوب شعر ہے کہ
ہمارے شہر میں کیلئے امان کچھ کم ہے
یہی کمی ہے کہ امن و امان کچھ کم ہے
جرائم کا خاتمہ حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن حکومت کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں۔اگر لوگوں کوانصاف ملنا شروع ہو جائے تو کوئی جرم نہیں ہوگا۔اگر قانون کا خوف ہو گا تو جرم نہیں ہوں گے۔پاکستان میں قانون تو ہے لیکن اس پر عمل درآمد کتنا ہے۔ جب ہم اللہ کے قانون پر انسان کے بنائے ہوئے قانون کر ترجیح دینگے تو کیا خاک تبدیلی آئیگی۔دکھ کی بات ہے کہ ہماری حکومتیں بہت وعدے کرتی ہیں لیکن پولیس کے نظام کو نہیں بدلتیں۔
نئے چیلنجز ’ٹیکنالوجی‘ معاشی اور سیاسی ترقی کے نئے تناظر ’عوام کی امن وامان سے وابستہ امیدوں کیلئے ایماندار قابل پیشہ ور اور عوام دوست پولیس کیلئے محکمہ پولیس میں اصلاحات بہت ضروری ہیں۔ اصلاحات کی ضرورت تو ہمیشہ سے رہی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ ترمیم بھی ہوتی رہی ہے۔ وہ دن دور نہیں جب محکمہ پولیس، معاشرے میں جرائم کی روک تھام کرنے والا پہلا موثر ادارہ بن کے ابھرے گا۔کیا ان اصلاحات کی ضرورت ہے؟ اصلاحات کیلئے کون سے عملی اقدام کیے گئے؟ کیا اصلاحات کیلئے یہ صحیح وقت ہے؟ کیا اس سے لا اینڈ آرڈر کی صورتحال بہتر ہوگی یا مزید ابتر ہو جائیگی؟پولیس آرڈر2002 کی ترمیم یا اصلاحات سے مطلوبہ مقاصد حاصل ہونگے؟ یا پولیس کا محکمہ جرائم کی روک تھام اور عوام کو امن و امان فراہم کرنے میں مزید ناکام ہو جائیگا؟ کیا ان اصلاحات کیلئے تمام وسائل کو بروئے کار لائے گئے یا مالی امداد اور ٹیکنیکل امداد سے محروم رکھا گیا؟ ہم سسٹم بہتر نہیں کرتے اور نہ ہی ہم عملے اور عوام کی تربیت کرتے ہیں، جو کہ ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ وہ سوالات ہیں جن کاجواب ہر عام شہری متاثر ہونے کے بعد تلاش کرتا ہے لیکن وہ سوالات میں ہی گم ہوجاتا ہے۔پولیس معاشرے میں امن و امان کو برقرار رکھنے کیلئے اہم ادارہ ہے پولیس کو با اختیار بنانے کی ضرورت ہے، بھرتیوں کو شفاف اور کسی سیاسی مداخلت سے پاک کرنے کی ضرورت ہے۔ پولیس اہلکار وں کیلئے ڈیوٹی اوقات کی منصوبہ بندی متعارف کرائی جائے۔ جہاں انہیں باآسانی شفٹوں میں بنیادی سہولت فراہم کی جائے اور ان کے خاندان کو سماجی فوائد جیسے صحت اور تعلیم فراہم کی جائے آخر میں، پولیس کو عوام دوست اور نرم مزا ج رویہ اپنا نے کی تربیت دی جانی چاہیے لیکن ہمارے ملک میں ہر شریف شہری پولیس کے نام سے ہی خوفزدہ ہوجاتا ہے اگر کسی کے ساتھ کوئی واردات ہوجائے تو وہ پولیس میں رپورٹ کی بجائے خاموش رہنے میں ہی عافیت سمجھتا ہے۔یہ ہمارے معاشرے کا ایک المیہ ہے۔یہ سب باتیں ویسے عدم برداشت کے کلچر کوہی فروغ دیتی ہیں اور پھر لوگ بے راہ روی کاشکار ہوجاتے ہیں۔جون ایلیا نے حالات کی عکاسی بہت اچھے اسلوب میں کی
سب سے پر امن واقعہ یہ ہے
آدمی آدمی کو بھول گیا
دوستو ہمیں بھی اپنے اندر عدم برداشت کے رویے کو ختم کرکے برداشت کامادہ پیدا کرنا ہوگا اوراس کے ساتھ ساتھ پولیس کوشہریوں کیلئے ایسا مثالی بنانا ہوگا۔