ہمارے والدین اکثر یہ باتیں کرتے رہتے ہیں کہ ہمارے دور میں کسی کے ساٹھ فیصد نمبر بھی آ جاتے تھے تو گھر والے بہت خوشی منایا کرتے تھے۔ سب کی تمنا ہوتی تھی کہ کسی طرح فرسٹ ڈویژن آجائے۔ اُس دور میں فرسٹ ڈویژن حاصل کرنا ایک معیار تھا۔ مطلب 60 فیصد نمبر حاصل کرنا مگر آج کل اتنے نمبر کوئی اہمیت نہیں رکھتے بلکہ فیل ہونے کے برابر شمار کئے جاتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ میں نے 90% والوں کو روتے ہوئے دیکھا ہے۔ میڈیکل میں تر جو طلباء 1100 میں سے 1050 تک نمبر لیتے ہیں صرف انہیں ہی کسی میڈیکل کالج میں داخلہ ملتا ہے۔ جو بھی ہزار سے نیچے نمبر لیتا ہے اس کا داخلہ کسی بھی کالج میں نہیں ہوتا بلکہ میری ایک جاننے والی نے ایک ہزار سے بھی دس گیارہ نمبر زیادہ لیے تھے اس کے باوجود اس کا میڈیکل میں داخلہ نہ ہو سکا۔
اب ایسی صورت میں جب طالب علم دن رات ایک کر دے اور پھر بھی اس کا داخلہ نہ ہو تو پھر وہ کیا کرے، کہاں جائے؟ اگر اس کے والدین میں اتنی استطاعت نہ ہو کہ وہ اس کو پرائیویٹ طور پر پڑھا سکیں تو یہ ایک لاینحل مسئلہ بن جاتا ہے۔ وہ طالب علم جو اپنے والدین کی معاشی حالت کو جانتے ہوئے بہت زیادہ محنت کرتے ہیں تا کہ وہ میرٹ یعنی سرکاری خرچے پر تعلیم حاصل کر سکیں ان کے لیے کوئی ایسی صورت نکالی جائے کہ کم ازکم اسی فیصد والوں کو تو داخلہ مل سکے۔ دوسری صورت میں کئی صاحبِ حیثیت طلباء ایسے ہیں جو 60 فیصد نمبر لے کر بھی چین اور دیگر ملکوں میں جا کر میڈیکل کی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور پھر ڈاکٹر بن کر واپس پاکستان میں ہی پریکٹس کرتے ہیں۔
اگر آپ کبھی ان ملکوں میں جائیں تو جہاز کی زیادہ تر سیٹوں پر ہمارے طلباء براجمان ہوتے ہیں جن کے نمبر تو کم ہوتے ہیں مگر ان کا خواب ڈاکٹر اور انجینئر بننا ہوتا ہے۔ اس طرح بھی پاکستان کا زرمبادلہ باہر جا رہا ہے۔ اگر محکمہ تعلیم یہاں ایسے انتظامات کر دے کہ جتنے پیسے وہ باہر دے کر پڑھ رہے ہیں اتنی فیس میں وہ یہاں تعلیم جاری رکھ سکیں تو کیا ہی اچھا ہو۔ پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کم نمبروں والا اتنی محنت کرے کہ بہت اچھا اور کمٹڈ ڈاکٹر بن کر قوم کی خدمت کر سکے۔ بجائے اس کے کہ وہ بچہ جس نے کالج سے نمبر تو بہت لیے ہوں لیکن اس کی اتنی دلچسپی نہ ہو۔ اس پر بھی غور و فکر کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے حکومت پاکستان اور خصوصی طور پر حکومت پنجاب کو بھی سوچنا چاہئے کہ ہمارے طالب علموں کے اندر ایک عجیب سی بے بسی اور مایوسی بڑھتی جا رہی ہے۔ میڈیکل اور انجینئرنگ کے حوالے سے ایک ہی طرح کے حالات ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اگر آپ اتنے زیادہ لوگوں کو داخلہ نہیں دے سکتے تو پھر اس کے لئے پہلے سے کوئی ایسی حکمت عملی تیار رکھیں تاکہ لوگ اس طرف نہ جائیں۔ وہ کسی اور شعبے کا انتخاب کر سکیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں اس وقت بھی ڈاکٹروں کی کمی ہے۔ ہمارے میرٹ پر آنے والے بہت سے طلباء ڈاکٹر بن کر باہر چلے جاتے ہیں اور یہاں کے مسائل اُسی ڈگر پر رہتے ہیں۔
میرے پاس ایک خط آیا ہے وہ خط میں اس کالم کا حصہ بنانا چاہتی ہوں۔ اس میں ایک والد نے اپنا دُکھڑا رویا ہے جس کی بیٹی نے گیارہ سو نمبروں میں سے ایک ہزار گیارہ نمبر لئے ہیں مگر میڈیکل کالج میں اوپن میرٹ پر داخلہ حاصل نہیں کر سکی۔ اس نے استدعا کی ہے کہ صاحبِ حیثیت کے لئے پرائیویٹ کالجز موجود ہیں۔ محنتی اور ضرورت مند طلباء جنہوں نے 80 فیصد تک نمبر حاصل کئے ہوں کے لئے شام کی کلاسز کا اجراء کیا جائے۔ اس پر حکومت کو توجہ دینی چاہئے تاکہ ہمارا ٹیلنٹ آگے بڑھے اور ہماری نئی نسل مایوسیوں سے نکل کر کامیابی کی شاہراہ پر گامزن ہو سکے اور ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38