پی ڈی ایم اور زمبابوے کی ٹیم
ماضی میں زمبابوے کی کرکٹ ٹیم بہتر کھیلنے والی ٹیموں کیلئے آسان ہدف ہوا کرتی تھی۔زمبابوے کی ٹیم میں دو یا تین بلے باز ایسے ہوتے تھے جن پر پوری ٹیم کا انحصار ہوتا تھا ۔حریف ٹیم کے بائولر ان کھلاڑیوں کو آؤٹ کرنے کے بعد ہی میچ جیت جانے کا جشن منانا شروع کردیتے تھے۔زمبابوے میں چونکے کرکٹ اتنی زیادہ نہیں کھیلی جاتی اس لیے ٹیم میں اچھا کھیلنے والے کھلاڑی کم ہی ہوا کرتے تھے۔بین الاقوامی کرکٹ قوانین کے تحت ٹیم میں گیارہ کھلاڑی ہوتے ہیں جو میدان میں اترتے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے بھی سیاست کے میدان میں ایسی ہی ایک ٹیم اتار دی ہے۔پی ڈی ایم میں کل گیارہ جماعتیں شامل ہیں لیکن زمبابوے کی ٹیم کی طرح اچھا کھیلنا صرف جمیعت علما ئے اسلام،پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن ہی جانتی ہیں باقی جماعتوں کا ہونا نہ ہونا تقریبا برابر ہی ہے۔پی ڈی ایم نے پہلا جلسہ کیا تو قیادت میں اختلاف سب کے سامنے آگیا۔مولانا فضل الرحمان جنہوں نے جلسے میں شامل ہونے کیلئے جمعے کی نماز کے بعد نکلنا تھاوہ عصر کے بعد نکلے اور راستے میں قیام کرتے کرتے جلسے میں اس وقت پہنچے جس وقت بقول انکے جلسہ نہیں کچھ اور ہوا کرتا ہے۔ بہرحال چونکہ مولانا میدان میں تھے تو پھر جلسہ بھی عبادت ہی شمار ہوگا۔پی ڈی ایم کا دوسرا جلسہ کراچی میں منعقد ہوا۔جلسے میں انتظامی طور پر کئی خامیاں تھیں لیکن ایک ایسے شخص کو جلسے میں بلا کر پی ڈی ایم کا وقار پست کیا گیا جو ماضی میں اداروں اور ریاست کیخلاف زہر اگلتا رہا ہو آخر خود کو محب وطن کہنے والے قائدین کے ساتھ اس کا کیا کام تھا؟پی ڈی ایم کی قیادت سے دوسری غلطی محمود خان اچکزئی کو دعوت خطاب دینا تھی۔محمود خان اچکزئی کو کسی صورت پختون قوم کا ترجمان تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔مذہب پرستوں،قوم پرستوں اور سیکیولر جماعتوں کے اتحاد میں شامل محمود خان اچکزئی ایک ایسی شخصیت ہیں جو اپنے صوبے کیلئے بھی کبھی کچھ نہیں کرسکے۔ایسے شخص کا اسٹیج پر کھڑے ہوکر ملک کی قومی زبان کے متعلق غیر ذمہ دارانہ بیان دینا اور پھر دیگر قائدین جنکی جماعتیں کراچی سے مینڈیٹ لیتی ہیں انکی تردید نہ کرنا آخر کیا معنی رکھتا ہے؟حکومتوں کیخلاف ماضی میں بھی ایسے اتحاد بنتے رہے ہیں اور خود عمران خان بھی ان اتحادوں میں شامل رہے ہیں۔ایسا اتحاد بننا کوئی نئی بات نہیں ہے رہا سوال کہ اس اتحاد کا حکومت پر کتنا دباؤ ہے تو شاید اس اتحاد کا حکومت پر بالکل کوئی دبائو نہیں بلکہ اتحاد میں شامل افراد کی اپنی غلطیاں ان کے گلے پڑ رہی ہیں جس طرح عمران خان کی ماضی کی تقاریر آج ہر فیصلے پر انکا منہ چڑاتی ہیں۔پہلے ہی جلسے میں میاں نواز شریف کا بانی متحدہ بننے کی کوشش کرنا،کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کا مزار قائد میں جاکر سیاسی نعرے لگانا اور پھر انکی گرفتاری،محمود خان اچکزئی کا بیان جیسی غلطیاں پی ڈی ایم کو مستحکم نہیں بلکہ مزید کمزور کریں گی۔بلاشبہ اس وقت عوام حکومتی پالیسیوں سے تنگ ہیں۔عوام کی اکثریت اب کپتان اور انکی ٹیم سے بدزن ہوچکے ہیں ایسے میں ایک بہترقیادت اور عوام کا ساتھ حکومت کیلئے بڑی مشکل کھڑی کرسکتا ہے۔پی ڈی ایم کوئٹہ میں پھر میدان سجانے جارہی ہے۔ اس جلسے کے بعد مولانا کو کچھ دیر سوچنا ہوگا کہ وہ کس سمت جارہے ہیں۔آخر اس اتحاد میں جماعت اسلامی اہم جماعت اور اسٹریٹ پاور شو کرنے کی ماہر تنظیم کو شامل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی؟اے پی سی میں شرکت سے انکار کے بعد کیا جماعت اسلامی سے ربطہ کیا گیا؟پی ڈی ایم میں جمیعت علما ئے پاکستان شامل ہے لیکن اس جماعت کا علامہ شاہ احمد نورانی کے بعد وہی حال ہوا ہے جو عمران خان کے بغیر تحریک انصاف کا ہونا ہے کیا وجہ ہے کہ چند افراد پر مشتمل اس جماعت کو تو اتحاد کا حصہ بنا لیا گیا لیکن تحریک لبیک پاکستان کی قیادت سے رابطہ نہیں کیا گیا؟کراچی میں جلسہ انتہائی اہمیت کا حامل تھا لیکن یہ جلسہ کراچی کے نمائندوں کے بغیر ہی کردیا گیا۔چلیں متحدہ قومی موومنٹ حکومت کا حصہ ہے لیکن سید مصطفی کمال،آفاق احمد یا فاروق ستار جو کہ کراچی کے کسی حد تک نمائندے ہیں اور ایم کیو ایم کے شدید مخالف بھی لیکن انہیں شامل کرنے کی کوشش بھی نہ کی گئی۔خود جمیعت علما ئے اسلام کو ہی دیکھ لیجئے علامہ راشد سومرو تو نظر آئے لیکن کراچی میں جمعیت کے کرتا دھرتا قاری محمد عثمان سامنے نہ تھے؟پختون قوم پرست جماعتوں کو تو شامل کیا گیا لیکن سندھ میں ان قوم پرست جماعتوں سے رابطہ کیوں نہیں کیا گیا جو گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کا حصہ نہیں ہیں۔سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والے کہتے ہیں کہ اتحاد بنتے نہیں بنائے جاتے ہیں کہیں اس اتحاد کی بھی صورتحال ایسی ہی تو نہیں؟اتنی بڑی سیاسی غلطیاں کیوں ہورہی ہیں؟پی ڈی ایم کا مقصد واقعی حکومت کو گھر بھیجنا ہے یا کسی ادارے کیخلاف محاذ آرائی کرنا یا کچھ اور؟مولانا ایک دور اندیش سیاست دان ہیں انکی مذہبی حلقوں میں خاصی اہمیت ہے،اداروں مخالف،اردو مخالف اور ریاست مخالف افراد کے ساتھ بیٹھنے کے بجائے انہیں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو ساتھ لے کر ایک مذہبی اتحاد قائم کرنے کی کوشش کرنا ہوگی اس سے حکومت پر دبائو بھی بڑھے گا اور اگلے انتخاب میں مولانا کی پوزیشن بھی مستحکم ہوگی۔