کراچی وہ بد نصیب شہر ہے جو تاریخی حیثیت رکھنے کے باوجود حکمرانوں کی منفی سوچ اور سیاسی انتقام کی زد میں رہتا ہے جبکہ ملک بھر کی اکائیاں اس شہر میں بستی ہیں ۔ کراچی ملک کا معاشی حب ہے 70فیصد ریونیو جنریٹ کرکے ملک کا پہیہ چلاتا ہے۔ پاکستان کے قیام سے پہلے کراچی میں ایک میونسپل کمیٹی ہوتی تھی جو پورے شہر کو سنبھالتی تھی۔ شہر کا میئر ٹرن کے لحاظ سے آدھی مدت کا ہندو اور آدھی مدت مسلمان ہوتا تھا۔ خوش قسمتی سے جس وقت پاکستان بنا اسوقت ٹرن مسلمان میئر کی تھی۔ جن کا نام حکیم محمد احسن تھا۔انہوں نے نو مئی 1947کو اپنا عہدہ سنبھالا تھا جبکہ اس سے قبل وشرم داس دیوان میئر تھے۔ کراچی کا سب سے اہم ادارہ یہ میونسپل آفس تھا جو آج بھی اسی طرح بلدیہ عظمی کراچی کی عمارت پر داخل دفتر ہوتے ہوئے درج ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کو اسی عمارت میں میئر کراچی حکیم احسن نے استقبالیہ دیاتھا ۔ یہی بلدیہ عظمیٰ کراچی خانہ کعبہ کا غلاف تیار کرکے سعودی عرب کو بھیجنے کی سعادت حاصل کرچکی ہے۔ اسی کے ایم سی سے دیگر اداروں نے جنم لیا لیکن کراچی جسکی سڑکیں دھلا کرتی تھیں ۔ اب اس حال میں ہے کہ دوسرے اداروں کو جنم دینے والی کے ایم سی کا ان اداروں پر کوئی کنٹرول نہیں ۔ 2009میں کراچی عملی طور پر روشنیوں کاشہر کراچی تھا جسکی مثالیں بین الاقومی سطح پر دی جا رہی تھیں لیکن سیاسی چپقلش ، نئے نئے تجربات اور انتظامی خامیوں ، فنڈز کے غلط استعمال ، محکموں کی بند ر بانٹ کے بعد کراچی کا یہ ادارہ عوام کی نظر میں اب بھی ہر طرح کی سہولت دینے والا ادارہ ہے لیکن حقیقتا یہ مخصوص فیچرز پر محدود ادارہ رہ گیا ہے مختلف اداوار میں اسے اپ گریڈ کرکے کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن کا درجہ دیا گیا لیکن اب اسکی حالت میونسپل کمیٹی جیسی ہے۔ کراچی کے اس ادارے کا مین سورس آف انکم آکٹرائے تھا جسکی آمدنی اتنی تھی کہ بلدیہ عظمی کراچی نے 1989میں حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کو دو کروڑ کی امداد دی جبکہ 1993میں آکٹرائے چھن جانے کے بعد اسکا شیئر بھی تعصب کا شکار رہا اور آج 2018تک بھی شیئر وہی دیا جا رہا ہے۔ گو ایم کیو ایم پاکستان نے تحریک انصاف کے ساتھ تحریری معاہدے میں اسکا شیئر بڑھانے کی یقین دہانی مانگی ہے لیکن تاحال اس پرکوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔چیف جسٹس آف پاکستان نے گزشتہ دو روز تک بین الاقوامی سمپوزیم جو سپریم کورٹ کے احاطے میں منعقد ہوا ۔ پانی سمیت بہت سے مسائل پر لب کشائی کی جو ایک سچے پاکستانی کی آواز تھی اسکی 20منظور کردہ قراردادیں ملک کے مستقبل کے لئے خوش آئند بھی ہیں ۔ ان پر عمل سے ملک پانی پر جنگ کے خطرات سے باہر آئے گا لیکن اس کے ساتھ ساتھ چیف جسٹس کو کراچی کے مسائل اور مشکلات کا ادراک کرتے ہوئے یہاں کی احساس محرومی کے خاتمے کے لئے بھی کردار ادا کرنا ہوگا۔ کراچی کی آبادی کو ہر مردم شماری میں کم گنوا کر حکمراں کراچی میں استحصال کا ماحول گرم کرتے رہے ہیں یہ حقائق آشکار بھی ہو چکے ہیں ۔اس مرتبہ ایک کروڑ افراد کو کم گنا گیاجس سے ملازمتوں سے لیکر ہر جگہ کراچی کے عوام کاکوٹہ ہر شے میں کم ہوگیا۔ کے ایم سی کے فنڈز بھی اسی بنیاد پر اور کم کردیئے گئے۔ سوال یہ ہے کہ اس کھیل سے ملک کی خدمت ہو رہی ہے یا لسانیت کے زہر کو تقویت دی جا رہی ہے۔ کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے میئر وسیم اختر کی جس وقت نامزدگی ہوئی اسوقت بہت سے محکمے کے ایم سی کے پاس تھے لیکن جب انہوں نے 30اگست2016کو میئر کراچی کا حلف لیا تو اسوقت کے ڈی اے، ماسٹر پلان ، ایس بی سی اے، کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی، لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹی ، لوکل ٹیکس ، ایجوکیشن ، لٹریسی، ہیلتھ، میڈیکل ، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کے محکمے چھن چکے تھے جبکہ اب فوڈ پارٹمنٹ بھی ان سے چھن چکا ہے۔ بلدیہ کراچی کو اچھی حکمت سے میئر کراچی اپنی ٹیم اور جماعت کی سپورٹ سے 16نومبر2016سے ابتک بہترین انداز میں دستیاب وسائل سے لیکر چل رہے ہیں ۔ 100روزہ صفائی مہم بھی اچھے انداز میں چلائی محکموں کو درست سمت میں گامزن کیا۔ سیاسی مسائل اور رکاوٹوں کے باوجود انکی اچھی گرفت سے کے ایم سی چل نکلی ۔ تاہم ایک اچھا افسر نہ ملنے سے وہ بہت سے مسائل کا شکار رہے کئی مرتبہ ایسا وقت آیا کہ بلدیہ کراچی میں انکا میونسپل کمشنر نہیں تھا لیکن ایک انتہائی اچھے منتظم اور اعلی کردار کے مالک افسر ڈاکٹر سیف الرحمان کی تعیناتی کے بعد کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن جو وسائل کے لحاظ سے میونسپل کمیٹی لگتی ہے اسے بہترین اسپرٹ سے چار چاند لگا دیا ہے ۔ میئر کراچی کے احکامات پر عمل درآمد ہو یا عدالتی معاملات ڈاکٹر سیف الرحمان اپنی رٹ جانتے ہیں اور انہوں نے افسران کو بھی رٹ دی ہے جسکے بعد کے ایم سی میں آہستہ آہستہ بہتری آرہی ہے۔ جو ان افسران کے سربراہ ہونے کے ناطے کے ٹیلنٹ کو صحیح استعمال کررہے ہیں ‘ ڈیڈ محکموں کو بھی فعال کرچکے ہیں ۔ کے ایم سی کو مفت کا مال سمجھ کر عدالتوں سے ریلیف لیکر مختلف محکموں کی آمدنی روکنے والے اداروں سے اب قانونی طریقے سے نمٹا جا رہا ہے۔ کے ایم سی پر الزام لگتا رہا ہے کہ یہاں گھوسٹ ورکرز ہیں اب کے ایم سی میں تھمب امپریشن حاضریاں شروع ہو گئیں ہیں ۔ ریکوریز میں اضافے میں انکا بہت اہم کردار ہے ۔ انکی سپورٹ کی وجہ سے محکمہ جات اسٹینڈ لے رہے ہیں ۔ میئر کراچی نے گزشتہ دنوں ریکوریز کی میٹنگ میں شرکت کی تو انہیں انتہائی مسرت ہوئی کہ اب محکمہ جات کراچی کا اہم فرد بن کر بحیثیت افسر اہم کردار ادا کر رہے ہیں جسکا کریڈٹ میٹروپولیٹن کمشنر کو جاتا ہے۔ کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کا میونسپل سروس کا بل جو کے ایم سی کی بنیادی آمدنی ہے اس میں اضافے کے لئے میٹروپولیٹن کمشنر نے میئر کراچی کو سرپرائز کردیا ہے کہ نئے ٹیکس نیٹ میں کروڑوں روپے کا ضافہ ہورہا ہے۔ جبکہ کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن جسے غیر اہم ادارہ سمجھ کر ایٹ سورس رقوم کاٹ لی جاتی تھیں ۔ لیکن اسکے واجبات دلانے کے لئے حکومت سندھ کا کوئی کردار نہیں تھا۔ میٹروپولیٹن کمشنر نے کے الیکٹرک جو اربوں کا نا دہندہ ہے۔ پی ٹی سی ایل جو چھ کروڑ کا نا دہندہ ہے۔ پولیس ڈپارٹمنٹ جو چار کروڑ کا نا دہندہ ہے۔ اسی طرح ویٹرنری ڈپارٹمنٹ کے ڈیوز، ای اینڈ آئی پی ، کے ڈی اے کے ایم سی تنازعات حل کرانے کے سلسلے میں اہم کردار ادا کیا ہے جبکہ میئر کراچی نے صوبائی وزیر بلدیات سعید غنی کے ساتھ ملکر شہر کی خدمت کے لئے حکمت عملی کی اچھی کوشش شروع کی ہے۔ کراچی کو فنڈز دینے کے معاملے میں وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتیں تساہل سے کام لے رہی ہیں جس سے عوام کو ریلیف نہیں مل پارہا ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کراچی کے لئے کم از کم 500ارب روپے کی گرانٹ دی جائے ۔ جسکے لئے ورلڈ بنک اور یو این ڈی پی کو بھی کے ایم سی کی اسکیمز کے لئے فنڈنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ سیٹیز ن کمیونٹی بورڈ جیسے منصوبے کے ایم سی میں انٹریشنل این جی اوز یو این ڈی پی ، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، ہینڈز، ایجوکیشن سیکٹرز کو کے ایم سی کے اشتراک سے کرنے کی ضرورت ہے جہاں میئر کراچی وسیم اختر اور میٹروپولیٹن کمشنر ڈاکٹر سیف الرحمان جیسے جہاندیدہ افسر ان اسکیموں کو شہر کی قسمت بدلنے کے لئے مثبت انداز میں یوٹیلائز کرسکتے ہیں۔ پاکستان ریڈ کریسنٹ سوسائٹی جس کا کراچی میں کام کم ہے اسے کے ایم سی کی مدد کرنی چاہئیے اور پانی کے پلانٹس جو انہیں جرمن ریڈ کراس ، آسٹریلین ریڈ کراس سے با آسانی مل سکتے ہیں فراہم کیلئے جائیں ۔ ہلال احمر کے ایم سی کے سٹی وارڈنز کو والینٹری ٹریننگ بھی دے سکتی ہے جو وہ ڈیزاسسٹر مینیجمنٹ کے لئے کر سکتے ہیں۔ کراچی شہر کی بد حالی پر ریڈ کریسنٹ کو خصوصی کردار ادا کرنا چاہئیے جس کے لئے کراچی کے لئے چیئرمین میٹروپولیٹن کمشنر کو اور صدر میئر کراچی وسیم اختر کو بنا کر جسکی پی آر سی قوانین میں گنجائش موجود ہے کراچی کی ترقی میں حصہ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ تحریک انصاف جو کراچی کی اسوقت سب سے بڑی جماعت ہے اور اسکے سب سے زیادہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین ہیں جبکہ کراچی ہی سے وابستہ صدر پاکستان بھی منتخب ہوئے ہیں ۔ کراچی کو نظر انداز کرنا اور اسکو فنڈز میں تاخیر بھی اسکی شہرت کے لئے اور خود اسکے لئے نیک شگون نہیں اس لئے ہم توقع کرتے ہیں کہ اس جانب بھی توجہ دی جائے گی۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024