وزیر اعظم عمران خا ن نے گزشتہ روز کہا تھا کہ وہ میاں نواز شریف کو برطانیہ سے ہر حال میں واپس لائیں گے اور جیل میں ڈالیں گے اس کیلئے انہیں لندن جا کر وزیر اعظم بورس جانسن سے بھی ملنا پڑا تو ملیں گے اسی حوالے سے برطانوی حکومت کو خط بھی لکھا ہے۔ اسکے جواب میں میاں نواز شریف کے بیٹے حسین نواز کا کہنا تھا کہ وہ بھی عمران خان کے حوالے سے برطانوی حکومت کو خط لکھ رہے ہیں اوراگر عمران خان بر طانیہ آئے توجس ہوٹل میں وہ ٹھہریں گے وہاں وہ پریس کانفرنس کرینگے ۔ اس سے پہلے عمران خان نے پی ڈی ایم کے گوجر انوالہ کے جلسے کے بعد جواب دیتے ہوئے بلاول اورمریم کو بچہ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ انکی باتوں کا جواب نہیں دیں گے اب کافی دیر بعد مریم بی بی کو یاد آیا کہ ان باتوں کا حساب بھی بے باق کیا جائے تو کراچی سے واپسی کے بعد انہوں نے اپنے شوہر صفدر کی گرفتاری کے حوالے سے انکوائری کی بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بڑوں کے درمیان لڑائی کی بات ہے اور بچوں کا یعنی عمران خان کا اس سے کیا تعلق۔ سنجیدہ حلقے بڑے میاں صاحب کے بچوں کی ان باتوں کو سنجیدہ نہیں لیتے تو ٹھیک ہی کرتے ہیں۔ ہم خود حیران ہیں اپوزیشن آئینی طریقے سے اپوزیشن کا کردار ادا نہیں کر رہی ۔ جب پارلیمنٹ موجود ہے تواپوزیشن کا اصل کام پارلیمنٹ میں بیٹھ کر حکومت پر تنقید کا اپنا حق استعمال کرنا چاہئیے تھا اور جو معاملات عدالتوں میں ہیں تو عدالتوں میں جا کر اپنے خلاف کیسوں کا سامنا کرنا چاہئیے تھا۔ کتنے پتے اپوزیشن کے پاس ہیں لیکن لگتا ہے کہ کسی نے اتنے سانحات کے بعد بھی کچھ نہیں سیکھا اور بم کو لات مارنے پر تلے ہیں۔
این آر او۔۔ سابق صدر اور سابق آرمی چیف پرویز مشرف نے عین اس وقت جب انکی حکومت مستحکم تھی اور عوام بھی حالات سے مطمئن تھے باہر کی طاقتوں کے دبائو پر اور کچھ اپنی سوجھ بوجھ کے مطابق ملک میں سیاسی اور عسکری قوتوں کے مابین مفاہمت کے جذبے سے 5اکتوبر 2007کو پیپلز پارٹی کی قائد مرحومہ بے نظیر کو این آر او دیا تھا ۔ اس national reconciliation ordinance یعنی قومی مفاہمت کے فرمان کے تحت یکم جنوری 1986 سے لے کر12اکتوبر 1999تک ماضی کے تمام کیسوں پر مٹی ڈال دی گئی تھی ۔ اس فرمان سے ایم کیو ایم اور ن لیگ سمیت تمام پارٹیوں کے سیاسی لیڈروں بیوروکریٹس اور دوسرے متعدد افراد نے فائدہ اتھایا تھا انکے منی لانڈرنگ قتل غبن فراڈ سمیت تمام کیس ختم کر دیے گئے میاں نواز شریف بھی اسی آرڈی ننس کا فائدہ اٹھا کر واپس آئے سیاسی طور پر توقع تھی کہ اب سب تائب ہو کر آگے بڑھیں گے لیکن اسی آرڈیننس سے فائدہ اٹھا کر حکومت بنانے والی پیپلز پارٹی کے دور میں اس دور کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے جن کے خلاف انکے بیٹے کے حوالے سے ریفرنس بھی تھا اور انہیں ایک تحریک کے ذریعے بحال کرایا گیا تھا اس آرڈی ننس کو غیر آئینی قرار دیکر 16دسمبر 2009 کومنسوخ کر دیا تھا جس سے سیاسی طور پر ایک بار پھر بھونچال سا آ گیا۔ ان دنوں جب این آر او دینے یا نہ دینے کی بات ہوتی ہے تو ماضی کے وہ تمام واقعات یاد آ جاتے ہیں جب این آر او کیء منفی نتائج سامنے آئے تھے اور اس آرڈی ننس کے ’’خالق‘‘ نے اپنی حکومت کے خاتمے اور اقتدار سے علیحدگی کے حوالے سے اپنی آخری تقریر ان الفاظ پر ختم کی تھی کہ پاکستان کا خدا ہی حافظ۔ ایسا لگا ہے کہ انکے خدشات درست ثابت ہوئے اور انکے بعد سیاسی قائدین نے یعنی پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے اپنے اپنے دور میں محاذآرائی کی سیاست سے حالات کو بدتر سے بدترین سطح تک پہنچا دیا۔ اب بھی صورتحال یہی ہے کہ طاقت سے جمہوری عمل اور حکومت کوختم کرنے کے اعلانات ہو رہے ہیں اور ایک طرف یہ کہا جا رہا ہے کہ این آر او نہیں دیا جائے گا تو دوسری ایسے حالات پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جس سے تاثر یہی نکلتا ہے کہ حکومت نیب کیس ختم کرے تو اپوزیشن سڑکوں پر نہیں آئیگی ۔
ریڈ زون ایریا: لاہور کے ریڈ زون ایریا کو عملی شکل دینے کیلئے ایک عرصہ سے فیصلے ہونے کے باوجود ابھی تک بات نہیں بن سکی۔گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ میں بھی اس کی بازگشت سنائی دی ۔ عجیب با ت ہے کہ ہائی کورٹ ہی فیصلہ دے چکی ہے کہ لاہور کی شاہراہ قائد اعظم سول سیکرٹریٹ تک ایسا علاقہ ہے جس کے بند ہونے سے پورا شہر بند ہوجاتا ہے اس لئے اس ایریا میں کوئی جلسہ ہڑتالی کیمپ یا جلوس نہیں نکالا جا سکتا۔ مگر اس حکم کی بھی کھلی خلاف ورزی ہوتی رہتی ہے ایک اہم بات اور بھی ہے اور وہ یہ کہ احتساب عدالت ان دنوں سیشن کورٹ کے احاطہ میں ہے اور یہ علاقہ بھی مجوزہ ریڈ زون کے ساتھ ہے صرف اس ایک عدالت کو یہاں سے شفٹ کرنے سے علاقے کے لاکھوں لوگوں کو سیاسی کیسوں کی آئے دن شنوائی اورعلاقے کو سیل کر دینے کے باعث پریشانی سے نجات مل سکتی ہے ۔ ریڈ زون کی حد تک وزیر اعلی عثمان بزدار حکومتی رٹ کو بحال کرنے کیلئے جو اقدام بھی کریں گے عوام ان کا پورا ساتھ دیں گے ۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024