آغا شورش کاشمیری مجلسِ احرار سے وابستہ تھے اس لیے تحریکِ پاکستان میں حصہ نہ لے سکے کیونکہ مجلسِ احرار تحریک پاکستان کے ساتھ نہ تھی پھر پاکستان بننے کے بعد مولانا مظہر علی اظہر جو قائد اعظم کو کافرِ اعظم کہہ کر کافی ’’شہرت‘‘ حاصل کر چکے تھے‘ کے اخبار آزاد کے عملۂ ادارت میں شامل ہو گئے لیکن اخبار چل نہ سکا اور آغا صاحب اپنے حصے کی ایک مشین لے کر ویرا ہوٹل جو ان کے خاندانی دوست پر بودہ کی ملکیت تھا میں آ کر ہفتہ وار چٹان شائع کرنا شروع کر دیا۔ جب خواجہ عبدالرحیم اور راجہ حسن اختر اور حمید نظامی نے مرکزیہ مجلسِ اقبال قائم کی تو راجہ صاحب اس کے صدر اور آغا صاحب سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے جو وہ آخر وقت تک رہے۔
ڈاکٹر جاوید اقبال نے ایک بار کہا تھا کہ علامہ اقبال اور قائد اعظم کے ساتھ صرف تین شخصیات کا نام لگایا جا سکتا ہے۔ محترمہ فاطمہ جناح، جسٹس ایم ۔ آر کیانی اور حمید نظامی لیکن مسلم لیگ اور قائد اعظم کے مشن کو آگے بڑھانے کے لیے حمید نظامی تنہا رہ گئے باقی سب آمریت اور غیر جمہوری طاقتوں کے ساتھ مل گئے ایسے میں صرف آغا شورش کاشمیری واحد شخصیت تھے جو غیر جمہوری عناصر سے نبرد آزما تھے۔ اس لیے حمید نظامیؒ نے آغا صاحب کی طرف ہاتھ بڑھایا جنہوں نے اسے تھام لیا۔ ان کا اخبار چٹان بھی بند کر دیا گیا تھا۔ اس طرح نظامیؒ اور شورش کاشمیری کے درمیان دوستی قائم ہو گئی جو آخر وقت تک قائم رہی۔ نظامی صاحب کی وفات کے وقت بھی دونوں راہنما جمہوریت بحال کروانے کی کوشش کر رہے تھے کہ اس کشمکش میں نظامیؒ صاحب اختلاج قلب کے باعث اللہ کو پیارے ہو گئے۔ آغا صاحب نے مجید نظامی صاحب کو لندن ٹیلیفون کر کے بلایا جنہوں نے واپس آ کر نوائے وقت کی ادارت سنبھال لی اور حمید نظامیؒ کے مشن کو جاری رکھا۔
آغا شورش کاشمیری خلوص اور وفا کا پیکر تھے۔ 1964ء میں جب راجہ حسن اختر کا ناگہانی طور پر انتقال ہو گیا تو وہ مجید نظامی اور ابو صالح اصلاحی کو لے کر راولپنڈی پہنچے اور وہاں جو منظر دیکھا اس پر تقریباً آنسو بہائے ۔ پورے شہر راولپنڈی پر الھڑ دوشیزہ کا گمان ہوتا تھا۔ جنازے میں یہی کوئی دو اڑھائی سو آدمی اور جنازے کے ساتھ صرف دو کاریں جو ان کے دوستوں کی تھیں۔ وہ راولپنڈی کے ایک شاہی گھرانے کے فرد تھے لیکن کسی کو اس چیز کا احساس نہ تھا۔ آہ! ایک غریب اور مخلص کارکن کی موت تھی۔ 1965ء میں راجہ حسن اختر کے خوبصورت اور وجیہہ صاحبزادے میجر مسعود اختر کیانی شہید ہو گئے۔
آغا صاحب کی تمام خدمات کو لکھنے کے لیے ایک کتاب چاہئے، ان کی دو کتابیں ’’بوئے گل نالۂ دل دردِ چراغ محل اور زندان نامہ مطالعہ کی جا سکتی ہیں۔ ان کا یہ کارنامہ کہ جب ہر طرف اسلامی سوشلزم کا چرچہ تھا سوشلسٹوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو گئے ا ور حکومت میں آنے کے باوجود ان کو سوشلزم نفاذ کرنے کی ہمت نہ ہوئی اور پھر آخر میں قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے میں کامیاب ہو گئے۔
مسئلہ ناموسِ رسالت کے تحفظ کا ہو یا عقیدۂ ختم نبوت کی حفاظت کی خاطر جدوجہد کا ہو تو پھر شورش کاشمیری تیغ بدست اور کفن بردوش ہو کر میدان میں نکل آتے تھے۔ رسول پاکؐ کی محبت میں ہر سچے مسلمان کی طرح شورش کاشمیری کا بھی پوری زندگی یہ نصب العین رہا …ع
نہ جب تک کٹ مروں مَیں خواجہ یثرب کی حرمت پر
خدا شاہد ہے ایماں میرا مکمل ہونہیں سکتا
یہ عشقِ رسولؐ ہی تھا، جس نے شورش کاشمیری کو ان کی زندگی کے آخری سانس تک ایک جھوٹے مدعی نبوت کے پیروکار قادیانیوں کے خلاف سرگرم عمل رکھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پارلیمنٹ کے ذریعے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دلانے میں شورش کاشمیری کی مسلسل اور پیہم جدوجہد تحریک ختم نبوت کی تاریخ کا ایک روشن ترین باب ہے۔
قادیانیوں کے آئینی طور پر غیر مسلم قرار دیئے جانے کے بعد وہ اپنے ساتھ ملنے والوں سے انتہائی مسرت اور فخر سے یہ گفتگو کیا کرتے کہ مجھ میں بے شمار کوتاہیاں ہوں گی،میرے گناہ بھی حد و شمار میں نہیں ہوں گے، لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے اور میرے ساتھیوں کو قادیانیت کے خلاف جہاد کرنے کی جو توفیق دی، اس کے انعام کے طور پر میرا یقین ہے کہ ہمارا رب ہمیں آخرت میں اپنے محبوب اور آخری نبیؐ کے قدموں میں ضرور جگہ دے گا۔ سچی بات بھی یہ ہے کہ عقیدہ ختم نبوت کے منکرین اسلام کے غداروں اور انگریزوں کے خود کاشتہ جھوٹے نبی کے گمراہ پیرو کاروں کے خلاف شورش کاشمیری کا زندگی بھر کا جہاد ان کے لئے سب سے بہتر سامانِ آخرت ثابت ہو گا۔
٭…٭…٭
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024