اگلی عالمی جنگ پانی کیلئے لڑی جائیگی۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کا ادراک نہ کرنیوالوں کیلئے مستقبل کے منظر نامے میں غلامی کے سوا کوئی جگہ نہیں۔ فہم و فراست رکھنے والی حکومتیں کئی دہائیاں پہلے اس حقیقت کو تسلیم کر کے اپنے بچاﺅ کے اقدامات کا آغاز کر چکیں۔ چین، امریکہ، بھارت اور برطانیہ وغیرہ نے پانی پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کیلئے اپنی بحری طاقت میں اضافے کے ساتھ ساتھ پانی ذخیرہ کرنے کی طرف بھی خصوصی توجہ دے رکھی ہے اور اپنی اِس استطاعت میں مسلسل اضافہ کرتے چلے جا رہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ پانی کی کمی انکی مملکت کیلئے ایک ناسُور کی حیثیت رکھتی ہے اوریہ کہ پانی پر گرفت انکی اپنی بقا کیساتھ ساتھ دوسروں پر برتری کی بھی ضامن ہے۔ جو ممالک پانی کو ذخیرہ کرنے کی طرف توجہ نہیں دے رہے وہ نہ صرف موجودہ دور میں مسائل کا شکار ہیں بلکہ مستقبل میں بھی غلامی کی طرف بڑھتے چلے جائینگے۔ بدقسمتی سے وطن عزیز پاکستان بھی اپنے حکمرانوں کی پالیسیوں کے سبب اسی خطرے سے دوچار ہے۔پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے اور پانی کو ذخیرہ کرنے کے وافر مواقع کے باوجود نہ صرف پانی کی کمی کے خطرے سے دوچار ہے بلکہ گزشتہ کئی برس سے سیلاب کی تباہ کاریوں کی بھی زد میں ہے۔ 2007ئ، 2010ءاور حالیہ سیلاب کی وجہ سے پاکستان تقریباً60 ارب ڈالر کا معاشی نقصان برداشت کر چکا ہے۔ ہزاروں قیمتی جانوں کا نقصان اسکے علاوہ ہے۔اس وقت پاکستان میں کل ملا کر 154 ڈیمز ہیں جو پانی ذخیرہ کرنے کےساتھ ساتھ توانائی کا بھی بیشتر حصہ پیدا کر رہے ہیں جبکہ زیر تعمیر اور مجوزہ ڈیمز کی تعداد 24 تک ہے مگر اس وقت بھی یہ تعداد پاکستان کی تونائی اور پانی کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے ناکافی ہے۔ اگر ہم باقی دنیا پر نظر ڈالیں تو وہ اس میدان میں کہیں آگے نکل چکے ہیں۔ مستقبل کی سپر پاور اور دنیا میں تیز رفتار ترقی کرتے ہوئے ملک عوامی جمہوریہ چین میں اس وقت 22265 ڈیمز موجود ہیں، امریکہ میں 9262، بھارت میں 4710 ، سپین میں1267، کوریا میں1205، جاپان میں 1121، جنوبی افریقہ میں915، کینیڈا میں 793، برازیل میں635، ترکی میں625، فرانس میں597، اٹلی میں 549، میکسیکو میں536، برطانیہ میں517 اور آسٹریلیا میں 507 ڈیمز موجود ہیں۔ یہ بات بھی بجا ہے کہ محض ڈیمز کی تعداد کی بنا پر ہم پانی کے ذخائر کا اندازہ نہیں لگا سکتے مگر فی کس پانی کی ضروریات کے لحاظ سے بھی ہم مذکورہ بالا ممالک سے تقریباً اتنا ہی پیچھے ہیں جتنا کہ ڈیمز کی تعداد کے لحاظ سے۔ ایشیائی بنک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان اس وقت پانی کی کمی کا شکار ہونے کی حد تک پہنچ چکا ہے جو کہ سالانہ1000 مکعب میٹر فی کس تک ہے جبکہ قیامِ پاکستان کے وقت پاکستان میں فی کس کے لحاظ سے سالانہ 5000 مکعب میٹر پانی میسر تھا جو کہ اب تقریباً آخری حد1000 مکعب میٹر تک رہ گیا ہے اور مستقبل قریب میں یہ حد 800 مکعب میٹر فی کس سالانہ تک گرنے کا خطرہ ہے‘ اس وقت پاکستان کے پاس محض 30 دن کے ذخائر موجود ہیں جبکہ مقرر کردہ حد کیمطابق 1000 دن تک کے ذخائر موجود ہونے چاہئیں تھے۔ اگر ہم صرف بھارت سے ہی اپنا موازنہ کریں تو آبادی کے تناسب کے اعتبار سے پاکستان میں اس وقت کم از کم 785 ڈیمز ہونے چاہئےں تھے یا پھر اسی تناسب سے تربیلا اور منگلا جیسے چند بڑے ذخائر ہونے چاہئے تھے جیسا کہ کالا باغ ڈیم۔ کالا باغ ڈیم کا منصوبہ اپنی لوکیشن اور لاگت کے لحاظ سے پاکستان میں ایک آئیڈیل ڈیم کی حیثیت رکھتا ہے مگر افسوس کے ہم نے اس منصوبے کو سیاست کی نذر کر کے اسے شروع ہونے سے پہلے ہی دفن کر دیا۔ وگرنہ اب بھی بامقصد بات چیت اور عملی کاوشوںکے ذریعے صوبہ سندھ اور خیبر پی کے کے اعتراضات کو دور کر کے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے۔ اگر کالا باغ ڈیم بن جائے تو نہ صرف یہ کہ اس سے 3600 میگا واٹ بجلی پیدا ہو گی بلکہ دریائے سندھ میں آنیوالے سیلاب کا بھی ہمیشہ کیلئے سدِباب ہو جائے گا اور سالانہ لاکھوں کیوسک پانی سمندر میں گر کر ضائع ہونے سے بھی بچ جائےگا جسے ہم زراعت سمیت دوسرے مقاصد کیلئے استعمال کر کے پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں ۔
موجودہ حکمران اگر میٹرو بس منصوبے پر دن رات کام کر کے اسے چند ماہ میں پایہ¿ تکمیل تک پہنچا سکتے ہیں تو نئے ڈیم بنانا بھی ان کیلئے کوئی مشکل کام نہیں ہونا چاہئے۔ موجودہ اور آنیوالی حکومتوں پر لازم ہے کہ پہلے سے زیرِ تعمیر بھاشا ڈیم اور داسو ڈیم وغیرہ کی بروقت تکمیل کیساتھ ساتھ کالا باغ ڈیم سمیت مزید نئے ڈیمز کی تعمیر کو بھی میٹرو بس کی طرح ہنگامی بنیادوں پر شروع کیا جائے اور کم سے کم عرصے میں مکمل کر کے مملکتِ پاکستان کو سیلاب کی تباہ کاریوں اور توانائی کے بدترین بحران سے نجات دلانے کیساتھ ساتھ مستقبل کے منظرنامے میں اپنی بقا کو یقینی بنایا جائے۔ وگرنہ تاریخ کبھی آپ کو اچھے الفاظ میں یاد نہیں کرے گی۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024