کلن خان بولے! آپ نے گڑے مردے اکھاڑناشروع کردئیے؟ آپ کی بات نہیں سمجھا؟ آپ نے ماضی بعید اور ماضی کے ہمارے اکابرین و زعماء تحریر کئے ان کا جسد خاکی منوں مٹی تلے دب کر خاک نہیں ہوا۔ آپ ان کی روح کوکیوں تڑپا ر ہے ہیں؟ جو ابدی نیند ہورہے ہیں‘ سونے دیں۔ آپ کی باتوں سے ان کی روح تڑپتی ہوگی۔ یہ دیکھ کر ملک و مذہب اورملت کے لئے جو کچھ کیا اس کو تہہ و بالا‘ برباد کرنے والوں میں اضافہ کیوں؟ کلن خان آپ کی بات صحیح با وزن ہے۔ میرامطمع نظر ان زعماء قوم پرست اور مذہبی ہستیوں کے بارے میں اپنی موجودہ اور آنے والی قوم کو آگاہی دینا ہے ۔ تاریخ برصغیر کامطالعہ کرتے ہیں جو سیکنڈری تعلیم کے دوران ہم کو پڑھائی جاتی‘ اساتذہ ان ہستیوںکے بارے میں بتاتے شاید اتنی توجہ نہ تھی‘ لیکن عمر بڑھنے کے ساتھ توجہ بڑھ گئی۔ اس طرح جیسے کوئی شخص اپنے ماضی کی تعریف کرتا ہے‘ حال کو برا کہتا ہے لیکن جب اس کا حال گزر کرماضی بن جاتا ہے تو اس کو اپنا گزرا ہوا زمانہ بھلا لگتا ہے۔ کلن خان نے میری بات کی تائید کی بولے ہاں! مجھے یاد ہے ساتویں جماعت میں اردو کی کتاب میں سرسید احمد خان کامضمون پڑھا جس کا نام ’’گزرا ہوا زمانہ‘‘ تھا آپ کی بات نے مجھے بھی ماضی یاد دلا دیا۔
مسلمانوں کیلئے نامساعد حالات رہے‘ 1857ء میں ’’جنگ آزادی‘‘کے بعد برصغیر کا نظم و نسق برطانیہ نے خود لیا اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔اختیار کے ساتھ برصغیر کے مسلمانوںکے لئے سیاسی‘ اقتصادی اورمعاشرتی تباہ حالی کا تاریک دورشروع ہوا۔ برطانوی حکومت کی پالیسی یہ تھی کہ مسلمانوں کو منظم طریقہ سے تباہ کیا جائے‘ حکومت کی واضح ہدایات تھیں۔ غیر مسلموں سے ترجیحی سلوک کیا جائے‘ بات پرانی ہے لیکن اگر غورکریں توآج بھی مسلمانوں کے ساتھ وہی رویہ اختیار کیا گیا ہے‘ جو دور برطانیہ میں برصغیر میں کیا گیا‘ شاید وہی کچھ ہورہا ہے۔ اس بات کی بے حد خوشی ہے ہم آزاد ہیں‘ پاکستان ہمارا ملک ہے‘ لیکن چند لوگ ملک و ملت کے خلاف کام کررہے ہیں۔ آج بھی وہ اغیارکی باتوں اور ہدایات پر عمل پیرا ہیں‘ لیکن مسلمان ماضی میں جس طرح اپنی جدوجہد میں رہے‘ آج بھی وہ قائم ہیں۔ بڑی بات یہ ہے ہم کچھ نہیں بھولے یہ قوم کا بڑا پن ہے وہ اپنے ماضی کونہ بھولے‘ اس سے سبق لیں‘ آئندہ کی راہ ہموار ہوجاتی ہے۔انگریز نے ہمارے ساتھ منفی رویہ رکھا‘ وہ تاریخ میں موجود ہے۔ ہم کو سمجھ لینا چاہئے یہ کبھی مسلمانوں کے ہمدرد نہیں ہوسکتے۔ میرے خیال میں ملک کی اکثریت یہ سب سمجھ چکی ہے لیکن میں نئی نسل اور آنے والی نسل کے لئے دور ماضی کو مختصراً عرض اس لئے کرتا ہوں تاکہ ان کے علم میں رہے‘ جس طرح برصغیر میں ’’جدا گانہ انتخاب‘‘ کے بارے کہا گیا ہے کہ اس وقت ہندو مال و زر میں کھیل رہے تھے اور مسلم قوم بالعموم غربت میں تھی‘ چونکہ ’’حق رائے دہی‘‘ کی بنیاد جائیداد اور آمدنی تھی اس لئے ووٹ دینے کا حق زیادہ تر ہندوئوں کو ملتا تھا۔ مسلم ووٹروں کی تعداد ان علاقوں میں بھی برائے نام تھی‘ جہاں ان کی اکثریت تھی‘ ان حالات میں مسلمانوں کامنتخب ہوناکم و بیش ناممکن تھا کہ ہندو صرف اپنے ہم مذہبوں کو ہی ووٹ دیتے تھے۔ بالفرض کہیں کوئی مسلمان امیدوار ہندوئوں کے ووٹوںسے منتخب ہوبھی جاتا تو اسے مسلم قوم کے مفاد کی نگہداشت کی بجائے اپنے ووٹروں کے جذبات کا خیال رہتا۔ الغرض مغربی طرز کی نمائندہ حکومت کا مطلب ہندو حکومت کا قیام تھا‘ جس میں مسلمانوں کی سنوائی نہ ہوئی۔ 1905ء میں انگلستان میں لبرل حکومت برسر اقتدار آئی‘ نئے وزیر ہند مسٹر مارلے نے اعلان کیا کہ حکومت برصغیر میں اصلاحات نافذ کرنا چاہتی ہے۔ اس پر برصغیر کے مسلم زعماء نے نئے آئین میں مسلمانوںکے حقوق محفوظ کرنے کی تدابیر پر غور کرناشروع کیا۔ نواب محسن ا لملک اس وقت علی گڑھ کالج کے سیکرٹری اور سرسید احمد خان کے جانشین تھے۔ انہوں نے برصغیر سے ستر مسلم لیڈروں کاایک وفد تیارکیا۔ یکم اکتوبر 1906ء کو یہ وفد سر آغا خان کی قیادت میں شملہ کے مقام پر وائسرائے لارڈ منٹو سے ملا اور مسلم نقط نگاہ کی وضاحت کی مطالبہ کیا کہ حکومت کے تمام مدارج (ڈسٹرکٹ بورڈ وں‘ میونسپلوں‘ کونسلوں) میں مسلمانوں کو الگ نمائندگی دی جائے اور مسلم نمائندے مسلمانوں کے ووٹوں سے منتخب ہوں‘ وائسرائے نے وفد کی رائے سے اتفاق کیا اور مسلم مفادات کے تحفظ کا یقین دلایا۔ کانگریس کی بنیاد وائسرائے کے ایماء اور ہجوم کی کوشش سے پڑی تھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ وائسرائے کی یقین دہانی کے باوجود اپنے مطالبات منوانے کے لئے کافی جدوجہد کرنا پڑی۔ انہیں انگلستان کی لبرل حکومت‘ انگریز حکام اور کانگریس کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ ’’جدا گانہ انتخاب‘‘ مسلمانوں کی جدوجہد آزادی میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس سے مسلمانوں کی الگ اورمنفرد حیثیت کو تسلیم کرلیا گیا۔ اس طرح عملاً پاکستان کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا۔ ہندو مسلم اتحاد‘ مسلمانوں کی عنان سیاست ابھی تک اعتدال پسند سیاست دانوں کے ہاتھ میں تھی لیکن 1911ء کے بعد ایسے حالات پیش آئے کہ مسلمانوں کا جوش و خروش بڑھ گیا۔ وہ حکومت کے خلاف صف آراء ہوگئے۔ اس کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ انگریز دشمنی کی وجہ سے ہندو مسلم وقتی طورپر اپنے خیالات بھول گئے اور ان میں ا تحاد پیدا ہوگیا‘ اگلے سال کانپور میں ایک مسجد کے بعض حصوں کو اس لئے منہدم کردیا گیا کہ سڑک کو چوڑا کیا جاسکے۔ 1911ء میں اٹلی نے طرابلس پر حملہ کردیا اور مسلمان باشندوں پر آدمیت سوز مظالم ڈھائے‘ اگلے سال ’’جنگ ہائے بلقان ‘‘ کا آغاز ہوا۔
ان حالات میں مسلم لیگ پر ترقی پسند اور جرات مند نوجوانوں کاگروہ غالب آنے لگا‘ جن میں قائد اعظم محمد علی جناح بھی شامل تھے۔ مسلم لیگ کا مرکزی دفتر علی گڑھ سے لکھنو منتقل ہوچکا تھا‘ جہاں یہ جماعت اعتدال پسند لیڈروں کے اثر سے نکلنے لگی۔ یہاں تک 1912 ء میں ’’موزوں خود اختیاری‘‘ کا حصول اس کا نصب العین قرار دے دیا گیا‘ ساتھ ہی ہندو مسلم اور کانگریس سے اشتراک رجحان تیزہوگیا۔ 1916 ء میں لکھنو کے مقام پر مسلم لیگ اور کانگریس کے سالانہ اجلاس ایک ساتھ منعقد ہوئے۔ کانگریس جداگانہ انتخاب کے طریق کو قبول کرنے لگی‘ مرکزی اسمبلی میں مسلم نمائندوں کی تعداد منتخب اراکین کی مجموعی تعداد کی ہم پلہ ہوگئی کونسلوں میں 2/5 اراکین اور 1/5 نامزد ہوںگے۔
تاریخ ظاہر ہے طویل ہے لیکن میں اس مختصر تحریر میں جوبتانا چاہتا ہوں امید ہے اکثریت نے سمجھ لیا ہوگا مزید اس طرح سمجھیں ’’رسی جل گئی بل نہ گئے‘‘ قلمکار ہو یا مورخ اگروہ غیر جانب دار ہو کر حقائق بیان کررہا ہے تو ایسا ہی ہے فارسی‘ اردو‘ انگریزی‘ فرانسیسی اور عربی زبانوں میں اس دور کے ا ور بعد کے مورخین نے تاریخ لکھی ہے جس میں یہ بات نمایاں ہے مسلمانوں کے ساتھ ظلم ہوتارہا‘ مختلف حیلے بہانے سے قتل عام کیا گیا۔ یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ ان ساری تاریخی کتب میں موجود ہے جو یہ سب بتارہی ہیں۔ آخر میں یہی کہوں گا ’’رسی جل گئی بل نہ گئے‘‘۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024