والدِ محترم کی محض خطابت کو لے لیجیے تو ان کی تقریر کی معراج یہ تھی کہ لوگ انکے ہونٹوں کی جنبش کا انتظار کرتے تھے ، فرماتے تھے میں جانتا ہوں کہ مجھے لوگوں سے کیا کہنا ہے اور لوگ کیوں جمع ہوئے ہیں ، میں ان کے چہرے کی شکنوں اور نگاہوںکے ڈوروں سے اپنے موضوع کا انتخاب کرتا ہوں جب عوام سامنے ہوتے ہیں تو مضامین غائب سے آتے ہیں -میں اپنے اس مضموں کا اختتام انکے ایک چھوٹے سے قول سے کر رہا ہو ںجو اکیس دسمبر 1970ء کو چٹان میں شائع ہو ا، فرماتے ہیں ! ’’حقیقت یہ ہے کہ کچھ لوگ معانقہ قلم تو ایک طرف مصافحہ دشنام کے بھی اہل نہیں ہوتے ، درحقیقت یہ ہر محفل اور رات کا چراغ ہوتے ہیں‘‘، بالکل ٹھیک کہا تھا آج ان کو ہم سے جدا ہوئے 45 برس بیت گئے ان کا یہ شعر مجھے موجودہ حالات میں بہت یا د آرہا ہے - ؎
وہی حجاج بن یوسف وہی مختار بن ثقفی
اسی پہلی ڈگر پر چل رہا ہے کارواں ساقی
ملک کے نامور سکالر اور شاعر محترم رئیس امروہی مرحوم نے حضرت آغا شورش کاشمیری ؒ کیلئے جب وہ آزادی صحافت اور سربلندی جمہوریت کیلئے آمریت کے ہاتھوں کراچی سنٹرل جیل میں نظر بند تھے ایک شہرہ آفاق نظم جو انہوں نے خصوصی طور پر ہفت روزہ چٹان کیلئے لکھی تھی اسی کے چند اشعار سے اپنا مضمون شروع کر رہا ہوں - ؎
شعورمہر بہ لب ہے قلم بریدہ زبان
سوال یہ ہے کہ اس مرحلے پہ کیا لکھئیے
رواج قتل ِ سخن ہو تو جانِ من شورش!
قلم کو آلۂ خونریزی قضا لکھیے
میرے قلم پہ مسلط تھا صورت ِ عفریت
یہی سوال کہ اس مرحلے پہ کیا لکھئیے
ملا جواب کہ لکھنا اگر ضروری ہو
تو اختصار سے لکھنے کا مدعا لکھئیے
جناب آغا شورش کاشمیریؒ کی زندگی کا بغو ر جائزہ لیا جائے تو ایک پہلو نہ صرف نمایاں نظر آتا ہے بلکہ سب سے زیادہ طاقتور حیثیت بن کر اُبھرتا ہے کہ انہیں قلبی ، فطری اور دینی اعتبار سے انگریز سامراج اور اسکے تخلیق کردہ فرقے مرزائیت سے اتنی ہی نفرت تھی جتنا تلوارکو رخم لگانے سے پیار ہوتا ہے- اُنکا اپنا یہ شعر ان کی شخصیت کو جانچنے ، پرکھنے اور سمجھنے کیلئے انتہائی موزوں ہے - ؎
ہر اک دور کے آقا غلام ابن غلام
ہر اک عہد کی تاریخ چند سودائی
فرمایا کرتے تھے !
’’ جو لوگ کسی جمال و کمال کے بغیر اپنے خدا ہونے پر اصرار کریں اور پھر گماںہو کہ بڑے آدمیوں میں سے ہیں ، انہیں نہ تو ذہن قبول کرتا ہے او ر نہ دل مانتا ہے اور نہ قلم کے ہاں ان کیلئے کوئی عزت ہے - میں نے اس قسم کے خداؤں اور انسانوں سے ہمیشہ بغاوت کی ہے ‘‘- بقول شور ش کاشمیری ؒ ؎
تخت یا تختہ پہ جب رکھی گئی اپنی نہاد
ہم کسی حجاج بن یوسف سے ڈر سکتے نہیں
پاؤں کی ٹھوکر پہ رکھتا ہوں جلالِ خسرواں
میرے آقاؐ، میرے مولاؐ، رحمتہ للعالمین
میں خطیب العصر ہوں شاہ اُممؐ کے فیض سے
ہر معاصر ہے مرے زور ِ قلم کا خوشہ چیں
پھر ایک ایسی شخصیت کے بارے میں لکھنا میر ے جیسے کم علم و کم فہم کیلئے کٹھن مرحلہ ہو جاتا ہے، جس کی علمی تربیت مولانا ابوالکلام آزاد ؒ، صحافتی پرورش مولانا ظفر علی خان ؒ،خطابت کا سحر مولاناسید عطا اللہ شاہ بخاریؒ سے حاصل کیا ہو جس کی نمازجنازہ حضرت مولانا مفتی محمود ؒ پڑھاتے ہوں اور جس کی قبر پر اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان شہید ذوالفقار علی بھٹوتمام پروٹوکول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے میانی صاحب قبرستان پہنچتے ہوں اور جس کے جنازے میں حضرت پیر گولڑہ شریف حضرت سید معین الدین شاہ صاحب ؒ اور حضرت سید عبدالحق شاہ صاحبؒ (المعروف بڑے لالہ جی اور چھوٹے لالہ جی ) پیدل جنازے کے ساتھ چل رہے ہوں ،وہ شخص سچا عاشق رسول ﷺ ہی ہو سکتا ہے - چند ماہ قبل مجھے انسپکٹر جنرل پولیس ،معروف کالم نگا ر و مصنف محترم ذوالفقار احمد چیمہ کی والد محترم کے حوالے سے لکھی گئی انتہائی جاندار اور غیر جانبدار تحریرپڑھنے کا موقع ملا جس میں انہوں نے آغا شورش کاشمیری ؒکے بارے میں لکھا ’’موجودہ دور میں آغا شورش کاشمیری ؒ پر سرکاری سطح پر کبھی ایک لفظ تک نہیں کہا گیا -‘‘ یہ ایک ایسی حقیقت اور سچائی ہے جو مجھ سمیت آغا شورش کاشمیری ؒ سے کسی نہ کسی حوالے سے تعلق ، محبت ، عقیدت اور عشق رکھنے والوں کے ذہنوں کو پریشان اور دلوں کو افسردہ اور بے چین رکھتی ہے، ویسے تو شورش کا شمیری ؒ کی پوری زندگی کو دیکھا جائے تو انہوںنے دو ہی چیزوں سے برملا انکار کیا’’ ایک اقتدار اور دوسرا سرکار‘‘شورش صاحب کے یہ اشعار ان کی شخصیت اور نصب العین کی صحیح عکاسی کرتے ہیں-
قید خانوں کے درودیوار تھے میرے لیے
ہرطرف ہنگامہ ہائے دار تھے میرے لیے
میں بھی استبداد کے منہ پر طمانچے مار کر
مسکرایا بار ہا تیغ و ثناء کے وار پر
سرفروشوں کی بدولت یہ زمین آزاد ہے
سنتِ شبیر پاکستان کی بنیاد ہے
مجھے اس موقع پر والد محترم کے ساتھ’’ سرکار و اغیار کا ‘‘منافقانہ اور شاطرانہ رویہ اس وقت سمجھ میں آیا جب کچھ عرصہ قبل ایک تقریب میں جمعیت العلمائے اسلام کے امیر محترم مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کا موقعہ ملا - ان سے میرا تعارف کرایا گیا تو وہ انتہائی شفقت ، محبت اور خلو ص سے ملے اور پھر شورش صاحب کے حوالے سے ایک واقعہ سنایا -فرمانے لگے!
’’جب میں دس بار ہ برس کا تھا اپنے والد محترم حضرت مولانا مفتی محمود ؒ کی ایک مجلس میں موجود تھا تو کسی شحض نے میرے والد محترم مولانا مفتی محمود ؒسے استفسار کیا کہ حضرت کیا بات ہے کہ اس ملک میں مشہور و معروف شخصیت کے حوالے سے کوئی نہ کوئی شاہراہ ، عمارت ، یادگار ، لائبریری ، باغ باغیچے ، پل اور انڈرپاسز منسو ب ہیں ،شورش کاشمیری ؒ کے نام پر کیوں نہیں - جس پر مولانا مفتی محمود ؒ نے تاریخی او ر حقیقت پر مبنی جواب دیا کہ ’’ شورش کاشمیری کے نام پر اس ملک میں کوئی چیز یا یادگار اس لیے نہیں رکھی جاتی کہ وہ ایک ایسا شخص تھا جو دل سے انگریزکا دشمن تھا-‘‘
یہاں مجھے والد محترم کے دوشعر یا د آرہے ہیں!
بارہا سختئی قانون کا دل ٹوٹ گیا
میری للکار سے انگریز کے ایوانوں میں
اب میں اک تہمت بے جا کے سوا کچھ بھی نہیں
دس برس کاٹ کے پنجاب کے زندانوں میں
………………… (جاری)
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024