انجم نیاز لکھتی ہیں ‘‘عقل مندوں کا کہنا ہے کہ تجربے کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا لیکن میں انہیں غلط ثابت کرنا چاہتی ہوں۔۔۔یہ پیری نہیں بلکہ جوانی ہے جہاں سے دانائی سچائی اور حوصلے کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ ولولہ انگیز جذبات سے لبریز نوجوانوں کے دل خوف اور خدشات سے پاک ہوتے ہیں۔ زندگی اور موت سے ماورا ہو کر وہ آمادہ عمل رہنے میں اپنی شان سمجھتے ہیں۔ میں اپنے دعوے کے ثبوت میں ایک نوجوان پاکستانی لڑکی کی کہانی آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتی ہوں جو خود دنیا میں موجود نہیں۔ زندگی میں امکانات کا حصول کس طرح ممکن ہوتا ہے ؟ نو صدیاں پہلے شیخ سعدی نے یہ حقیقت ایک مصرع میں بیان کر دی تھی ‘‘بزرگی بہ عقل است، نہ بہ سال ‘‘۔۔۔ یہ کہانی ایک جواں سالہ مومنہ چیمہ کی ہے جو نیو یارک میں ایک کار حادثہ میں اللہ کو پیاری ہوگئی۔۔۔ (اقتباس انجم نیاز کالم زندگی اور موت کا اردو ترجمہ ) اور پھر انجم نیاز نے معروف اردو اخبار میں تفصیلی تعزیتی کالم لکھا۔ اس سے پہلے ڈان اخبار میں بھی ایک تعزیتی کالم لکھ چکی تھیں۔ آہ۔۔۔ انجم نیاز بھی چلی گئیں۔ انا للہ و اناالیہ راجعون۔۔۔ ابھی کل ہی بیٹی مومنہ سے اداسی میں ایک تحریر لکھی تھی اور انجم نیاز بھی یادوں میں کہیں بیٹھی مسکرا رہی تھیں۔ لمحہ بھر کو دل چاہا انجم جی کی خیر خبر لوں کہ مدت ہوگئی ہے اس میٹھی عورت سے بات ہوئے۔ پہلی اور آخری ملاقات نیو یارک میں میرے بیٹوں کے ولیمہ دعوت پرہوئی تھی۔ولیمہ تقریب پر انجم جی نے مومنہ چیمہ فائونڈیشن سے متعلق انگلش میں بہترین تعارفی مضمون پڑھا۔ خوبصورت اور ذہین خاتون کے انداز بیان سے مہمانوں سے بھرا ہال متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔انجم نیاز ڈان اخبار کی معروف رائٹر اور رپورٹر تھیں۔ کچھ عرصہ سے دونوں میاں بیوی نیو جرسی اپنے بیٹے کے پاس رہائش پذیر تھے۔ انجم جی نے نیو یارک میڈیا کے توسط سے جب جواں سالہ ایک قابل پاکستانی امریکن طالبہ کے حادثہ کی اطلاع سنی تو بے حد دل گرفتہ ہوئیں۔ میری بیٹی کا دل خراش واقعہ انجم نیاز سے تعارف کا سبب بنا۔ لیکن اس پیاری خاتون نے اس واقعہ کو ایک حادثہ نہیں بلکہ ایک عظیم نقصان کے طور پر محسوس کیا اور لکھا بھی۔ حساس اور عظیم لوگ ہی موت کے حادثات کو قلبی طور پر محسوس کر سکتے ہیں۔انجم نیاز کو ہم جانتے بھی نہیں تھے اور نہ وہ ہمیں جانتی تھیں لیکن ہمارے نقصان نے اس عظیم خاتون کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا جبکہ پاکستانی صحافت میں ہم ایسے متعدد نام جانتے ہیں جو ہمیں جانتے ہوئے بھی ہماری بیٹی کے المناک حادثہ پر دو جملے لکھنے یا بولنے سے محروم ہی رہے۔ انسان کو دو لوگ تمام عمر نہیں بھول سکتے ، ایک وہ جنہوں نے غم میں ساتھ دیا اور دوسرے وہ جو غم میں غائب رہے۔ صحافی برادری میں بڑے بڑے نام ہیں جو دنیادار اور سخت دل ہیں لیکن گفتگو اور تحریروں سے لوگوں کو بیوقوف بناتے ہیں۔انجم نیاز کی طرح بہت کم لوگ نیچرل اور نیاز مند ملیں گے۔ انجم جی کے شوہر سے بات ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ سال پہلے کینسر ہوا اور ہفتہ کی رات اچانک ہارٹ اٹیک ہوا۔انجم نیاز کی مٹی نیو جرسی میں لکھی تھی۔ اگلے جہان میں مومنہ بیٹی ظاہر اور باطن میں حسین دلبر خاتون انجم نیاز سے مل کر یقیناً خوش ہوگی۔ انجم نیاز نے مومنہ کی یاد میں دوسرا کالم ‘‘ زندگی اور موت’’عنوان پر لکھتے وقت کب سوچا تھا کہ ایک روز مومنہ کی ماں طیبہ ضیا بھی بیٹھی ‘‘ زندگی اور موت ‘‘ پر ایک کالم انجم نیاز کی یاد میں لکھ رہی ہو گی۔ہماری اکثر فون پر بات ہوتی تھی۔ انجم ایک تعلیم یافتہ بڑے باپ کی بیٹی تھیں جبکہ ان کی عاجزی اور اخلاق انہیں مزید بڑا بنا گیا۔ حالات حاضرہ پر گہری نظر رکھتی تھیں۔امریکہ میں رہنا شاید مجبوری تھی کہ ان کا دل وطن کے لئے سوچتا اور لکھتا تھا۔مومنہ چیمہ فائونڈیشن کے تحت وومن امپاورمنٹ کے کاز کی بے حد حوصلہ افزائی کرتی تھیں ، ایک روز فون پر کہنے لگیں کہ ہم بہن بھائیوں نے بھی اپنے والد کی یاد میں چیر ٹی ورک شروع کیا تھا۔ میری دعا ہے مومنہ کا مشن جاری رہے۔ہم بڑے جوش سے چیرٹی ورک شروع کرتے ہیں لیکن ان اقدامات کے لئے مستقل مزاجی کی اشد ضرورت ہے۔کوشش کریں بھلے چھوٹے لیول پر کام کیا جائے لیکن مستقل بنیادوں پر قائم رکھا جائے اور مجھے لگتا ہے مومنہ اسے جاری رکھے گی ‘‘۔۔۔انجم نیاز کی تحریریں پاکستان کے مختلف اردو اخبارات میں ترجمہ کے ساتھ شائع ہوتی رہیں۔ کینسر کے مرض میں مبتلا ہونے کے بعد انجم جی سے لکھنا مشکل ہو گیا۔اور پھر ان کی تحریریں اچانک خاموش ہوگئیں دو روز قبل ڈان اخبار میں موت کی خبر نے افسردہ کر دیا۔ اللہ تعالی انجم نیاز کی مغفرت فرمائیں۔ آمین
٭٭٭٭٭٭
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38