ہمارا اجمل نیازی
آپ انہیں پسند کریں یا نا پسند، نظر انداز نہیں کر سکتے۔ ڈاکٹر اجمل نیازی سرخ سفید رنگت ،داڑھی مونچھوں اور سرکے بڑھے ہوئے بالوں والی اک من موہنی اور دلفریب شخصیت تھے ۔ ان کے سراپا میں اک عجب سی شان محبوبیت تھی ۔ وہ اپنی طرز کے انوکھے آدمی تھے ۔ انہی کی کہانی انہی کے لفظوں میں ،یہ شعر انہوں نے منیر نیازی کے بارے کہا تھا:
کل دیکھا ایک شخص لپٹا سفر کی دھول میں
گم تھا اپنے آپ میں جیسے خوشبو پھول میں
اجمل نیازی اک زمانہ تک ننگے سر رہے ۔ بکھری خود سر زلفیں انہیں دوسروں سے ممتاز رکھتیں۔ پھر سر کے بالوں نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا۔ سر پر چندیا سج گئی ۔ اب انہوں نے سر کو پگڑی سے ڈھانپ لیا ۔ پھر سلیقے سے سر پر بندھی مشہدی لنگی ان کی شناخت بن گئی ۔ ہجوم میں دور سے ہی نظر آجاتے ۔ درویش ڈاکٹر محمد اجمل نیازی کے اپنے اللہ سے انوکھے روابط تھے ۔ بہت کم خور تھے ۔ ان کا کھانا بمشکل چند لقمے ہوا کرتا۔ یہ چند لقمے زہر مار کر کے انہیں اپنے اللہ سے یہ کہنے میں بھی کچھ عار نہ ہوتا۔ ’’ایسے بے مزا کھانے پر بھلا کس بات کا شکریہ ۔ جا میں تیرا شکر ادا نہیں کرتا‘‘۔ لیکن یہ بھی سچ تھا کہ انہیں اپنے اللہ کی رحمت پر کامل بھروسہ تھا۔ اپنی بخشش کیلئے دعا کا کیا انداز تھا۔ اس حسن طلب کی داد دیجئے ۔ ان جیسے ہی کسی بے باک درویش نے کہا تھا۔
تو میرے اعمال کا پابند نکلا حشر میں
اے خدا میرے خدا تجھ کو خدا سمجھا تھا میں
اجمل نیازی کی رندانہ بیباکی دیکھئے ، اس حد تک چلے جاتے ہیں۔ ان کی شاعری کی کتاب ’’پچھلے پہر کی سرگوشی ‘‘ سے ایک شعر۔
اجملؔ دلوں سے خوف خدا جب سے اٹھ گیا
باقی نہیں رہی کوئی لذت گناہ میں
در اصل اجمل ’باخدا دیوانہ باشد با محمدؐہوشیار‘ والے مسلک عقیدے کے آدمی تھے ۔ عشق رسولؐ کی سر مستی میں سرشار رہتے۔ اللہ کے آخری نبیؐ کے سچے عاشق تھے ۔
ایک مرتبہ انہوں نے اپنے ایک کالم میں حضورپاکؐ کے سراپا کا بیباکانہ نقشہ کھینچ دیا۔ یہ ان کی محبوب خداؐ سے محبت کا والہانہ اظہار تھا۔ لیکن اہل شریعت کو اجمل کی یہ بے تکلفی پسند نہ آئی ۔ ان کے خلاف توہین رسالتؐ کی ایف آئی آر درج کروا دی گئی ۔ وہ بھولے نہیں جانتے تھے کہ ایسے شعر کہنے والا توہین رسالت کا مرتکب کیسے ہو سکتا ہے ؟
اضطراب شوق بے حد میں کہیں رہتا ہے وہ
کائنات روح احمدؐ میں کہیں رہتا ہے وہ
ہجر کے غارِ حرا میں دیکھتے اجملؔ کو تم
قریہ عشق محمدؐ میں کہیں رہتا ہے وہ
تیری آنکھیں تیرے خوابوں کا ڈیرہ یا محمدؐ
تیرا چہرہ ہے رحمت کا پھریرا یا محمدؐ
تیری یاد میں زندہ ہیں اور تیرے نام پہ مرتے ہیں
اپنا دین یہی ہے آقاـؐ تجھ سے محبت کرتے ہیں
یہ بھی پیار کی حد ہے گویا دنیا والے کیا جانیں
تو رحمت کا دریا ہے ہم پھر بھی تجھ سے ڈرتے ہیں
توہین رسالت کے اس مقدمہ نے انہیں بہت مایوس اور پریشان کیا۔’’ نوائے وقت‘‘نے ان کا پورا ساتھ دیا۔ پھر ان کے دوستوں اور مداحوں نے مل جل کر مدعی مقدمہ کو مقدمہ کی دستبرداری پر راضی کرلیا۔ انہوں نے اپنی آخری عمر میں حضور پاکؐ کی سیرت پر ایک کتاب بھی لکھی ۔ یہ کتاب شائع نہ ہو سکی ۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ہر بندہ اسے پڑھنے کامتحمل نہیں ہو سکتا۔ کھڑی شریف کے عارف بھی یہی بات مناسب سمجھے کہ ’خاصاں دی گل عاماں اگے ‘کہنی مناسب نہیں۔ پھر یہ بات بھی تو ہے کہ اپنے پریتم کے نام لکھی چٹھیاں کون کسی ایرے غیرے کو پڑھواتا پھرتا ہے ؟ اک بات یہ بھی قابل غور ہے کہ شاعر کو وہ سب کچھ معاف ہے جونثر سے لکھنے میں قابل تعذیر ہو جاتا ہے۔ اجمل نیازی ہی کے لفظوں میں :’’شاعری ان جگہوں کا احوال ہے جہاں جانے کی آرزو ہے ۔ ان راستوں کا نوحہ ہے جہاں جانا منع ہے اور ان زمانوں کا نغمہ ہے جن کا راستوں کو انتظار ہے ‘‘۔ نوے کی دہائی کے شروع میں ان کا سفر نامہ ہند ’’مندر میں محراب‘‘ شائع ہوا۔ اس سفر نامہ نے ادبی حلقوں کو چونکا کے رکھ دیا۔ اس کے بعد اجمل نیازی نے بہت کچھ لکھا۔ایک عرصہ تک وہ روزانہ’’ نوائے وقت ‘‘ میں کالم بھی لکھتے رہے ۔ لیکن سچ یہی ہے کہ وہ اس پایہ کی تحریر پھر نہ لکھ سکے ۔ در اصل تخلیقی عمل کے لئے جس فرصت اور یکسوئی کی ضرورت ہوتی ہے وہ انہیں پھر میسر ہی نہ آئی ۔ آخری عمر میں لکھی سیرت رسولؐ شاید شائع ہی نہ ہو سکے ۔ کالم نگار اجمل نیازی سے اسی زمانہ میں اسی ’’مندر میں محراب‘‘ کے حوالے سے ان سے متعارف ہوا۔ پھر ان سے بہت میل ملاقاتیں رہیں۔حالات کے مطابق کبھی کم کبھی زیادہ ۔ بہت سے واقعات ہیں اور بہت سی یادیں لیکن اک مختصر سا کالم اتنی تفصیلات متحمل نہیں ہو سکتا۔ آپ کو ان کے جنازے میں لئے چلتے ہیںجہاں یہ کہانی ختم ہو گئی ۔ہرانسانی کہانی کا آخر کار یہی کچھ انجام ہے ۔ کسی جنازے میں گھر والوں کے چہرے صاف پہچانے جا سکتے ہیں۔ یہی حزن و ملال کی سچی تصویر ہوتے ہیں۔ صر ف انہی کی رو رو کرآنکھیں تھکی دکھائی دیتی ہیں۔ انہی نے کچھ کھویا ہوتا ہے ۔جنازہ میں اجمل نیازی کے اک عمر کے ساتھی توفیق بٹ کا چہرہ بھی گھر والوں جتنا ہی سوگوار دکھائی دیا۔ کالم نگار کے ہمراہ جنازے میں چلتے ہوئے شاعر لاہور شعیب بن عزیز اپنے شعر کا دوسرا مصرعہ ’’ہمارے لوگ مرتے جا رہے ہیں ‘‘زیر لب دہرا رہے تھے ۔اس شعر کا پہلا مصرعہ ’’ کوئی روکے کہیں دست اجل کو‘‘شاید اسلئے ان کی زباں پر نہیں تھا کہ وہ موت کی ابدی حقیقت کو خوب جانتے ہیں ۔ یہ آکر ہی رہنی ہے ۔ پھر بیچاری زندگی ہے بھی موت کی امانت۔